ہر سال 20 دسمبر کو منایا جانے والا عالمی یوم انسانی یکجہتی ہمیں یاد دلاتا ہے کہ اتحاد میں وہ طاقت ہے جو ہمارے مشترکہ مستقبل کو لاحق چیلنجز کا سامنا کر سکتی ہے۔ چاہے وہ ماحولیاتی تبدیلی ہو، غربت، عدم مساوات، یا آپسی تنازعات، یہ دن اس بات پر زور دیتا ہے کہ قوموں، معاشروں، اور افراد کے درمیان مشترکہ ذمہ داری اور تعاون دنیا کو مزید جامع اور پائیدار بنانے کے لیے ناگزیر ہیں۔
انسانی یکجہتی کی اہمیت:
یکجہتی بین الاقوامی تعلقات کا بنیادی اصول اور انسانی بقائے باہمی کی بنیاد ہے۔ یہ اس بات کی عکاسی کرتی ہے کہ ہم آپس میں جڑے ہوئے اور ایک دوسرے پر انحصار کرتے ہیں اور جب ہم مل کر کام کرتے ہیں تو مثبت تبدیلی کی طاقت رکھتے ہیں ۔ اقوام متحدہ نے 2005 میں عالمی یوم انسانی یکجہتی کا آغاز کیا تاکہ میلینیم ڈویلپمنٹ گولزکو حاصل کیا جا سکے۔ اب یہ دن پائیدار ترقیاتی اہداف(ایس ڈی جیز)کی حمایت کرتا ہے اور غربت کے خاتمے، زمین کی حفاظت، اور سب کے لیے خوشحالی کو فروغ دینے کے لیے عالمی تعاون کی حوصلہ افزائی کرتا ہے۔
عملی یکجہتی: بین القوامی چیلنجز:
وبا اور صحت کے بحران:
کووڈ کی عالمی وبا نے نے سال 2020 میں دنیا بھر میں تاریخی تباہی مچائی۔ اس وباء نے عالمی صحت کے اس بحران سے نمٹنے کے لئے بلا تفریق مذہب ، ذات پات رنگ اور نسل یکجہتی کی شدید ضرورت کو اجاگر کیا۔ وہ ممالک جنہوں نے وسائل، علم، اور ویکسینز کو ایجاد کیا اور دیگر ممالک سے شیئر کیا، انہوں نے دکھایا کہ اتحاد کیسے زندگیاں بچا سکتا ہے اور بحرانوں کے اثرات کو کم کر سکتا ہے۔
ماحولیاتی تبدیلی:گزشتہ ایک دہائی سے پاکستان موسمیاتی تبدیلی سے سب سے زیادہ متاثرہ دس ممالک میں شامل رہا ہے۔2020کے سپر سیلاب نے اکیلے ہی 30 ارب امریکی ڈالر کے تخمینے کے مطابق نقصان پہنچایا اور 3 کروڑ 30 لاکھ سے زیادہ افراد کو متاثر کیا۔
پاکستان دنیا کا ایک ایسا ملک ہے جو ماحولیاتی تنزل میں اپنا حصہ نہ رکھنے کے باوجود شدید ماحولیاتی تبدیلیوں اور غضب کا شکار ہے، پاکستان میں 1992 ،2005 ، 2010 اور 2022 کے ا تباہ کن سیلاب کا شکار ہوا۔ ہزاروں قیمتی جانیں اور کربوں روپوں کا مالی نقصان اٹھایا۔ دنیا میں قطبی پولز کے بعد برف کا سب سے بڑا گلیشئیر ذخیرہ رکھنے والا پاکستان اب بڑھتے درجہ حرارت کی وجہ سےگلیشئیر کے پگھلنے کا شکار ہو رہا ہے جس سے نہ صرف دریا کے ارد گرد صدیوں سے قایم آبادیا ں ہمتائثر ہو رہی ہیں بلکہ قیمتی انفرا سٹرکچر بھی تباہی کا شکار ہے۔ ماحولیاتی تبدیلی ایک ایسا مشترکہ خطرہ ہے جو سرحدوں سے ماورا ہے۔ پیرس معاہدے جیسے بین الاقوامی معاہدوں کی کامیابی ان قوموں کے اتحاد پر منحصر ہے جو کاربن گیسوں کے اخراج کو کم کریں، قابل تجدید توانائی کو فروغ دیں، اور کمزور آبادیوں کی مدد کریں۔جنیوا میں منعقدہ بین الاقوامی کانفرنس برائے ماحولیاتی طور پر مستحکم پاکستان، جو پاکستان اور اقوام متحدہ کے اشتراک سے منعقد کی گئی، میں عالمی برادری نے سیلاب کی بحالی اور ماحولیاتی طور پر مستحکم انفراسٹرکچر کے لیے 9 ارب ڈالر سے زیادہ کی امداد کا اعلان کیا۔ضرورت اس امر کی ہے کہ پاکستان سے کئے گئے وعدوں پر بین لاقوامی برادری عمل درآمد کرے۔
انسانی بحران:
تنازعات، قدرتی آفات، اور نقل مکانی نے لاکھوں افراد کو مدد کا محتاج بنا دیا ہے۔ تنازعات چاہے اندرونی ہوں یا بیرونی ایک عام انسان سب سے زیادہ متائثر ہوتا ہے۔ ایسے میں دنیا بھر میں قدرتی آفات اور بڑے بڑے تنازعات میں یکجہتی انسانی تنظیموں، یو این کے اداروں میں واضع نظر آ رہی ہے جو متاثرہ کمیونٹیز کو امداد اور حمایت فراہم کرنے کے لیے اکٹھے ہوتے ہیں اور اکثر اوقات اپنی جانوں سے بھی جاتے ہیں۔ اس وقت فلسطین، شام، یوکرین، کشمیر میں قتل گاہیں دنیا میں یکجہتی کو کوششوں کو دھچکا لگا رہی ہیں اور خدا نخواستہ دنیا ایک اور عالمی جنگ کی طرف بڑھ رہی ہے۔
معاشی عدم مساوات:
دنیا ایک گلوبل ویلیج تو بن چکی مگر بڑھتی ہوئی عدم مساوات سماجی ہم آہنگی کے لیے خطرہ بن رہی ہے۔ سرمایہ دارانی نظام اپنی انتہا کو پہنچ چکا ہے اور اس کے اثرات غیرمنصفانہ تجارت، بھاری سود پر مبنی قرض ، اور جامع معاشی پالیسیوں کے فقدان کی عجہ سے غیر منصفانہ معاشرے وجود میں آ رہے ہیں ، جس سے انسان ایک اور بد تر غلامی کا شکار ہو گیا ہے۔ عالمی یک جہتی کے لئے کرہ ارض پر ایک نیا عالمی نظام دستک دے رہا ہے ، ایک ایسے نظام کے لئے جو نظام فطرت ہو، جہاں یکجہتی پر مبنی اقدامات اور فیصلے ہوں، جہاں منصفانہ تجارت ہو، بھاری سود تلے دبے ملکوں کی قرض معافی ہو،جہاں دنیا پہلی دوسری اور تیسری دنیا کے لیبل سے آزاد ہو، جہاں جامع معاشی پالیسیاں نافذ ہوں اور منصفانہ معاشروں کی تعمیر ہو اور دنیا امن کا گہوارہ ہو۔
یکجہتی اور پائیدار ترقیاتی اہداف: (SDGs)
پائیدار ترقیاتی اہداف یکجہتی کے تصور میں گہرائی سے جڑے ہوئے ہیں۔ یہ اہداف انسانی باہمی تعلق کو اجاگر کرتے ہیں اور غربت (ہدف 1)، بھوک (ہدف 2)، صحت (ہدف 3)، تعلیم (ہدف 4)، صنف (ہدف 5)اور ماحولیاتی عمل (ہدف 13) جیسے مسائل پر اجتماعی عمل کا مطالبہ کرتے ہیں۔ یکجہتی یقینی بناتی ہے کہ کوئی بھی پیچھے نہ رہ جائے، خاص طور پر وہ لوگ جوسماجی، معاشہ، معاشرتی اور سیاسی لحاظ سے نظر انداز کئے جا رہے ہیں اور حاشیے پر ہیں یا خطرات کا شکار ہیں۔اگرپائیدار ترقیاتی اہداف پر دنیا کے ممالک سنجیدگی سے عمل درآمد کریں تو بین الاقوامی یک جہتی حاصل کرنے میں شاید کم وقت لگے
ایک تقسیم شدہ دنیا میں یکجہتی کا فروغ
آج ہم ایک ایسے دور میں رہ رہے ہیں، جہاں پولرائزیشن ، تنازعات ، مذہب کے نام پر نفرت ، مقامی اندرونی اور جغرافیائی سیاسی کشیدگی میں اضافہ ہو رہا ہے، ایسے میں ہر سطح پر یکجہتی کو فروغ دینا ایک ضروری کوشش ہے جو سب سے اہم اور مقدم ہو گیا ہے۔
تعلیم اور شعور کو فروغ دینا:
ہمدردی، احترام، اور باہمی حمایت کی قدریں بچپن سے سکھانا یکجہتی کی ثقافت پیدا کر سکتا ہے۔یک جہتی کے فروغ کو مدرسہ، سکول کالج اور یونیورسٹی کے نصاب کا حصہ بنایا جائے، دانشور اس پر شاعری اور کالم نگاری کریں، ڈرامہ نویس ڈرامے لکھیں غرض ہر فرد کی ذمہ داری ہے کہ بین الاقوامی یج جہتی میں اپنا حصہ ڈالیں۔
بین الاقوامی تعاون کو مضبوط کرنا:
عالمی چیلنجز اجتماعی ردعمل کا تقاضا کرتے ہیں۔ اقوام متحدہ جیسے کثیرالملکی پلیٹ فارمز کو تعاون اور مکالمے کو آسان بنانے کے لیے زیادہ متحرک ہونا پڑے گا ۔
کمیونٹی ایکشن کی حوصلہ افزائی:
مقامی اقدامات جو لوگوں کو مشترکہ مسائل کے حل کے لیے اکٹھا کرتے ہیں، جیسے ماحولیاتی تحفظ یا سماجی انصاف، یکجہتی کے رشتے مضبوط کرتے ہیں۔
جامع معاشروں کی تعمیر:
وہ پالیسیاں جو سماجی شمولیت، ثقافتی ہم آہنگی، اور معاشی مساوات کو فروغ دیتی ہیں، تقسیم کو کم کرتی ہیں اور اتحاد کو مضبوط کرتی ہیں، جامع اور یک جہتی پر مبنی معاشروں کی تشکیل کرتی ہیں۔
الغرض عالمی یوم انسانی یکجہتی ہمیں یاد دلاتا ہے کہ مشترکہ چیلنجز کا سامنا کرنے میں اتحاد ہماری سب سے بڑی طاقت ہے۔ یکجہتی کو اپنا کر، ہم ایک ایسی دنیا بنا سکتے ہیں جو تنوع کو قدر دے، مساوات کو فروغ دے، اور سب کے لیے وقار کو یقینی بنائے۔ اس دن پر غور کرتے ہوئے، آئیے باہمی احترام، تعاون، اور اجتماعی عمل کے اصولوں پر دوبارہ عہد کریں، اس اعتراف کے ساتھ کہ ہماری مشترکہ انسانیت ایک بہتر مستقبل کی بنیاد ہے۔
مختار جاوید ایک سماجی و ماحولیاتی کارکن
ایگزیکٹو ڈائیریکٹر واج، ، چیئر پرسن فا فن
ایگزیکٹو ممبر این ایچ این، سن سی ایس اے نیوٹریشن نیٹ ورک پاکستان
،ممبر ، ، سٹارٹ گلوبل نیٹ ورک ر یڈی پاکستان،اور خیبر پختونخواہ فارسٹری راونڈ ٹیبل