Skip to content

نقل کا طلبہ کے معاشرتی سماجی اور اخلاقی زندگی پر اثرات

شیئر

شیئر

عباد سرور

آج کا نوجوان تہذیب ،روایات ،اخلاقیات ،سے نابلد کیوں ؟

نوجوان کسی بھی ملک و قوم کا قیمتی سرمایہ ہوتا ہے ۔ تاریخ شاہد ہے کہ کسی بھی ملک میں انقلاب آیا ہے تو ان انقلابات کا سہرا نوجوانوں کے ہی سر جاتا ہے ۔ نوجوان قوم کے بازو ہوتے ہیں ۔ کسی بھی قوم کی طاقت اس کے نوجوان ہوتے ہیں اگر نوجوان صراط مستقم پر ہیں اور انہیں اپنے راستے کے تعین کا اندازہ ہے تو وہ قوم کسی بھی صورت بھٹک نہیں سکتی

اور اگر کسی بھی ملک و قوم کے نوجوان راہ راست پر نہیں ہیں ۔ وہ سیاسی ،سماجی ،اخلاقی ، مذہبی تعلیم سے نابلد ہیں تو اس قوم کا سو فی صد خدشہ ہے کہ وہ راستے سے بھٹک سکتی ہے اور پستی و زوال اس کا مقدر بن سکتی ہے۔ ملکِ پاکستان کی تقریباً %64 فی صد آبادی نوجوانوں پر مشتمل ہے ۔ لیکن پاکستان کا نوجوان مایوس نظر آرہا ہے یا تو وہ فکر معاش کے نیچے دبا ہوا ہے یا تو وہ کسی سیاسی جماعت کا آلہ کار ہے یا پھر نشہ، چوری، ڈکیتی ،فرقہ بازی جیسی برائیوں کا شکار ہے ۔

ہم نے کبھی اس بات پر غور کیا ہے کہ اس کی بنیادی وجہ کیا ہے ؟ نوجوان یہ چیزیں اسی ماحول سے سیکھ کر آتا ہے ۔ گھر سے ، تعلیمی اداروں سے ، یا پھر کہیں دوسرے معاشرے سے ؟ یہ اسی ملک کا باشندہ ہے تو یہ یہاں سے ہی سب کچھ سیکھتا ہے یہ مسئلہ قابلِ غور ہے کہ ہمارے نو جوان مایوس کیوں ہیں ؟ ان میں قائدانہ صلاحیتیں کیوں نہیں ہیں ؟ ان میں چوری ، ڈکیتی ، اور نشے کی روش کیوں پائی جاتی ہے ؟

یہ سب سوالات ایک باشعور فرد کے ذہن میں گردش کرتے رہتے ہیں آئیں ان پر حقیقت کے آئینے میں بات کرتے ہیں ۔

"حقیقت کو اگر شکر میں بھی لپیٹ کر پیش کیا جاے پھر بھی کڑواہٹ ختم نہیں ہوتی”

ہمارے تعلیمی نظام میں ایک بہت بڑی برائی نقل جیسی لعنت موجود ہے ۔ ہمارے ادارے خود امتحانات کے دنوں میں اپنی مرضی کا عملہ لگاتے ہیں اور نقل کرواتے ہیں ۔ ہمارے اساتذہ کو اس بات کا علم نہیں کہ اس کا وقتی طور پر تو فائدہ ہوتا ہے مگر بچہ کی ذہنی صحت پر بہت برا اثر پڑتا ہے۔ بچہ ذہنی دباؤ، خوف ، مایوسی اور احساس کمتری کا شکار ہوتا ہے۔بچہ عملی زندگی میں کچھ سیکھ نہیں پاتا وہ یہ ہی نمبروں کے ڈھیر لے کر کل کسی نوکری کے لیے امتحان میں بیٹھتا ہے تو ناکام ہو جاتا ہے ۔ بچہ کے پاس نظریاتی سوچ نہیں ہوتی وہ نا دین کو سمجھتا ہے اور نہ دنیا کو وہ ہمیشہ مایوسی کا شکار جاتا رہتا ہے ۔ وہ اپنا پیٹ پالنے کے لیے رشوت، چوری ،بدعنوانی ،قتل، جیسی برائیوں کا سہارا لیتا ہے ۔یہاں پر سوالیہ نشان پیدا ہوتا ہے کہ نوجوان کو یہ تمام کام کرنے پر آمادہ کس نے کیا ؟

کسی بھی قوم کی ترقی کے لیے تعلیم بہت ہی اہم کردار ادا کرتی ہے ۔ تعلیم روشنی ہے ۔ اگر ہم دنیا میں جتنی بھی زندہ قوموں کی تاریخ اٹھا کر پڑھیں تو ہمیں واضح ثبوت ملتے ہیں کہ دنیا میں جتنی بھی قوموں نے ترقی کی ہے وہ صرف و صرف تعلیم کی ہی وجہ سے کی ہے ۔ لیکن ملکِ پاکستان پچھلے کئی سالوں سے ترقی کے بجائے پستی کی طرف گامزن ہے ۔
اگر ہم پاکستان کے تعلیمی اداروں کی حالت دیکھیں تو ہمارے سامنے ہے ۔ یہ بچہ کو کچھ سکھاتے نہیں بلکہ صرف (theory) ہی پڑھاتے ہیں عملی کام نہیں سکھاتے کہ زندگی میں آگے جا کر کیا کرنا ہے اس کے علاوہ ہمارے تعلیمی ادارے بچے کی اخلاقی تربیت یا اسے عملی زندگی میں پیش آنے والے مسائل پر اتنی توجہ نہیں دیتے جتنی توجہ وہ(profile نمبروں پر دیتے ہیں ہمارے تعلیمی اداے تعلیم کے ادارے نہیں بلکہ یہ اسنداد (degree) کی دکانیں ہیں جو صرف نمبروں کی دوڑ کے پیچھے لگے ہوئے ہیں ۔جس ادارے میں نمبر سب سے ذیاده آتے ہیں۔ ہماری نظر میں وہی ادارہ سب سے ذیادہ اچھااور بہترین ہے چاہیے وہ اخلاقی تربیت یا عملی زندگی پر توجہ دے یا نا دے ہمارے ہمارے ہاں معیاری تعلیم (Qulaity education) سے مراد اچھے نمبر ہیں ناکہ اخلاقیات اور ناہی والدین کا گھر میں بچے کی تربیت پر کوئی خاص توجہ ہے اس سے والدین کو کوئی سروکار نہیں صرف بچے کے نمبر اچھے آنے چاہیے ۔

ادارے کو اچھے نمبر اس لیے چاہیے کہ اگلے سال مزید داخلے ہوں ان کی دکان چلے کاروبار چلے اور والدین کو اچھے نمبر اس لیے چاہیے کہ ان کے بچے کی کہیں نوکری لگ جائے ان نمبروں کے ضمن میں بچہ اپنا اخلاقی معیار کھو دیتا ہے۔ آپ ذرا سوچیں بچہ رشوت، بد عنوانی ، جھوٹ ،عدم احساس ، ناجائز منافع خوری ،نقل جیسے منفی رویے یہ سب ایک ادارے میں 14 سے 15 سال ایسے ماحول میں جب وہ پروش پائے گا تو بچہ کی نفسیات پر برا اثر پڑتاہے وہ کیا سیکھے گا وہ بچے آگے جاکر عملی زندگی میں کیا کردار ادا کرپائے گا ؟

کل اگر وہ ایک ڈاکٹر ، وکیل ، انجینئر، ماہر تعلیم پروفیسر یا سیاست دان بنے گا، زندگی کے کسی بھی شعبے کے ساتھ منسلک ہوگا ۔
اگر اس کےاندر احساس نہیں ، اخلاقیات سے عاری ہے یا وہ جھوٹ بولتا ، رشوت لیتا ہے کوئی بھی ایسی اخلاقی برائی موجود ہے تو وہ معاشرے کے لیے کارآمد ثابت نہیں ہو سکتا اس لیے ہمارے اداروں کو چاہیے کہ وہ اپنے اداروں میں ماہر اساتذہ کو رکھیں ،جو تعلیم کے ساتھ ساتھ بچوں کی اچھی تربیت بھی کر سکیں ۔ انہیں عملی زندگی میں پیش آنے والے مسائل سے آگاہ کریں ان کی اخلاقی تربیت کریں ۔
استاد معاشرے کا قابل اخترام فرد ہوتا ہے استادکا مقصد صرف اور صرف خیالات کی ترسیل کرنا نہیں ہوتا بلکہ اسلام میں استاد کا بہت بڑا مقام ہے اساتذہ کو چاہیے کہ وہ اپنے نصاب کے ساتھ ساتھ بچوں میں سماجی ، اخلاقی ، مذہبی رواداری کو بھی قائم رکھیں تاکہ کل ادارے سے نکلنے والا بچہ کسی فن کا ماہر ہونے کے ساتھ ساتھ ایک اچھا انسان بھی ہو اسے دوسروں کا احساس ہو ۔اسے انسانیت کی قدر ہو یہ ہی نوجوان کل ملک کی باگ ڈور سنبھالیں گے انہوں نے کل سیاست میں جانا ہے ماہر قانون بننا ہے ۔ انتظامہ میں جانا ہے۔ صحت کے محکمے میں جاناہے۔ لہذا ضرورت اس امر کی ہے کے بچوں کو اس لعنت سے دور کیا جائے انہیں معیاری تعلیم کی طرف لانا ہوگا ۔ان میں نظریاتی سوچ پیدا کرنی ہے انہیں تعلیم کے ساتھ ساتھ تربیت ،مذہبی رواداری ،انسانیت کا احساس پیدا کرنا ہوگا اگر ان برائیوں پر ہم نے وقت پر قابوں نا پایا تو اس کے اثرات بہت ہی مضر ہوں گے ہم اس کے لیے کام نہیں کریں گے تو کون کرے گا ؟

خدارا اپنی سوچ بدلیں نوجوانوں کو ان تمام برائیوں سے نکال کر قوم کے لیے ایک کارآمد شخص بنائیں ان بچوں کا مستقبل اپنے ہاتھوں سے برباد نا کریں۔
نقل کرکے آگے جانے والے بچہ کو بہت سی مشکلات کا سامنا کرنا پڑے گا وہ اپنے کام میں مہارت حاصل نہیں کرسکے گا چاہیے وہ کسی بھی شعبے میں ہو ڈاکٹروں کے ہاتھوں میں مریض دم توڑیں گے انجینئروں کے ہاتھوں سے ناکاره پل اور سڑکیں بنیں گی قانون دانوں کے ہاتھوں انصاف قتل ہوگا سیاست دانوں کے ہاتھوں لوگ بھوک سے مریں گیں پروفسیروں کے ہاتھوں مزید ایسے لوگ جنم لیں گے ناجانے اس ایک لعنت کی وجہ سے معاشرے کو کیا کیا نقصانات اٹھانے پڑیں گے اس سے بہتر نہیں کہ اس کا خاتمہ وقت پر ہی کیا جائے اور ایک خوشحال پرامن معاشرہ تشکیل دیا جائے اس کے لیے ہمیں ہی کام کرنا ہوگا سوچ بدلنی ہوگی جب تک اس لعنت کا خاتمہ نہیں ہوگا تو معاشرہ ترقی نہیں کر سکتا پھر ہم ہر مسئلے کا الزام حکومت پر لگاتے ہیں یہاں پر سوال پیدا ہوتا ہے کہ آیا ایسے لوگ حکومت پیدا کرتی ہے یہاں ہم خود ؟

اپنی رائے دیں

متعلقہ پوسٹس

دوسری زبان میں ترجمہ کریں