Skip to content

بیرونی قرضوں کا جال: آزادی یا محتاجی؟

شیئر

شیئر

 ڈاکٹر جزبیہ شیریں 

بیرونی قرضوں کا جال ایک ایسی حقیقت ہے جو ہماری آزادی اور خودمختاری کے دعووں کو بار بار چیلنج کرتی ہے۔ پاکستان جیسے ترقی پذیر ممالک میں، بیرونی قرضے عموماً ایک ضروری برائی کے طور پر پیش کیے جاتے ہیں، جنہیں معاشی ترقی کے لیے ناگزیر سمجھا جاتا ہے۔ حکومتیں عوام کی فلاح و بہبود اور انفراسٹرکچر کے منصوبے مکمل کرنے کے لیے بیرونی قرضوں کا سہارا لیتی ہیں، لیکن وقت کے ساتھ ساتھ یہ قرضے ایک ایسے بوجھ میں تبدیل ہو جاتے ہیں جو نہ صرف ہماری معیشت کو جکڑ لیتے ہیں بلکہ قومی خودمختاری کو بھی خطرے میں ڈال دیتے ہیں۔

ہر بار جب ہم کسی بین الاقوامی مالیاتی ادارے یا کسی دوسرے ملک سے قرض لیتے ہیں، تو ہم اپنی معیشت کا ایک حصہ ان کے رحم و کرم پر چھوڑ دیتے ہیں۔ یہ قرضے بظاہر ترقی کے لیے ہوتے ہیں لیکن ان کے ساتھ وابستہ شرائط اور سود کی ادائیگی ہمیں ایک ایسی دلدل میں دھکیل دیتی ہے جہاں سے نکلنا تقریباً ناممکن ہو جاتا ہے۔ مثال کے طور پر، آئی ایم ایف اور ورلڈ بینک جیسے ادارے نہ صرف سخت معاشی اصلاحات کا مطالبہ کرتے ہیں بلکہ ان کے پروگرامز اکثر مقامی معیشت کو مزید نقصان پہنچاتے ہیں۔ نتیجہ یہ ہوتا ہے کہ مہنگائی، بے روزگاری، اور عوامی مشکلات میں اضافہ ہوتا ہے، جبکہ قرضوں کی ادائیگی کا دباؤ حکومتوں کو مزید قرض لینے پر مجبور کرتا ہے۔

یہ سوال اٹھتا ہے کہ کیا یہ قرضے واقعی آزادی کی طرف ایک قدم ہیں یا پھر محتاجی کی طرف ایک اور دھکا؟ تاریخی طور پر دیکھا جائے تو وہ قومیں ترقی کی راہ پر گامزن ہوئیں جنہوں نے خود پر انحصار کیا اور اپنی معیشت کو مستحکم کرنے کے لیے مقامی وسائل کو بروئے کار لایا۔ لیکن ہمارے ہاں بدقسمتی سے، پالیسی سازوں نے ہمیشہ آسان راستہ اختیار کیا، یعنی بیرونی امداد اور قرضوں کا۔ یہ آسان حل وقتی طور پر شاید مسائل کو کم کرتا ہو، لیکن طویل مدت میں یہ ہماری خودمختاری کو کھوکھلا کر دیتا ہے۔

پاکستان میں موجودہ صورتحال کو دیکھا جائے تو عام شہری ان قرضوں کا سب سے بڑا شکار ہے۔ حکومت کی طرف سے لیے جانے والے قرضوں کا براہ راست اثر عوام پر پڑتا ہے۔ بڑھتے ہوئے ٹیکس، روزمرہ اشیاء کی قیمتوں میں اضافہ، اور بنیادی سہولیات کی کمی وہ نتائج ہیں جو عام آدمی کو بیرونی قرضوں کے بوجھ تلے کچل دیتے ہیں۔ دوسری طرف، حکومتی عہدیدار اور اشرافیہ اس نظام سے تقریباً لاتعلق نظر آتے ہیں، کیونکہ ان کی زندگیوں پر ان قرضوں کا کوئی براہ راست اثر نہیں پڑتا۔

یہاں یہ سمجھنا ضروری ہے کہ بیرونی قرضوں کا انحصار محض مالیاتی معاملات تک محدود نہیں ہے۔ یہ ہمارے قومی وقار اور عالمی سطح پر ہماری حیثیت کو بھی متاثر کرتا ہے۔ جب ایک ملک بار بار قرضوں کے لیے دوسروں کے دروازے کھٹکھٹاتا ہے، تو وہ نہ صرف اپنی معیشت بلکہ اپنی عزتِ نفس بھی گروی رکھ دیتا ہے۔ اس کے نتیجے میں، عالمی طاقتیں ہماری داخلی پالیسیوں پر اثر انداز ہوتی ہیں اور ہمارے فیصلے ان کی مرضی کے تابع ہو جاتے ہیں۔

اس صورتحال سے نکلنے کے لیے ہمیں خود انحصاری کی طرف لوٹنا ہوگا۔ یہ ایک مشکل راستہ ہے لیکن یہ ہی وہ واحد راستہ ہے جو ہمیں حقیقی آزادی کی طرف لے جا سکتا ہے۔ ہمیں اپنی معیشت کو مضبوط کرنے کے لیے مقامی وسائل کا استعمال کرنا ہوگا، صنعتی پیداوار کو فروغ دینا ہوگا، اور ایسی پالیسیاں بنانی ہوں گی جو عوامی فلاح و بہبود کو ترجیح دیں۔ سب سے اہم بات یہ ہے کہ ہمیں مالیاتی نظم و ضبط کو اپنانا ہوگا تاکہ ہم غیر ضروری اخراجات کو کم کر سکیں اور اپنے قرضوں کی ادائیگی کر سکیں۔

بیرونی قرضوں کا جال ہمیں ایک بار پھر یاد دلاتا ہے کہ آزادی محض جھنڈے اور سرحدوں کی حفاظت تک محدود نہیں ہوتی، بلکہ یہ اس بات میں پوشیدہ ہے کہ ہم اپنے فیصلے خود کرنے کے قابل ہوں۔ جب تک ہم قرضوں کے چنگل سے آزاد نہیں ہوں گے، ہم حقیقی آزادی کا دعویٰ نہیں کر سکتے۔ یہ ایک اجتماعی جدوجہد ہے جو عوام، حکومت، اور اداروں کے تعاون سے ہی کامیاب ہو سکتی ہے۔ اگر ہم نے اب بھی ہوش کے ناخن نہ لیے، تو یہ جال ہمیں محتاجی کے ایسے اندھیروں میں دھکیل دے گا جہاں سے نکلنا ناممکن ہو جائے گا۔                                   عام شہری پر قرضوں کا بوجھ ایک ایسا مسئلہ ہے جو پاکستان کی معیشت اور معاشرت دونوں کو بری طرح متاثر کر رہا ہے۔ بیرونی قرضے جنہیں ملکی معیشت کو سہارا دینے اور ترقیاتی منصوبوں کے لیے لیا جاتا ہے، درحقیقت عوام کے لیے مہنگائی اور غربت کی زنجیریں بن جاتے ہیں۔ پاکستان کے عام شہری کی زندگی روز بروز مشکل ہوتی جا رہی ہے، اور اس کی بنیادی وجہ ملک پر بڑھتے ہوئے قرضوں کا بوجھ اور ان کی واپسی کے لیے عائد کی جانے والی سخت شرائط ہیں۔

پاکستان اس وقت تقریباً 133 ارب امریکی ڈالر کے بیرونی قرضوں کے بوجھ تلے دبا ہوا ہے۔ 2024 کے مالی سال کے اختتام تک پاکستان کو قرضوں کی ادائیگی کے لیے تقریباً 25 ارب ڈالر درکار ہیں۔ یہ رقم اتنی زیادہ ہے کہ اسے ادا کرنے کے لیے حکومت کو نہ صرف مزید قرضے لینے پڑتے ہیں بلکہ عوام پر مختلف اقسام کے ٹیکسز کا بوجھ ڈالنا پڑتا ہے۔ ان ٹیکسز کا نتیجہ یہ نکلتا ہے کہ روزمرہ استعمال کی اشیاء کی قیمتیں آسمان سے باتیں کرنے لگتی ہیں، اور عام شہری اپنی بنیادی ضروریات پوری کرنے کے لیے بھی مشکلات کا شکار ہو جاتا ہے۔

مہنگائی کی شرح پاکستان میں ایک تشویشناک حد تک بڑھ چکی ہے۔ 2024 میں پاکستان میں مہنگائی کی شرح 38 فیصد کے قریب ریکارڈ کی گئی، جو کہ جنوبی ایشیا کے ممالک میں سب سے زیادہ ہے۔ آٹے، چینی، گھی، اور دیگر بنیادی اشیاء کی قیمتوں میں بے تحاشا اضافہ ہوا ہے، جس کی وجہ سے ایک عام خاندان کی روزمرہ زندگی شدید متاثر ہوئی ہے۔ صرف آٹے کی قیمت کو ہی دیکھ لیں، جو 2023 میں 60-70 روپے فی کلو تھی، 2024 میں بڑھ کر 150-160 روپے فی کلو تک پہنچ گئی ہے۔ یہی حال بجلی، گیس، اور پٹرول کی قیمتوں کا ہے، جو ہر شہری کے بجٹ کو بری طرح متاثر کر رہی ہیں۔

غربت بھی قرضوں کے اس بوجھ کا ایک واضح نتیجہ ہے۔ پاکستان میں 40 فیصد سے زیادہ آبادی خط غربت سے نیچے زندگی گزار رہی ہے۔ یعنی تقریباً 9 کروڑ لوگ ایسے ہیں جو دن میں دو وقت کی روٹی بھی مشکل سے کھا پاتے ہیں۔ ان میں سے زیادہ تر دیہی علاقوں سے تعلق رکھتے ہیں، جہاں پہلے ہی تعلیم اور صحت کی سہولیات کا فقدان ہے۔ لیکن شہری علاقے بھی اس صورتحال سے مبرا نہیں ہیں۔ بڑھتی ہوئی بیروزگاری اور مہنگائی نے متوسط طبقے کو بھی غربت کی جانب دھکیل دیا ہے۔

یہ سب اس وقت ہوتا ہے جب حکومت اپنے مالیاتی خسارے کو پورا کرنے کے لیے بین الاقوامی مالیاتی اداروں جیسے آئی ایم ایف اور ورلڈ بینک سے قرضے لیتی ہے۔ یہ ادارے قرضے دیتے وقت سخت شرائط عائد کرتے ہیں، جن میں سبسڈیز کا خاتمہ، ٹیکسز میں اضافہ، اور کرنسی کی قدر میں کمی شامل ہیں۔ ان اقدامات کا سب سے زیادہ اثر عام شہری پر پڑتا ہے، کیونکہ اس کے لیے زندگی کی بنیادی ضروریات بھی مہنگی ہو جاتی ہیں۔

پاکستان کے قرضے لینے کی عادت صرف موجودہ حکومتوں تک محدود نہیں بلکہ یہ مسئلہ دہائیوں سے جاری ہے۔ 2008 سے 2024 تک، پاکستان نے اپنے بیرونی قرضوں میں 70 فیصد اضافہ کیا ہے۔ ہر حکومت نے اپنے دور میں قرضے لیے اور بعد میں آنے والی حکومتوں کے لیے مشکلات پیدا کیں۔ لیکن ان قرضوں کا استعمال اکثر ترقیاتی منصوبوں کے بجائے غیر ضروری اخراجات پر ہوتا رہا، جس کی وجہ سے عوام کو ان کا کوئی فائدہ نہیں پہنچا۔

عوام پر قرضوں کا بوجھ اس وقت مزید سنگین ہو جاتا ہے جب انہیں صحت، تعلیم، اور روزگار کے مواقع سے محروم رکھا جاتا ہے۔ ایک عام شہری جو پہلے ہی مہنگائی کی وجہ سے مشکلات کا شکار ہے، اسے بچوں کی تعلیم یا بیماری کے علاج کے لیے اضافی قرض لینا پڑتا ہے۔ اس طرح نہ صرف حکومت بلکہ عوام بھی قرضوں کے جال میں پھنس جاتے ہیں۔

پاکستان کے اس معاشی بحران کا حل صرف قرضے لینا نہیں بلکہ مالیاتی نظم و ضبط، مقامی وسائل کا بہتر استعمال، اور کرپشن کے خاتمے میں ہے۔ اگر حکومت اپنی ترجیحات کو عوامی فلاح و بہبود کی جانب موڑ دے اور ایسے منصوبے شروع کرے جو مقامی معیشت کو مضبوط بنائیں، تو شاید ہم اس جال سے نکل سکیں۔ بصورت دیگر، مہنگائی اور غربت کی یہ زنجیریں مزید مضبوط ہوتی جائیں گی اور عام شہری کی زندگی مزید دشوار ہو جائے گی۔

لہٰذا، وقت آ گیا ہے کہ ہم اپنے قرضوں کی نوعیت اور ان کے اثرات پر سنجیدگی سے غور کریں۔ بیرونی قرضوں کا جال ہماری معیشت کو محتاج بنا رہا ہے اور عوام کی مشکلات میں دن بدن اضافہ کر رہا ہے۔ اگر ہم نے جلدی اقدامات نہ کیے، تو یہ زنجیریں ہمیں ایک ایسی گہری دلدل میں دھکیل دیں گی جہاں سے نکلنا مشکل ہو جائے گا۔                                                                                                                                                      معاشی خودمختاری کے خواب کی حقیقت پاکستان میں ایک سنگین چیلنج بنی ہوئی ہے۔ ملک کی تاریخ میں کئی بار معاشی ترقی کی دعوے کیے گئے، لیکن حقیقت یہ ہے کہ پاکستان کی معیشت ابھی بھی بیرونی قرضوں اور اقتصادی بے یقینی کے جال میں پھنس کر رہ گئی ہے۔ جب بات معاشی خودمختاری کی آتی ہے، تو یہ سوال اٹھتا ہے کہ آیا پاکستان کبھی اس آزاد معیشت کی حالت تک پہنچ پائے گا جس کا خواب اس نے اپنی ابتدا سے ہی دیکھا تھا؟

پاکستان کی معیشت آج بھی بیرونی قرضوں کے بوجھ تلے دبی ہوئی ہے۔ 2024 کے آغاز تک پاکستان کا مجموعی قرضہ تقریباً 133 ارب امریکی ڈالر تک پہنچ چکا ہے، جو ملکی جی ڈی پی کا 90 فیصد سے زائد ہے۔ اس قرضے کو ادا کرنے کے لیے حکومت کو ہر سال اربوں ڈالرز کی ادائیگیاں کرنی پڑتی ہیں، جس سے نہ صرف ملکی خزانہ خالی ہو جاتا ہے بلکہ عوام پر مہنگائی اور ٹیکسوں کے بوجھ میں بھی اضافہ ہوتا ہے۔ اس قرضے کی واپسی کے لیے مختلف شرائط کی تعمیل کرنا پڑتی ہے، جس کا اثر عام عوام کی زندگی پر پڑتا ہے۔

پاکستان کا تجارتی خسارہ بھی اس بات کا غماز ہے کہ ملک کو ابھی تک معاشی آزادی حاصل نہیں ہوئی۔ 2023 میں پاکستان کا تجارتی خسارہ 45 ارب ڈالر سے زائد رہا، جس کا مطلب ہے کہ ہم اپنے وسائل سے زیادہ اشیاء درآمد کرتے ہیں اور ان کے بدلے میں کم برآمدات کر پاتے ہیں۔ اس خسارے کو پورا کرنے کے لیے حکومت کو قرضوں کی مزید ضرورت پڑتی ہے، جس سے نہ صرف ملک کی معیشت کمزور ہوتی ہے بلکہ خودمختاری کا خواب مزید دور ہو جاتا ہے۔

اس صورتحال میں مہنگائی کا طوفان اور عوام کی بڑھتی ہوئی مشکلات پاکستانی معیشت کی کمزوری کی علامت ہیں۔ 2024 میں مہنگائی کی شرح 38 فیصد تک پہنچ چکی ہے، جو ملکی تاریخ کی سب سے بلند شرح ہے۔ اشیاء ضروریہ کی قیمتوں میں بے تحاشا اضافہ ہوا ہے، اور لوگ اپنی روزمرہ کی ضروریات کو پورا کرنے کے لیے قرض لینے پر مجبور ہیں۔ اس سے معاشی خودمختاری کا خواب محض ایک خواب ہی رہ جاتا ہے کیونکہ ہم اپنے وسائل پر انحصار کرنے کے بجائے دوسرے ممالک اور بین الاقوامی مالیاتی اداروں پر منحصر ہیں۔

پاکستان کی معیشت کا دارومدار زراعت، صنعت اور خدمات کے شعبوں پر ہے، مگر ان شعبوں میں بھی ترقی کی رفتار سست ہے۔ زراعت کے شعبے میں مسائل کی وجہ سے ملک میں پیدا ہونے والی فصلوں کی پیداوار میں کمی آ رہی ہے، جس کا اثر زرعی اجناس کی قیمتوں پر پڑتا ہے۔ اسی طرح، صنعت کے شعبے میں بجلی اور گیس کی قیمتوں میں اضافہ اور انرجی بحران جیسے مسائل ہیں جن سے پیداواری لاگت میں اضافہ ہوتا ہے۔ ان تمام مسائل کا حل نہ ہونے کے باعث ملک کی معیشت میں دیرپا ترقی ممکن نہیں ہو رہی۔

پاکستان کے پاس قدرتی وسائل کی کمی نہیں ہے، مگر ان وسائل کا مناسب استعمال نہ ہونے کے باعث ہم دنیا میں اپنی معیشت کو ایک طاقتور کھلاڑی کے طور پر نہیں ثابت کر سکے۔ اگر پاکستان اپنے قدرتی وسائل، خاص طور پر توانائی اور معدنیات کا بہتر استعمال کرے، تو وہ خودمختاری کی راہ پر گامزن ہو سکتا ہے۔ تاہم، یہ تب ہی ممکن ہے جب حکومت معاشی اصلاحات کرے، کرپشن کا خاتمہ کرے اور مقامی پیداوار کو فروغ دے۔

پاکستان کو اقتصادی خودمختاری کے لیے خود اعتمادی کی ضرورت ہے۔ اگر ہم بیرونی قرضوں پر انحصار جاری رکھتے ہیں اور اپنے وسائل کو بروئے کار نہیں لاتے تو یہ خواب کبھی بھی حقیقت نہیں بن سکے گا۔ معاشی خودمختاری کا مقصد صرف قرضوں سے نجات حاصل کرنا نہیں، بلکہ اس کا مقصد اپنی معیشت کو مستحکم اور پائیدار بنانا ہے تاکہ عوام کی زندگی بہتر ہو سکے اور ملک عالمی سطح پر اپنی اہمیت کا احساس کروا سکے۔

پاکستان کے لیے یہ وقت ہے کہ وہ اپنے معاشی نظام کی اصلاح کرے اور ایک ایسے راستے پر قدم رکھے جہاں وہ دوسرے ممالک اور بین الاقوامی مالیاتی اداروں کے محتاج نہ ہو۔ معاشی خودمختاری صرف اس صورت میں ممکن ہے جب ہم اپنی صنعت، زراعت اور توانائی کے شعبے میں انقلابی اقدامات کریں اور اپنے قدرتی وسائل کا صحیح استعمال کریں۔ بصورت دیگر، پاکستان ہمیشہ کے لیے ایک اقتصادی غلام ہی رہے گا، اور اس کا خواب صرف ایک خواب ہی رہ جائے گا۔                                                                                                        پاکستان میں معاشی غلامی کا مسئلہ ایک پیچیدہ اور سنگین بحران بن چکا ہے۔ ملک کی معیشت کی پوزیشن عالمی سطح پر اتنی مضبوط نہیں ہے، جتنی وہ ہونی چاہیے۔ بیرونی قرضوں، تجارتی خسارے اور معاشی بحرانوں کے باعث پاکستان کی معیشت مسلسل کمزوری کا شکار ہے، جس کے نتیجے میں عوام پر شدید اقتصادی بوجھ پڑ رہا ہے۔ مگر یہ سوال اٹھتا ہے کہ کیا پاکستان اس معاشی غلامی سے نکلنے کے راستے تلاش کر سکتا ہے؟ کیا ہم اپنے وسائل سے فائدہ اٹھا کر معاشی آزادی حاصل کر سکتے ہیں؟ اس کا جواب ممکن ہے، لیکن اس کے لیے حکومت، عوام اور مختلف اداروں کو مل کر اہم اور مؤثر اقدامات کرنے کی ضرورت ہے۔

سب سے پہلے، پاکستان کو اپنے بیرونی قرضوں پر انحصار کم کرنے کے لیے ایک مستقل حکمت عملی وضع کرنی چاہیے۔ 2024 میں پاکستان کا مجموعی قرض تقریباً 133 ارب ڈالر تک پہنچ چکا ہے، جو ملک کی جی ڈی پی کا 90 فیصد سے زائد ہے۔ اس قرض کو اتارنے کے لیے ہر سال کئی ارب ڈالرز کی ادائیگیاں کرنی پڑتی ہیں، جس کا اثر حکومت کے مالی وسائل پر پڑتا ہے اور عوام پر مزید ٹیکسوں کا بوجھ بڑھتا ہے۔ پاکستان کو یہ سمجھنے کی ضرورت ہے کہ یہ قرضوں کا چکر صرف اسی صورت میں ختم ہو سکتا ہے جب ہم اپنی معیشت کو مستحکم کریں اور برآمدات میں اضافہ کریں۔ ایک پائیدار معاشی ترقی کے لیے ملک کو اندرونی وسائل پر انحصار کرنا ہوگا، تاکہ ہم قرضوں سے آزاد ہو سکیں۔

پاکستان کو اپنی صنعتوں کو جدید بنانا اور انہیں خود انحصار بنانے کی ضرورت ہے۔ صنعتی شعبہ پاکستان کی معیشت کا ایک اہم جزو ہے، لیکن اس میں کئی مسائل ہیں جن کی وجہ سے یہ شعبہ اپنی صلاحیت کے مطابق ترقی نہیں کر پا رہا۔ ان مسائل میں توانائی کا بحران، مہنگی توانائی، اور غیر مناسب ڈھانچہ شامل ہیں۔ حکومت کو چاہیے کہ وہ صنعتوں کے لیے آسان قرضے فراہم کرے، توانائی کے بحران کو حل کرنے کے لیے اقدامات کرے اور صنعتوں کی پیداواری صلاحیت میں اضافہ کرے۔ پاکستان میں صنعتی ترقی کے امکانات بہت زیادہ ہیں، مگر اس کے لیے حکومت کو ایک جامع حکمت عملی کی ضرورت ہے۔

زراعت بھی پاکستان کی معیشت کا اہم ستون ہے، اور اس شعبے میں بہت زیادہ ترقی کی گنجائش موجود ہے۔ پاکستان دنیا کا پانچواں بڑا گندم پیدا کرنے والا ملک ہے، اور اس کی زرعی زمین بھی وسیع ہے۔ تاہم، اس شعبے میں جدید تکنیکوں کی کمی اور پانی کے ضیاع کی وجہ سے پیداوار میں کمی آ رہی ہے۔ حکومت کو چاہیے کہ وہ جدید زرعی ٹیکنالوجی کا استعمال کرے، پانی کے بہتر انتظام کے لیے اقدامات کرے اور کسانوں کو قرضے فراہم کرے تاکہ وہ اپنی پیداوار میں اضافہ کر سکیں۔ زراعت کی ترقی پاکستان کی معیشت کے لیے ایک اہم قدم ثابت ہو سکتی ہے، جو نہ صرف معاشی آزادی کی طرف ایک قدم ہوگا بلکہ ملک کی خود انحصاری کو بھی بڑھائے گا۔

پاکستان کی ایک اور اہم ضرورت اپنے قدرتی وسائل کا بھرپور استعمال ہے۔ پاکستان کے پاس معدنیات، توانائی کے وسائل اور قدرتی وسائل موجود ہیں، مگر ان کا درست استعمال نہ ہونے کی وجہ سے پاکستان اپنی معیشت کو بہتر نہیں کر پا رہا۔ اگر حکومت ان وسائل کا صحیح طریقے سے استعمال کرے، تو پاکستان خودمختار ہو سکتا ہے اور بیرونی قرضوں پر انحصار کم ہو سکتا ہے۔ توانائی کے شعبے میں سرمایہ کاری اور معدنیات کی تلاش سے نہ صرف معیشت کو فائدہ ہو گا بلکہ یہ ملک کو توانائی کے بحران سے بھی نکال سکے گا۔

پاکستان کو اپنے تجارت کو بھی فروغ دینے کی ضرورت ہے۔ 2023 میں پاکستان کا تجارتی خسارہ 45 ارب ڈالر تک پہنچ چکا تھا، جو کہ ایک سنگین مسئلہ ہے۔ اس خسارے کو پورا کرنے کے لیے حکومت کو برآمدات بڑھانے اور درآمدات کو کم کرنے کے لیے حکمت عملی وضع کرنی چاہیے۔ پاکستان کو اپنے روایتی تجارتی شراکت داروں کے ساتھ ساتھ نئے عالمی مارکیٹس میں بھی اپنی مصنوعات کی برآمدات بڑھانی ہوںگی۔ پاکستان کو اپنی مصنوعات کی معیار کو بہتر بنانا ہوگا تاکہ عالمی سطح پر ان کی مانگ بڑھے، جس سے ملکی معیشت مضبوط ہو گی اور معیشت میں خود انحصاری کا سفر شروع ہو سکے گا۔

پاکستان میں موجود کرپشن بھی معاشی آزادی کی راہ میں بڑی رکاوٹ ہے۔ کرپشن کا خاتمہ معاشی ترقی کے لیے ضروری ہے، کیونکہ یہ ملک کے وسائل کو بے دریغ لوٹنے کا سبب بنتی ہے اور اس کے نتیجے میں عوامی فلاحی منصوبوں کی کامیابی میں رکاوٹ آتی ہے۔ حکومت کو کرپشن کے خلاف سخت اقدامات کرنے ہوں گے تاکہ عوام کا اعتماد بحال ہو اور ملکی معیشت کو مزید نقصان نہ پہنچے۔

پاکستان کے معاشی خودمختاری کے خواب کو حقیقت میں بدلنے کے لیے تمام اداروں، حکومتی سطح پر اور عوامی سطح پر ایک مربوط حکمت عملی کی ضرورت ہے۔ حکومت کو مالیاتی اصلاحات کے ذریعے بیرونی قرضوں کی ادائیگی کا بوجھ کم کرنے کے لیے اقدامات کرنا ہوں گے، اور ساتھ ہی ساتھ ملکی پیداوار کو بڑھانے کے لیے نئے اقدامات کرنا ہوں گے۔ اگر پاکستان اپنے وسائل کا بہتر استعمال کرے اور بین الاقوامی سطح پر اپنے تجارتی تعلقات کو مستحکم کرے تو وہ ایک دن معاشی خودمختاری کی منزل تک پہنچ سکتا ہے۔

اپنی رائے دیں

متعلقہ پوسٹس

دوسری زبان میں ترجمہ کریں