Skip to content

بائیومیٹرک ایک عذاب

شیئر

شیئر

عمرخان جوزوی


نہ صرف حکمران اورسیاستدان بلکہ اس ملک میں ہرکسی کو غریبوں کاکام کرتے ہوئے موت پڑتی ہے۔جاگیرداروں،سرمایہ داروں،خانوں،نوابوں،چوہدریوں اوروڈیروں کے کام تومنٹوں میں نہیں بلکہ سیکنڈوں میں ہوجاتے ہیں لیکن جب کسی غریب کاکوئی کام اورنمبرآتاہے توپھرمعمولی سے معمولی کام پربھی دن اورمہینے نہیں بلکہ مہینے اورسال تک لگ جایاکرتے ہیں۔سرمایہ داروں اورامیروں کے کام کرتے ہوئے تو کوئی مسئلہ نہیں ہوتاپرکام جب کسی غریب،مسکین اورفقیرکاہوتوپھرمسئلہ ہی نہیں بلکہ ہزارقسم کے مسائل نکل آتے ہیں۔بینظیرانکم سپورٹ پروگرام غریبوں کی فلاح وبہبوداوران کوسہارادینے کے لئے شروع کیاگیا۔بلاکسی شک وشبہ کے یہ ایک تاریخی کام اوراقدام ہے اس کی جتنی بھی تعریف کی جائے وہ کم ہے کیونکہ اس پروگرام کے ذریعے ہزاروں نہیں لاکھوں غریبوں کوسہاراملا،وہ لوگ جن پرغربت اورمالی پریشانیوں کی وجہ سے زندگی تنگ ہوکررہ گئی تھی اس پروگرام کے ذریعے انہیں نہ صرف جینے کی امیدہوچلی اورشمع نظرآئی بلکہ انہیں آگے بڑھنے اورسکون سے زندگی گزارنے کاایک بھرپورحوصلہ بھی ملا۔اس پروگرام سے ملک کے اندراس وقت غالباً ہزاروں نہیں بلکہ لاکھوں لوگ مستفیدہورہے ہوں گے۔اگریہ کہاجائے کہ ہزاروں خاندان اورگھروں کے چولہے اس وقت اس پروگرام کی برکت سے جل رہے ہیں توبے جانہ ہوگاکیونکہ وہ گھراورخاندان جن کے چولہے غربت کی وجہ سے بجھ گئے تھے بینظیرانکم سپورٹ پروگرام کی وجہ سے وہ چولہے پھرسے جلنے لگے ہیں۔یہ پروگرام چونکہ ملک سے غربت کے خاتمے اورصرف غریبوں کے لئے ہے اس لئے یہ  شروع دن سے ہی ہرحاسدکی آنکھ میں کانٹے کی طرح کھٹک رہاہے۔ماناکہ حکومت اس پروگرام کوکامیاب سے کامیاب تربنانے کے لئے ہرممکن کوشش کررہی ہے لیکن حکومتی کوششوں اوراقدامات کے باوجودکچھ مسائل ایسے ہیں جواس تاریخی پروگرام کی کامیابی میں رکاوٹ بن رہے ہیں کیونکہ ان مسائل کی وجہ سے اس پروگرام سے وابستہ قوم کی ماؤں،بہنوں اوربیٹیوں کوامدادکے حصول کے لئے آج بھی خوارہوناپڑرہاہے۔اس پروگرام سے چونکہ قوم کی زیادہ تر وہ مائیں،بہنیں اوربیٹیاں وابستہ ہیں جن کاکوئی آسرانہیں۔غربت اوربے سہاراہونے کی وجہ سے یہ مائیں،بہنیں اوربیٹیاں جب امدادواقساط کے حصول کے لئے جاتی ہیں توپھربائیومیٹرک سمیت دیگر مسائل کی وجہ سے انہیں شدیدمشکلات اورپریشانی کاسامناکرناپڑتاہے۔ پہلے توبائیومیٹرک فرنچائزنے بی آئی ایس پی مستحقین کولوٹنامعمول بنالیاتھا۔ہرقسط سے یہ اپناحصہ وصول کرنافرض سمجھتے تھے۔پھرحکومت نے اس کا نوٹس لیااوراس کے بارے میں سخت احکامات وہدایات بھی جاری کئے گئے اب پتہ نہیں کہ بائیومیٹرک والے حصہ لیتے ہیں یانہیں لیکن بینظیرانکم سپورٹ پروگرام سے منسلک قوم کی ماؤں،بہنوں اوربیٹیوں کے لئے بائیومیٹرک یہ پہلے بھی کسی بڑے عذاب سے کم نہیں تھااوریہ اب بھی ایک بہت بڑاعذاب ہے۔بی آئی ایس پی امدادلینے والی ماؤں،بہنوں اوربیٹیوں کی اکثریت کاتعلق گاؤں،دیہات اوردوردرازعلاقوں سے ہے۔گاؤں اوردیہات میں بائیومیٹرک سسٹم اورمشینیں تو نہیں اس لئے ان ماؤں،بہنوں اوربیٹیوں کوامدادکے حصول کے لئے کئی کئی گھنٹوں کاسفرطے کرکے شہروں میں آناوجاناپڑتاہے پھرشہرمیں کبھی بائیومیٹرک سسٹم ڈاؤن ہوتاہے اورکبھی انگوٹھے نہیں لگتے۔جن ماؤں،بہنوں اوربیٹیوں کاگزربسرپہلے ہی مشکل سے ہوایسے میں ان کے لئے گاؤں اوردیہات سے باربارشہرآناممکن نہیں ہوتاکیونکہ گاؤں اوردیہات سے ایک باربھی شہرآنے اورجانے پراچھے بھلے انسان کی بھی جیب خالی ہوجاتی ہے پھرجن کی جیبیں پہلے ہی خالی ہوں ان کے لئے روزروزشہرآناوجانا کیسے ممکن اورآسان رہے گا۔؟بی آئی ایس پی سے غریب ماؤں،بہنوں اوربیٹیوں کو جوامدادمل رہی ہوتی ہے وہ اگرگاؤں سے شہرکے ان چکروں پرچکرلگانے پرہی خرچ ہوں توپھرایسی امداداورریلیف کاکیافائدہ۔؟اگردیکھاجائے توبی آئی ایس پی سے استفادہ کرنے والے غریبوں کے لئے بائیومیٹرک سسٹم اس وقت نہ صرف دردسربلکہ دردجان ومال بھی بناہواہے۔مستحق افرادکی بائیومیٹرک کے ذریعے تصدیق اچھی بات لیکن حکومت اوربی آئی ایس پی کے ذمہ داران کوبائیومیٹرک سسٹم،عمل اورطریقہ کارکے ذریعے غریب مستحقین تک پہنچنے والے نقصان اورمسائل کابھی ادراک کرناچاہئیے۔یاتومستحق افرادکواس عذاب اورامتحان سے نکالنے کے لئے گاؤں اوردیہات کے اندربائیومیٹرک سسٹم کامناسب آغازکیاجائے نہیں توپھرہرباربائیومیٹرک تصدیق والاسسٹم وسلسلہ ختم کرکے تمام مستحق افرادکے بنکوں میں اکاؤنٹ کھولے جائیں وہاں روزروزاورہرباربائیومیٹرک تصدیق کایہ سسٹم اورسلسلہ توکم ازکم نہیں ہوگاکیونکہ ایک ہی باربائیومیٹرک کی تصدیق پراس ملک میں سالوں تک لوگ بنکوں کے ذریعے پیسے بھیجتے اوروصول کرتے ہیں۔ ایک بار انگوٹھالگانے پراگرچیک اوراے ٹی ایم کے ذریعے لوگوں کوگھربیٹھے پیسے مل سکتے ہیں توپھربینظیرانکم سپورٹ پروگرام کے مستحق افرادکوکیوں نہیں۔؟اس پروگرام سے منسلک لوگ تواس بات اور سہولت کے زیادہ حقدارہیں کہ انہیں امدادکی رقم گھربیٹھے پابندی کے ساتھ چپکے سے ملاکرے۔شریعت کاتقاضابھی یہی ہے کہ دوسرے کومددکے طورپرکچھ دیتے ہوئے ایساطریقہ اختیارکرناچاہئیے کہ ایک ہاتھ سے کسی کی مددکی جائے تودوسرے ہاتھ کوبھی اس کی خبر ہی نہ ہو۔جس امدادوخیرات سے سائل کی بے ادبی،بے عزتی ہویااس کاذرہ بھی استحقاق مجروح ہوتوایسی امداداورخیرات ثواب کے بجائے اکثرگناہ اورعذاب کے باعث بنتے ہیں۔بینظیرانکم سپورٹ پروگرام کے ذریعے غریبوں کی مدداچھی بات لیکن اس پروگرام کے ذریعے قوم کی غریب اوربے سہاراماؤں،بہنوں اوربیٹیوں کاذلیل وخوارہوناہرگزہرگزمناسب نہیں۔چیئرپرسن بی آئی ایس پی اوردیگرذمہ داران کواس سلسلے میں ہنگامی اقدامات اٹھاکرسسٹم کواس طرح اپ گریڈکرناچاہئیے کہ امدادلینے والی ماؤں،بہنوں اوربیٹیوں کے سروں سے بائیومیٹرک کایہ عذاب کسی طرح ہٹ جائے۔اس کے لئے بینک اکاؤنٹ،ایزی پیسہ سمیت کوئی بھی طریقہ اختیارکیاجاسکتاہے۔طریقہ کوئی ایساہوکہ جس سے کسی مستحق کی کوئی دل آزاری نہ ہواورہرمستحق کوگھربیٹھے یہ امدادمل سکے

اپنی رائے دیں

متعلقہ پوسٹس

دوسری زبان میں ترجمہ کریں