متبادل تنازعات کے حلسے مراد ایسے طریقہ کار ہیں جو روایتی عدالتوں میں مقدمات کے بجائے تنازعات کے حل کے لیے استعمال کیے جاتے ہیں۔ ان طریقوں کا مقصد تنازعات کو دوستانہ، شفاف،دونوں فریقین کی باہمی مرضی اور مؤثر طریقے سے حل کرنا ہے تاکہ عدالتی نظام پر بوجھ کم ہو۔ متبادل تنازعات کے حلمیں ثالثی، مصالحت، گفت و شنید اور مذاکرات جیسے طریقے شامل ہیں۔ دنیا بھر میں متبادل تنازعات کے حلکو تنازعات حل کرنے کے لیے کم خرچ اور وقت کی بچت کا ایک مؤثر طریقہ سمجھا جاتا ہے، خاص طور پر ان علاقوں میں جہاں رسمی عدالتی نظام تک رسائی محدود ہو۔
اے ڈی آر (ADR) کی تاریخ:متبادل تنازعات کے حل
متبادل تنازعات کا حلکوئی نیا تصور نہیں ہے۔ اس کی جڑیں قدیم معاشروں میں پائی جاتی ہیں، جہاں مقامی عمائدین یا کونسلز کمیونٹی میں تنازعات کو باہمی اتفاق رائے سے حل کرتے تھے۔ برصغیر پاک و ہند میں دیہاتوں میں پنچایت اور قبائلی علاقوں میں جرگہ کا نظام ہمیشہ سے تنازعات کے غیر رسمی حل کے طور پر موجود رہا ہے۔ یہ نظام بزرگوں اور کمیونٹی رہنماؤں کی دانش پر انحصار کرتا تھا اور صلح صفائی کو سزا پر ترجیح دی جاتی تھی۔
جدید متبادل تنازعات کے حل کا فریم ورک بیسویں صدی میں سامنے آیاجب عدالتی نظام کو جدید بنانے اور سستے اور تیز انصاف کو یقینی بنانے کی کوششیں ہو رہی تھیں۔ بین الاقوامی کنونشنز جیسے نیویارک کنونشن 1958اوریواین سٹرال ماڈل لاء نے متبادل تنازعات کے حلکےعالمی فروغ میں اہم کردار ادا کیا۔
پاکستان میں متبادل تنازعات کے حلکےموجودہ قوانین:
کے ADR کو عدالتی نظام کا ایک اہم جزو تسلیم کیا گیا ہے۔
پاکستان کے آئین میں سستا اور فوری انصاف فراہم کرنے پر زور دیا گیا ہے، جو اے ڈی آر پاکستان میں کن طریقہ کار کو فروغ دیتا ہے۔ یہاں کچھ اہم قوانین اور دفعات درج ہیں؛
چھوٹے دعوے اور معمولی جرائم آرڈیننس، 2002:
یہ آرڈیننس چھوٹے دعووں اور معمولی جرائم کے لیےمصالحتی عدالتوں کے قیام کو فروغ دیتا ہے۔
سیول پروسیجر کوڈ:1908 (ترامیم)
سی پی سی کی نمبر اے نواسی دفعہ عدالتوں کو تنازعات کےمتبادل حل کے لئے مقدمات کونسلز کو بھیجنے کی اجازت دیتی ہے، جس میں فریقین کی رضامندی سے ثالثی، مصالحت ، مذاکرات اور گفت و شنید شامل ہیں۔
ثالثی ایکٹ، 1940:
یہ ایکٹ ثالثی کی کارروائیوں کو منظم کرتا ہے اور ثالث مقرر کرنے اور ایوارڈز نافذ کرنے کے اصول وضع کرتا ہے۔
مسلم خاندانی قوانین آرڈیننس، 1961:
یہ آرڈیننس خاندانی تنازعات، خاص طور پر شادی اور طلاق کے مسائل کے لیے، ثالثی کونسلز صلح اور حل میں معاونت فراہم کرتا ہے۔
اے ڈی آر کےمراکز متبادلتنازعات کے حل
پاکستان کے مختلف صوبوں میںمتبادل تنازعات کے حلکےمراکز قائم کیے گئے ہیں،جو عدالتوں سے باہر تنازعات کے کے لیے پلیٹ فارم فراہم کرتے ہیں۔
خیبر پختونخوا میں تنازعات کے حل کی کونسلز:
کردار اور ذمہ داریاں
خیبر پختونخوا حکومت نے 2014 میں پولیس ایکٹ کے تحت تنازعات کے حل کی کونسلزکو باقاعدہ طور پر متعارف کرایا۔متبادل تنازعات کے حلکا مقصد تنازعات کو دوستانہ طریقے سے حل کرنا، ہم آہنگی کو فروغ دینا اور عدالتوں اور پولیس پر بوجھ کم کرنا ہے۔
متبادل تنازعات کے حلکی اہم ذمہ داریاں درج ذیل ہیں:
سول، فوجداری اور خاندانی تنازعات میں ثالثی اور مصالحت کرنا۔
فریقین کے درمیان چھوٹے تنازعات کو حل کرنا تاکہ ان میں شدت نہ آئے اور وہ کسی بڑے تنازعہ یا سانحہ کا سبب نہ بنے۔
پولیس کی کمیونٹی کے ساتھ بہتر تعلقات کے فروغ میں مدد کرنا۔
فریقین کے ایسا ماحول دینا جس سے کوئی فریق خوف محسوس نہ کرے ۔
باہمی رضامندی اور معاہدوں کے ذریعے مصالحتی انصاف کو فروغ دینا۔
فریقین کی باہمی رضامندی انتہائی ضروری ہے،
فریقین کو اعتماد دینا کہ وہ کونسل کی نظر میں برابر ہیں۔
کونسلز کی ساخت :
متبادل تنازعات کے حلمیں مقامی عمائدین، پیشہ ور افراد، وکلا اور دیگر معزز افراد شامل ہوتے ہیں، جو مقامی علاقوں کی نمائندگی کو یقینی بناتے ہیں۔ اراکین رضاکارانہ طور پر خدمات فراہم کرتے ہیں اور مقامی پولیس اسٹیشنز کے ساتھ ہم آہنگی میں کام کرتے ہیں۔
کارکردگی اور کامیابیاں:
کونسلز نے خیبر پختونخواہ میں اپنے قیام سے اب تک سینکڑوں مقدمات کو حل کیا ہے اور عدالتوں کو بھیجے گئے تنازعات کے ایک بڑے حصے کو نمٹایا ہے۔ ان کی اہم کامیابیاں درج ذیل ہیں:
موثر کارکردگی:کیسز کو چند دن یا ہفتوں میں حل کرنا، جبکہ رسمی عدالتوں میں یہ عمل کئی سال لے سکتا ہے، جو انصاف کی فراہمی میں تاخیر کا سبب بنتا ہے۔
کم خرچ:مفت خدمات فراہم کرنا، فریقین کو مقدمہ بازی کے اخراجات سے بچاتا ہے۔کونسلز کے ممبران خواتین و حضرات فی سبیل اللہ کام کرتے ہیں۔
رشتوں کی بحالی:مفاہمت کو لڑائی جھگڑے پر ترجیح دینے سے معاشرے میں امن و آشتی کی فضا ءپیدا ہوتی ۔ لوگوں کی تھانے کچہریوں کے چکر سے جان بچ جاتی ہے۔
عدالتوں میں مقدمات کی بھر مار میں کمی: چھوٹے موٹے ہزاروں مقدمات کی عدالت سے باہر اور فوری حل عدالت پر سے مقدمات کا پریشر کم کرتا ہے، جس سے عدالت دیگر اہم مقدمات کو بر وقت اور انصاف کے تقاضوں کے مطابق سن اور فیصلہ کر سکتی ہے۔
ڈی آر سی اپنی کامیابیوں کے باوجود ، کئی مسائل کا سامنا کر رہی ہیں۔
قانونی فریم ورک کی کمی:جامع قانونی فریم ورک کی عدم موجودگی ان کونسلز کی کارکردگی اور عملداری کو محدود کرتی ہے۔
وسائل کی کمی:مالی اور انتظامی وسائل کی کمی ان کی کارکردگی کو متاثر کرتی ہے۔دور دراز علاقوں کے رہنے والے لوگوں کے مقدمات نہیں سنے جا سکتے۔
صنفی نمائندگی:کونسلزمیں خواتین کی شمولیت محدود ہے، جس سے صنفی حساس معاملات سننے، معلومات اکٹھا کرنے اور تنازعات کے حل میں مشکلات پیش آتی ہیں۔کونسلز کی خواتین ممبران بنیادی سہولتیں نہ ملنے سے کونسلز میں خاطر خواہ شرکت نہیں کر سکتی اور یوں تنازعات جو اکثر خواتین سے متعلقہ ہوتے ہیں ان میں خواتین ممبران کے نہ ہونے سے فرق پڑتا ہے۔
عوامی آگاہی:بہت سے لوگ ڈی آر سی کے وجود اور ان کے کردار سے لاعلم ہیں۔جس سےلوگ اپنے تنازعات عدالتوں میں لے جاتے ہیں۔
ثقافتی مزاحمت:کچھ علاقوں میں جرگہ جیسے روایتی نظام ڈی آر سیکی مقبولیت کو محدود کر دیتے ہیں۔
جرگہ مافیا:با اثر جرگہ مافیا یا تو کونسلز کے پاس مقدمات جانے نہیں دیتا اگر چلے بھی جائیں تو درمیان سے مقدمات چھوڑ دیتے ہیں۔ اکثر اوقات یہ مافیا ڈی آر سی کے ممبران میں سیاسی اثرو رسوخ سے اپنے ممبر ڈال دیتے ہیں جو ڈی آر سی کے روح کے خلاف ہے۔
ڈی آر سی کو درپیش نیا مسئلہ:
متبادل تنازعات کے حلخیبر پختونخواایکٹ2020 کے تحت ڈی آر سی کی سیکشن نمبر 73 خیبر پختونخواہ پولیس ایکٹ 2017نمبر دو میں ترمیم کر دی گئی ہے اور صوبائی پولیس آفس کے تحت قائم کمیٹیوں کا کردار محدود کر دیا گیا ہے اور ان کے کام کر ریفرل تک محدود کر دیا گیا ہے، اور تنازعات کا حل اب ثالثین کا مینڈیٹ ہے نہ کہ ڈر آر سی کا۔ یہ ترمیم اور اس کے تحت تبدیل شدہ مینڈیٹ صوبائی حکومت اور ہوم سیکریٹری کے نوٹس میں ہے۔یوں ایک صوبے میں پولیس اور ڈی سی مصالحتی کمیٹیاںمتبادل تنازعات کے حل کے ایکٹ کے تحت چلائی جا رہی ہیں۔ ڈی آر سی ممبران جو پہلے ہی پولیس ایکٹ 2017 کے تحت کام کررہے ہیں، نئی ترمیم پر شدید ناراض ہیں اور ان کی حوصلہ شکنی بھی ہو رہی ہے،اگر اس مسئلہ کو بروقت حل نہ کیا گیا تو متوازی مگر ایک جیسے کام کی یہ کمیٹیاں آپس میں الجھ جائیں گی یوں فوری اور سستے انصاف کی فراہمی کی یہ کمیٹیاں افسر شاہی کے درمیان رسہ کشی کا سبب بنے گی اور عام آدمی جو پہلے ہی انصاف کے نام پر اجڑ رہا ہے مزید بد دل ہوگا اور نچلی سطح پر امن و آشتی اور انصاف کا خواب کبھی شرمندہ تعبیر نہیں ہو گا۔
آگے کا راستہ اور حل:
پاکستان میںاے ڈی آر اور ڈی آر سی کی مکمل صلاحیت کو بروئے کار لانے کے لیے مندرجہ ذیل اقدامات ضروری ہیں:
قانون سازی کی حمایت :سب سے پہلے ڈی آر سیکے دائرہ کار اور اختیارات کو واضح کرنے کے لیے مضبوط قانونی فریم ورک کا قیام انتہائی ضروری ہے، اس میں ڈی آر سی کا مینڈیٹ واضع ہو، قوانین واضع ہوں، جامع ضابطہ اخلاق مرتب کیا جائے اور یہ اصول بھی واضع ہو کہ کن کن تنازعات میں ڈی آر سی راضی نامہ کر سکتی ہے۔
ڈی آر سی اراکین کو تنازعات کے حل، صنفی حساسیت ، موئثر رابطہ کاری اور مفاہمتی انصاف پر تربیت فراہم کرنا۔:ممبران کی ڈی آر سی تربیت
آگاہی مہمات: کمیونٹی کو اے ڈی آر اور ڈی آر سی کے فائد کے بارے میں آگاہ کرنا ۔
عدالتی نظام کے ساتھ انضمام:ڈی آر سی اور عدلیہ کے درمیان تعاون کو مضبوط بنانا۔
صنفی مرکزی دھارے میں شمولیت:خواتین کی نمائندگی اور شمولیت کو یقینی بنانا تاکہ صنفی مسائل کو مؤثر طریقے سے حل کیا جا سکے۔
الغرض متبادل تنازعات کے حلانصاف کی فراہمی کے لیے ایک مؤثر ذریعہ ہے، خاص طور پر پاکستان جیسے معاشروں میں جہاں رسمی عدالتی نظام پر دباؤ بہت زیادہ ہے۔ خیبر پختونخوا میں تنازعات کے حل کونسلز نے یہ ثابت کیا ہے کہ کمیونٹی پر مبنی طریقے تنازعات کو مؤثر طریقے سے حل کر سکتے ہیں۔ تاہم، ان کو درپیش چیلنجز پر قابو پانا ضروری ہے تاکہ ان کے اثرات کو بڑھایا جا سکے اور سب کے لیے مساوی انصاف کو یقینی بنایا جا سکے۔آے ڈی آرکے فروغ سے پاکستان ایک زیادہ ہم آہنگ اور منصفانہ معاشرے کیطرف اہم قدم اٹھا سکتا ہے۔
مختار جاوید ایک سماجی و ماحولیاتی کارکن
ایگزیکٹو ڈائیریکٹر واج، ، چیئر پرسن فا فن
ایگزیکٹو ممبر این ایچ این،سن سی ایس اے نیوٹریشن نیٹ ورک پاکستان
،ممبر ، ، سٹارٹ گلوبل نیٹ ورک ر یڈی پاکستان،اور خیبر پختونخواہ فارسٹری راونڈ ٹیبل