ہزارہ کا علاقہ پاکستان کے اہم اور قدرتی وسائل سے مالا مال علاقے میں شمار ہوتا ہے، جہاں زراعت، جنگلات اور دریاؤں کی اہمیت بہت زیادہ ہے۔ یہاں کی معیشت کا ایک بڑا حصہ زرعی پیداوار، جنگلی وسائل اور آبی وسائل پر منحصر ہے۔ تاہم، موسمیاتی تبدیلیوں نے ہزارہ کی ان قدرتی خصوصیات کو شدید متاثر کیا ہے۔ بڑھتے ہوئے درجہ حرارت، غیر متوقع بارشوں، اور گلیشئرز کے تیز پگھلاؤ نے زراعت، جنگلات اور دریاؤں کی حالت پر منفی اثرات مرتب کیے ہیں۔
موسمیاتی تبدیلیوں کی وجہ سے ہزارہ میں زراعت کی پیداوار متاثر ہو رہی ہے، کیونکہ بڑھتے ہوئے درجہ حرارت اور پانی کی کمی کی وجہ سے فصلوں کی پیداوار میں کمی آ رہی ہے۔ جنگلات میں بڑھتی ہوئی آگ، کیڑوں کے حملے اور حیاتیاتی تنوع کا نقصان بھی اس علاقے میں واضح ہو رہا ہے۔ اس کے علاوہ، دریاؤں میں گلیشئرز کی پگھلائی کی رفتار میں تیزی، سیلاب اور پانی کے معیار میں کمی سے نہ صرف زرعی سرگرمیاں متاثر ہو رہی ہیں بلکہ مقامی کمیونٹیز کو بھی شدید پانی کی کمی اور آبی آلودگی کا سامنا ہے۔
یہ موسمیاتی اثرات ہزارہ کے قدرتی ماحول اور مقامی معیشت کو متاثر کرتے ہیں، اور ان مسائل کا حل فوری طور پر ضروری ہے تاکہ اس علاقے کے وسائل کو بچایا جا سکے اور مقامی لوگوں کے لیے پائیدار ترقی کی راہیں کھولی جا سکیں۔
- ہزارہ میں زراعت:
ہزارہ کا زراعتی شعبہ، جو کہ روایتی فصلوں پر انحصار کرتا ہے، موسمیاتی تبدیلیوں کی وجہ سے اہم چیلنجز کا سامنا کر رہا ہے۔ اس علاقے کی زراعت موسمی اور جغرافیائی عوامل سے متاثر ہوتی ہے، لیکن موسمیاتی حالات میں تبدیلیاں ان عوامل کو غیر متوقع اور مشکل بنا رہی ہیں۔
الف) درجہ حرارت اور بارشوں کے نمونے:
درجہ حرارت میں اضافہ: بڑھتے ہوئے درجہ حرارت کی وجہ سے زمین کی نمی زیادہ تیزی سے بخارات میں تبدیل ہو جاتی ہے، جس سے فصلوں پر دباؤ پڑتا ہے، خاص طور پر گرم موسم میں جب مکئی، سبزیاں اور پھلوں (جیسے سیب، آڑو) کو پانی کی زیادہ ضرورت ہوتی ہے۔ اس سے نہ صرف فصلوں کی پیداوار کم ہوتی ہے بلکہ پیداوار کا معیار بھی متاثر ہوتا ہے۔
غیر متوقع بارشیں: ہزارہ میں بارشوں کے نمونے غیر متوقع ہو گئے ہیں، جیسے کہ شدید بارشوں کے بعد خشک مدتیں آنا۔ مثال کے طور پر، علاقے میں زیادہ مون سون بارشیں ہو سکتی ہیں، پھر طویل خشک مہینے آ سکتے ہیں، جو کسانوں کے لیے فصلوں کی بوائی اور کٹائی کے اوقات کو غیر یقینی بناتا ہے۔ اس سے اہم فصلوں جیسے گندم اور مکئی کی پیداوار پر منفی اثرات پڑتے ہیں۔
فصلوں کے اگنے کا موسم تبدیل ہونا: جیسے جیسے درجہ حرارت میں اضافہ ہوتا ہے، فصلوں کا اگنے کا موسم کم ہوتا جا رہا ہے۔ بعض علاقوں میں اس کا مطلب ہوتا ہے کہ فصلوں کو پہلے بویا جائے گا، لیکن اس کے ساتھ ہی سردی کا خطرہ بھی بڑھ جاتا ہے۔ اس سے فصلوں کا صحیح طور پر پختہ نہ ہونا اور کم پیداوار کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔
ب) پانی کی کمی:
پانی کی کمی کا سامنا: ہزارہ میں زراعت کا دارومدار زیادہ تر دریاؤں اور آبپاشی کے نظام پر ہے جو پہاڑوں میں موجود برف کے پگھلنے سے آتا ہے۔ موسمیاتی تبدیلیوں کی وجہ سے گلیشئرز کی پگھلنے کی رفتار تیز ہو گئی ہے، جس سے پانی کی فراہمی میں کمی آ رہی ہے۔ گرمیوں کے مہینوں میں پانی کی کمی زیادہ شدید ہو جاتی ہے، جس سے فصلوں کو سیراب کرنا مشکل ہو جاتا ہے۔
پانی کے وسائل پر بڑھتا ہوا دباؤ: بڑھتی ہوئی آبادی کے ساتھ پانی کے وسائل پر دباؤ بڑھ رہا ہے۔ اس سے زراعت اور مقامی پانی کی فراہمی دونوں متاثر ہو رہے ہیں۔
ج) کیڑے اور بیماریوں کا پھیلاؤ:
نئے کیڑے: بڑھتے ہوئے درجہ حرارت کی وجہ سے ایسے کیڑے پیدا ہو رہے ہیں جو گرم ماحول میں بہتر پھیلتے ہیں، جیسے ٹڈیاں اور افیڈز، جو ہزارہ میں فصلوں کو نقصان پہنچاتے ہیں۔ اس کے علاوہ، گرم سردیوں کی وجہ سے کیڑوں کی آبادی کم نہیں ہو پاتی، اور وہ سال بھر رہتے ہیں، جس سے فصلوں کو بار بار نقصان پہنچتا ہے۔
پودوں کی بیماریاں: زیادہ نمی اور بڑھتے ہوئے درجہ حرارت کی وجہ سے فنگل بیماریاں (جیسے رسٹ اور بلیٹ) اور دیگر جراثیم پھیلتے ہیں جو فصلوں کی صحت کو متاثر کرتے ہیں، جس سے پیداوار کم اور معیار خراب ہوتا ہے۔
د) مٹی کی کٹاؤ اور زرخیزی کا نقصان:
مٹی کا کٹاؤ: شدید بارشیں، جو زیادہ بار بار ہو رہی ہیں، مٹی کے کٹاؤ کا سبب بنتی ہیں، جو زمین کے زرخیز ٹاپ سوائل کو دھو دیتی ہیں۔ اس سے زمین کی پیداوار کم ہو جاتی ہے اور خشک سالی کے اثرات مزید بڑھ جاتے ہیں۔
مٹی کی نمکینیت: بڑھتے ہوئے درجہ حرارت اور پانی کی دستیابی میں اتار چڑھاؤ کی وجہ سے آبپاشی کے پانی میں نمکینیت بڑھ جاتی ہے، جس سے مٹی کی زرخیزی کم ہوتی ہے اور فصلوں کی پیداوار مزید متاثر ہوتی ہے۔
- ہزارہ کے جنگلات:
ہزارہ کے علاقے کے جنگلات جو مارگلہ ہلز، ایبٹ آباد اور کاغان وادی کے کچھ حصوں میں پائے جاتے ہیں، مقامی حیاتیاتی تنوع کو برقرار رکھنے، پانی کے نظام کو ریگولیٹ کرنے اور کاربن کے ذخائر کے طور پر اہم ہیں۔ تاہم، موسمیاتی تبدیلیوں اور انسانی سرگرمیوں کی وجہ سے یہ جنگلات شدید خطرات سے دوچار ہیں۔
الف) جنگل کی آگ:
خشک موسم کی بڑھتی ہوئی مدتیں: طویل خشک مدتیں، بڑھتا ہوا درجہ حرارت اور زیادہ بخارات جنگلات کو آگ لگنے کا زیادہ خطرہ بناتے ہیں۔ اگرچہ ہزارہ میں جنگل کی آگ ایک عام بات رہی ہے، لیکن موسمیاتی تبدیلیوں کے باعث اس کے بڑھنے اور شدت میں اضافہ ہو رہا ہے۔ جنگل کی آگ نہ صرف حیاتیاتی تنوع کو تباہ کرتی ہے بلکہ یہ بڑی مقدار میں CO2 بھی خارج کرتی ہے، جس سے عالمی درجہ حرارت میں مزید اضافہ ہوتا ہے۔
پودوں پر اثرات: آگ ماحولیات کو متاثر کرتی ہے، درختوں کو نقصان پہنچاتی ہے، جو کہ پانی کے نظام کو ریگولیٹ کرنے اور مٹی کی استحکام کے لیے ضروری ہیں۔ جنگل کی آگ بعض پودوں اور جانوروں کی نسلوں کا مکمل صفایا کر دیتی ہے، جس سے حیاتیاتی تنوع میں کمی آتی ہے۔
ب) حیاتیاتی تنوع کا نقصان:
نئی اقسام کا انحراف: ہزارہ میں بہت سے درخت اور پودے مخصوص موسمی حالات کے لیے ڈھالے گئے ہیں۔ جب درجہ حرارت بڑھتا ہے، تو بعض پودوں کی نسلیں اپنے موجودہ مقام پر زندہ نہیں رہ سکتیں، اور ان کی جگہ نئے پودے آ جاتے ہیں۔ اس سے ایکویسٹم میں عدم توازن پیدا ہوتا ہے اور جنگلی حیات پر اثرات پڑتے ہیں جو مخصوص پودوں پر انحصار کرتے ہیں۔
جانوروں کے مسکن پر اثرات: جنگلی حیات جیسے کہ ہمالیائی بھورے بیئر اور مختلف پرندوں کی نسلیں بھی متاثر ہو رہی ہیں۔ ان کے مسکن کم ہو رہے ہیں، جس کی وجہ سے وہ زیادہ اونچائی والی جگہوں کی طرف منتقل ہونے پر مجبور ہیں، لیکن تمام جانور ان تبدیلیوں کا مقابلہ نہیں کر سکتے، جس کی وجہ سے ان کی آبادیوں میں کمی واقع ہو رہی ہے۔
ج) کیڑوں کا حملہ:
غیر مقامی کیڑے: بڑھتے ہوئے درجہ حرارت کے ساتھ غیر مقامی کیڑے جیسے پائن بیٹل کا پھیلاؤ بڑھ رہا ہے، جو جنگلات کے درختوں کو نقصان پہنچا کر جنگل کی صحت کو متاثر کرتے ہیں۔ یہ کیڑے ہزارہ کے جنگلات میں بڑے پیمانے پر پائن کے درختوں کو تباہ کر رہے ہیں، جس سے جنگل کی کمی اور آگ کے خطرات میں اضافہ ہو رہا ہے۔
د) جنگلات کی کٹائی:
انسانی سرگرمیاں: غیر مستحکم کٹائی کے طریقے، زراعت اور شہری ترقی کے دباؤ کے ساتھ مل کر جنگلات کی کٹائی میں اضافہ کر رہے ہیں۔ موسمیاتی تبدیلیوں کی وجہ سے جنگلات کی بحالی کی صلاحیت میں کمی آرہی ہے۔ جیسے جیسے درختوں کا احاطہ کم ہو رہا ہے، کاربن جذب کرنے کی صلاحیت کم ہو رہی ہے، جو ایک خود کو بڑھانے والا عمل بن جاتا ہے۔
- ہزارہ کے دریا:
ہزارہ کے دریا، خاص طور پر دریائے سندھ اور اس کی معاون ندیوں کا پانی پہاڑوں میں برف کے پگھلنے سے آتا ہے۔ جیسے جیسے موسمیاتی تبدیلیاں آتی ہیں، یہ دریا مختلف چیلنجز کا سامنا کر رہے ہیں۔
الف) گلیشئرز کا پگھلنا:
گلیشئرز کا تیز پگھلنا: ہزارہ میں موجود گلیشئرز جیسے کاغان وادی میں تیزی سے پگھل رہے ہیں کیونکہ درجہ حرارت بڑھ رہا ہے۔ گلیشئرز دریاوں میں پانی کا مسلسل ذرائع فراہم کرتے ہیں، خاص طور پر گرم موسم میں جب پانی کی ضرورت زیادہ ہوتی ہے۔ جیسے جیسے گلیشئرز کی مقدار کم ہوتی جا رہی ہے، دریا میں پانی کی فراہمی کا انحصار کم ہو رہا ہے، جس سے پانی کی کمی کا سامنا ہوگا۔
پانی کی فراہمی پر اثرات: وہ علاقے جو گلیشئرز سے نکالے گئے پانی پر انحصار کرتے ہیں، جیسے کسان اور مقامی لوگ جو دریاؤں سے پینے کا پانی حاصل کرتے ہیں، انہیں مستقبل میں پانی کی فراہمی کے حوالے سے شدید مشکلات کا سامنا ہو سکتا ہے۔
ب) سیلاب:
سیلاب میں اضافہ: زیادہ بارشیں اور تیز گلیشئر پگھلنے کی وجہ سے دریاؤں میں سیلاب آنا بڑھ رہا ہے۔ ہزارہ میں دریائے کنہال اور دیگر ندیوں میں حالیہ برسوں میں شدید سیلاب آئے ہیں۔ سیلاب نہ صرف بنیادی ڈھانچے کو نقصان پہنچاتے ہیں بلکہ فصلوں کو بھی تباہ کر دیتے ہیں اور دریائی کناروں کو کھا جاتے ہیں، جس سے زمین کی پیداوار متاثر ہوتی ہے۔
انفراسٹرکچر کو نقصان: دریا کے کنارے بنائی گئی سڑکوں، پلوں اور آبپاشی کے نظام کو سیلاب کے نتیجے میں شدید نقصان پہنچتا ہے، جو روزمرہ کی زندگی اور طویل مدتی ترقی پر اثر انداز ہوتا ہے۔
ج) پانی کا معیار:
سرکنڈے اور آلودگی: جیسے جیسے سیلاب کی شدت بڑھتی ہے، مٹی اور ریت کے ذرات پانی میں مل جاتے ہیں، جو پانی کے معیار کو خراب کرتے ہیں۔ اس کی وجہ سے پانی کے علاج کے نظام کو نقصان پہنچتا ہے اور آبی ماحولیاتی نظام بھی متاثر ہوتا ہے۔
مچھلیوں کی کمی: آلودگی اور سرکنڈوں کی بڑھتی ہوئی مقدار دریا میں مچھلیوں کے لیے نقصان دہ ہے، جو نہ صرف حیاتیاتی تنوع کو متاثر کرتا ہے بلکہ مقامی کمیونٹیز کے لیے روزگار کے مواقع بھی کم کرتا ہے۔
د) خشک سالی:
پانی کی فراہمی میں کمی: جیسے جیسے گلیشئرز کی مقدار کم ہو رہی ہے اور بارشیں غیر متوقع ہو رہی ہیں، ہزارہ کے دریاؤں میں پانی کی مقدار کم ہو سکتی ہے، خصوصاً گرمیوں میں۔ اس سے زراعت، خاص طور پر آبپاشی کے زیر اثر فصلوں کے لیے مشکلات بڑھ جائیں گی اور مقامی لوگوں کو پینے کے پانی کے مسائل کا سامنا ہوگا
نتیجہ:
مجموعی طور پر، موسمیاتی تبدیلیوں کا ہزارہ کی زراعت، جنگلات اور دریاؤں پر گہرا اثر پڑ رہا ہے۔ پانی کی کمی، قدرتی آفات اور ماحولیاتی نظام کی خرابی ان تمام شعبوں کو متاثر کر رہی ہے۔ ان تبدیلیوں کا مقابلہ کرنے کے لیے فوری طور پر آبپاشی کے نظام، پائیدار زراعتی طریقوں، جنگلات کی حفاظت اور دوبارہ آبادکاری جیسے اقدامات کی ضرورت ہے۔