(کنعان آرزو/بلال اشفاق )
اسلام ایک آفاقی مذہب اور مکمل ضابطہ حیات ہے اور اسلام نے جو قانون انسانیت کو دیا ہے اس نے امیر اور غریب، شاہ و گدا کی تفریق ختم کر دی اور کسی بھی قانون شکنی کی صورت میں سب کو برابری کی بنیاد پر قابل گرفت قرار دیا ہے۔ اسلام نے تو اعلی عہدوں پر افراد پر زیادہ ذمہ داریاں عائد کی ہیں اور کوتاہی کی صورت میں انہیں زیادہ قابل گرفت قرار دیا ہے۔
لیکن ہمارے ملک پاکستان جس کی بنیاد ہی اسلام پر رکھی گئی تھی ، میں اسلامی نظام اور قانون کا نفاذ تو درکنار اسلام کے پیش کیے گئے اخلاقیات کے اصولوں کو بھی نہیں اپنا سکا۔
گزشتہ ہفتے اپنے آبائی شہر بالاکوٹ جانا ہوا۔ اس دوران بازار کا چکر لگا ۔ جمعہ کا مبارک دن تھا۔ چونکہ جمعہ کے روز آس پاس کے دیہاتوں کے لوگ نماز جمعہ کی ادائیگی اور گھریلو ضروریات کی اشیاء کی خریداری کے لیے شہر کا رخ کرتے ہیں اس لیے رش نسبتا زیادہ ہوتا ہے۔
اس روز ریڑھی بان بھی عموما سڑک پر ڈیرے جمائے ہوتے ہیں جس سے ٹریفک کی روانی اور راہگیروں کو تھوڑی مشکل کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔
شاید ایسی ہی صورت حال سے نجات کیلئے پولیس اور ٹریفک وارڈن بالاکوٹ بازار میں کاغان روڈ پر سڑک سے ٹیکسیاں اور ریڑھیاں ہٹانے میں مصروف تھے۔ یہ پولیس اور ٹریفک وارڈن جس طرف کا رخ کرتے، ریڑھی بان اور ٹیکسی ڈرائیور ازخود وہاں سے رفوچکر ہو جانے میں ہی عافیت جانتے۔ اگر کوئی پولیس اہلکاروں کے نرغے میں آ ہی جاتے تو اسے سخت ملامت کا سامنا کرنا پڑتا۔ ایسے میں ایک ذرا بڑی عمر کا ایک ریڑھی بان جو اپنے تقریبا 8 سال کے بچے کے ساتھ سڑک کنارے موجود تھا اور وہاں سے کھسکنے کی پوزیشن میں نہیں تھا، پولیس والوں کی ملامت اور لعن طعن سے بچنے کیلئے اپنے بچے کو چھوڑ کر کہیں دائیں بائیں ہو گیا۔ ایک پولیس اہلکار بچے کے پاس پہنچا اور کالر سے پکڑ کر جھنجھوڑتے ہوئے پوچھنے لگا کہ بتائو تمہارا والد کہاں ہے؟ معصوم بچہ جو پولیس والوں کی دوڑوں اور دہاڑوں سے پہلے ہی کافی ہراساں نظر آتا تھا کی آنکھوں میں آنسو تیرنے لگے۔ پولیس اور ٹریفک اہلکاوں کی جانب سے یہ کارروائی کئی گھنٹے جاری رہی۔
لیکن حیرت کی بات یہ ہے کہ پولیس اور ٹریفک اہلکار سڑک کے بیچو بیچ کھڑی بڑی اور جدید گاڑیوں کے مالکان سے کسی طرح کی پوچھ گچھ کرنے کی جرات نہیں کر سکے۔ ادھر بالاکوٹ مین بازار کمرشل مارکیٹوں کا تعمیراتی کام جاری ہے ۔ یہ ایک دو دن یا ایک ہفتے کی بات نہیں بلکہ کئی ماہ سے یہ تعمیراتی کام جاری ہے۔ سڑک کے پر جگہ جگہ بجری، ریت اور تعمیراتی میٹیریل کے ڈھیر لگے دکھائی دیتے ہیں۔ لیکن حیرت کی بات یہ ہے کہ سڑک پڑے تعمیراتی میٹیریل کے حوالے سے بااثر افراد سے نہ تو انتظامیہ کوئی پوچھ گچھ کر سکی اور نہ پولیس اور ٹریفک اہلکاوں کو یہ تعمیراتی میٹیریل اور جدید ماڈل کی گاڑیاں دکھائی دیں۔ انتظامیہ اور پولیس اہلکاروں کا زور تو ان غریب، بائیکا، ٹیکسی ڈرائیوروں اور ریڑھی بانوں پر ہی چلتا ہے۔ یہ کوئی انوکھا قانون ہے جس کا نفاذ صرف غرباء پر ہوتا ہے جب کہ امراء اس قانون سے مبرا ہیں۔ قانون کے رکھوالوں کو یہ بات ذہن میں رکھنی چاہیے کہ اللہ کی لاٹھی بے آواز ہے اور ناانصافی رب تعالی کو سخت ناپسند ہے۔ غرباء کو اپنے دنیاوی اختیارات کے ذریعے دبانے کی کوشش کرنے والوں کو یہ بھی نہیں بھولنا چاہیے کہ طاقت کے نشے میں گم پولیس اہلکار کی طرف سے معصوم بچے کو گریبان سے پکڑ کر جھنجھوڑے جانے سے اس کی آنکھوں میں آنے والے آنسو ان پولیس اہلکاروں کے لیے کسی بڑی تباہی کا پیش خیمہ ثابت ہو سکتے ہیں۔