Skip to content

پاکستان میں ڈاکٹرز کا مقام

شیئر

شیئر

ڈاکٹر جزبیہ شیریں   
   پاکستان میں ڈاکٹرز کی چار اقسام ہیں، اور یہ چاروں اپنی اپنی دنیا کے "ماہِر” ہیں۔ ایک طرف علم و دانش کی بلندیوں کو چھونے والے پی ایچ ڈی ڈاکٹرز ہیں، تو دوسری طرف انسانیت کے مسیحا کہلانے والے ایم بی بی ایس ڈاکٹرز، پھر ہومیوپیتھی کے "صبر کے معالج”، اور آخر میں وہ عطائی ڈاکٹرز جنہیں دیکھ کر بندہ سوچتا ہے کہ زندگی سے پیار کریں یا گلے ملیں؟ پی ایچ ڈی ڈاکٹرز وہ ہوتے ہیں جنہیں ڈاکٹر کہلوانے کے لیے نہ مریض دیکھنے پڑتے ہیں، نہ خون کے نمونے، بلکہ لائبریری کے گہرے کونے، ریسرچ پیپرز، اور "ریویو” کی گتھیاں سلجھانی پڑتی ہیں۔ ان کے سامنے کوئی کہہ دے کہ "ڈاکٹر صاحب، نبض چیک کر دیں”، تو یہ مسکرا کر کہتے ہیں، "بھائی، ہم دل کی حالت کاغذوں میں دیکھتے ہیں، جسم میں نہیں۔” یہ علمی معرکے سر کرتے ہیں، مگر کبھی کبھی ان کی حالت دیکھ کر لگتا ہے کہ شاید دنیا ان کے کام کو سمجھنے کے لیے ابھی تیار نہیں۔ ایم بی بی ایس ڈاکٹرز کی کہانی ذرا مختلف ہے۔ ان کی زندگی کا آغاز "بائیولوجی” کے اس وعدے سے ہوتا ہے کہ وہ انسانیت کی خدمت کریں گے، مگر پہلے پانچ سال ان پر کتابوں کے وزن، سینئرز کی جھڑکیوں اور ہسپتال کے شدید شیڈول کا بوجھ ڈال دیا جاتا ہے۔ مریضوں کے ساتھ ان کا تعلق کچھ یوں ہوتا ہے جیسے رشتہ داروں کا عید پر، "بس جان چھوٹ جائے، تو اچھا ہے!” اور اگر کبھی ان سے فری مشورہ مانگا جائے، تو جواب ہوتا ہے، "کلینک آئیں، مکمل معائنہ کریں گے۔” ہومیوپیتھک ڈاکٹرز کو دیکھ کر بندہ حیران رہ جاتا ہے کہ چند سفید دانے اور پانی جیسا محلول کیسے زندگی بدل سکتے ہیں؟ یہ کہتے ہیں کہ "ہم بیماری کو اندر سے جڑ سے ختم کرتے ہیں۔” مریض کو اتنی چھوٹی گولیاں دیتے ہیں کہ کھانے کے بعد بھی لگتا ہے کچھ کھایا نہیں۔ ان کے علاج میں صبر کا امتحان ہوتا ہے، اور مریض کو صبر کرنا ہی پڑتا ہے، کیونکہ اثر کئی مہینے بعد ظاہر ہوتا ہے، یا شاید کبھی نہیں۔ اور عطائی ڈاکٹرز؟ یہ وہ بہادر لوگ ہیں جو خود کو بغیر کسی ڈگری کے ڈاکٹر کہلوانے کی ہمت کرتے ہیں۔ گاؤں، دیہات، اور شہروں کے کونے کونے میں موجود یہ حضرات "ہر بیماری کا علاج” جانتے ہیں۔ دانت کا درد ہو یا دل کی دھڑکن کا مسئلہ، ان کے پاس ایک ہی شربت یا انجیکشن ہوتا ہے، جو ہر مرض کا علاج ہے۔ ان کی دکان پر ہمیشہ "ہاضمے کے ماہر” اور "کمزوری کا مکمل علاج” جیسے دعوے نظر آتے ہیں۔ مریض ان کے پاس جاتے ہوئے یہ سوچتے ہیں کہ یا تو یہ بندہ صحیح کرے گا یا اگلے جہان پہنچائے گا۔ یہ چاروں قسم کے ڈاکٹرز پاکستان کے نظام کا ایک منفرد حصہ ہیں۔ پی ایچ ڈی ڈاکٹرز علم کے میدان کے شہسوار ہیں، ایم بی بی ایس ڈاکٹرز صحت کے نگہبان، ہومیوپیتھک ڈاکٹرز صبر کا سبق سکھانے والے، اور عطائی ڈاکٹرز زندگی کا خطرہ مول لینے والے۔ ان سب کی کہانی ایک ہی سبق دیتی ہے: ڈاکٹر بننا آسان نہیں، اور ڈاکٹر کے پاس جانا بھی!                                                                                                                            پاکستان میں اکثر یہ تاثر پایا جاتا ہے کہ ایم بی بی ایس ڈاکٹرز کسی بھی دوسرے شعبے کے ماہرین سے زیادہ قابل ہوتے ہیں، لیکن حقیقت میں اگر غور کیا جائے تو پی ایچ ڈی کرنے والے، خاص طور پر سائنس کے میدان میں، ان سے کہیں زیادہ محنت اور قابلیت کا مظاہرہ کرتے ہیں۔ دونوں کا تقابل کرنا شاید عام لوگوں کے لیے حیران کن ہو، لیکن حقیقت یہ ہے کہ پی ایچ ڈی کا راستہ کہیں زیادہ کٹھن اور علمی گہرائی کا متقاضی ہوتا ہے۔ ایم بی بی ایس کرنے کے لیے پانچ سال کی تعلیم ضروری ہے، جس کے دوران طلبہ میڈیکل سائنسز کے مختلف شعبوں میں مہارت حاصل کرتے ہیں۔ یہ بات درست ہے کہ یہ تعلیم مشکل اور وقت طلب ہے، لیکن اس کے بعد اکثر ڈاکٹرز کلینک یا ہسپتال میں کام شروع کر دیتے ہیں اور ایک خاص حد تک اپنی پریکٹس تک محدود رہتے ہیں۔ انہیں ایک مخصوص دائرے میں کام کرنے کی آزادی ہوتی ہے، اور ان کی ترقی زیادہ تر تجربے کے ساتھ جڑی ہوتی ہے، نہ کہ تحقیق یا علمی کام کے ساتھ۔ دوسری طرف پی ایچ ڈی کرنے والے طلبہ کے لیے صرف ماسٹرز یا ایم فل کی ڈگری کافی نہیں ہوتی، بلکہ انہیں مزید کئی سال تحقیق میں گزارنے پڑتے ہیں۔ پی ایچ ڈی کا راستہ محض ڈگری کا حصول نہیں، بلکہ علم کے نئے دروازے کھولنے اور دنیا کو کچھ نیا دینے کا سفر ہے۔ ایک سائنسدان جب تحقیق کرتا ہے، تو وہ محض کسی جسمانی بیماری کا علاج نہیں ڈھونڈتا بلکہ وہ دنیا کے بنیادی مسائل کا حل تلاش کرنے کی کوشش کرتا ہے، چاہے وہ ماحولیاتی تبدیلی ہو، جدید ٹیکنالوجی کی ترقی، یا انسان کے مائیکروسکوپک ماحول کی پیچیدگیاں سمجھنے کی جستجو۔ ایم بی بی ایس ڈاکٹرز کے کام کی اہمیت اپنی جگہ، لیکن انہیں پہلے سے موجود علم کے مطابق علاج کرنا ہوتا ہے۔ پی ایچ ڈی کرنے والے سائنسدان وہ لوگ ہیں جو یہ علم تخلیق کرتے ہیں، نئی دوا کی تحقیق کرتے ہیں، نئی تکنیک ایجاد کرتے ہیں، اور دنیا کو ایسے مسائل کا حل پیش کرتے ہیں جن کا تصور عام ذہن نہیں کر سکتا۔ ایم بی بی ایس ڈاکٹرز وہ طریقے استعمال کرتے ہیں جو سائنسدانوں نے ایجاد کیے ہوتے ہیں۔ اگر پی ایچ ڈی کرنے والے نہ ہوں، تو میڈیکل کے میدان میں بھی ترقی رک جائے۔                                                                                                                         ایک اور پہلو یہ بھی ہے کہ پی ایچ ڈی کا سفر اکیڈمک دباؤ کے ساتھ ساتھ مالی مشکلات اور ذاتی قربانیوں سے بھرا ہوتا ہے۔ ایک پی ایچ ڈی اسکالر کو پانچ سے چھ سال یا اس سے بھی زیادہ وقت بغیر کسی مستحکم آمدنی کے گزارنا پڑتا ہے، جبکہ ایم بی بی ایس ڈاکٹرز اپنی تعلیم مکمل کرتے ہی آمدنی حاصل کرنا شروع کر دیتے ہیں۔ ایک سائنسدان راتوں کو جاگ کر لیبارٹری میں تجربے کرتا ہے، فیلڈ میں تحقیقات کرتا ہے، اور تحقیقاتی مقالے لکھ کر عالمی معیار کے جریدوں میں شائع کرواتا ہے۔ یہ بھی قابل ذکر ہے کہ پی ایچ ڈی کرنے والے ماہرین کی تعلیم میں نہ صرف عملی مہارت شامل ہوتی ہے بلکہ وہ تنقیدی سوچ، مسائل کے تجزیے، اور نئی راہیں تلاش کرنے کی صلاحیت بھی رکھتے ہیں۔ وہ اپنے علم کو دنیا کے فائدے کے لیے استعمال کرتے ہیں، جبکہ ایم بی بی ایس ڈاکٹرز زیادہ تر انفرادی سطح پر مریضوں کا علاج کرتے ہیں۔ لہٰذا، یہ کہنا غلط نہیں ہوگا کہ پی ایچ ڈی کی ڈگری، خاص طور پر سائنس کے میدان میں، علم، محنت اور قربانی کے لحاظ سے کہیں زیادہ بلند مقام رکھتی ہے۔ ایم بی بی ایس ڈاکٹرز کا کام اہم ہے، لیکن وہ اپنی صلاحیتوں کا انحصار ان سائنسدانوں پر کرتے ہیں جو دن رات نئی تحقیقات اور ایجادات میں مصروف رہتے ہیں۔ ایم بی بی ایس کو ہمیشہ عزت ملتی ہے، لیکن شاید وقت آ گیا ہے کہ پی ایچ ڈی کرنے والوں کی علمی خدمات کو بھی اتنی ہی اہمیت دی جائے۔ پاکستان میں پی ایچ ڈی کی ڈگری کا تصور بظاہر بہت قابلِ قدر لگتا ہے، لیکن حقیقت میں یہ ایک ایسی جدوجہد بن چکی ہے جس کا انجام اکثر مایوسی اور ناقدری پر ہوتا ہے۔ ایک پی ایچ ڈی طالب علم کئی سال اپنی زندگی تحقیق، پڑھائی اور نئی دریافتوں کے لیے وقف کرتا ہے، لیکن پاکستان میں اس محنت کا صلہ اس طرح نہیں ملتا جیسے دنیا کے دیگر ترقی یافتہ یا حتیٰ کہ ترقی پذیر ممالک میں دیا جاتا ہے۔ پی ایچ ڈی کرنے کے لیے طالب علم کو پہلے ہی اعلیٰ تعلیمی معیار کا مظاہرہ کرنا ہوتا ہے، ایم فل اور ماسٹرز مکمل کرنے کے بعد مزید چار سے چھ سال تحقیق میں لگانے پڑتے ہیں۔ اس دوران مالی مشکلات، تحقیق کے محدود وسائل، اور مناسب سپورٹ نہ ہونے کے باوجود طلبہ اپنی تحقیق مکمل کرتے ہیں۔ لیکن پاکستان میں جب یہ طالب علم اپنی ڈگری مکمل کرتے ہیں، تو ان کے سامنے ایک غیر یقینی مستقبل ہوتا ہے۔ پاکستان میں پی ایچ ڈی سکالرز کے لیے ملازمتوں کے مواقع انتہائی محدود ہیں۔ یونیورسٹیوں میں اسامیاں کم اور درخواست گزار زیادہ ہوتے ہیں، اور اکثر ان عہدوں پر سفارش یا تعلقات کو ترجیح دی جاتی ہے۔ جو لوگ مستقل ملازمت حاصل کر بھی لیتے ہیں، ان کے لیے تنخواہیں اور مراعات انتہائی غیر مناسب ہوتی ہیں۔ مثال کے طور پر، ٹینور ٹریک سسٹم پر کام کرنے والے اساتذہ کی تنخواہیں چار سال سے نہیں بڑھیں، اور ان پر ٹیکس بھی زیادہ لگایا جاتا ہے، جو ان کی مالی مشکلات میں مزید اضافہ کرتا ہے۔ اگر ہم ترقی یافتہ ممالک جیسے امریکہ، کینیڈا، یا یورپ کے ممالک سے موازنہ کریں، تو وہاں پی ایچ ڈی کرنے والوں کو نہ صرف اچھی تنخواہیں دی جاتی ہیں بلکہ ان کے تحقیقی کام کو قدر کی نگاہ سے دیکھا جاتا ہے۔ تحقیق کے لیے مناسب فنڈز، لیبارٹری کی سہولیات، اور عالمی معیار کے وسائل دستیاب ہوتے ہیں، جو پاکستان میں ایک خواب ہی لگتے ہیں۔ چین جیسے ممالک میں پی ایچ ڈی سکالرز کے لیے بہترین سہولیات فراہم کی جاتی ہیں، اور انہیں تحقیق کے ساتھ ساتھ عملی طور پر اپنی فیلڈ میں ترقی کے مواقع بھی دیے جاتے ہیں۔ پاکستان میں نہ صرف وسائل کی کمی ہے بلکہ سماجی رویہ بھی پی ایچ ڈی کرنے والوں کے لیے حوصلہ شکن ہے۔                                                                                                                                            اکثر لوگ یہ سمجھتے ہیں کہ پی ایچ ڈی کرنے والے صرف پڑھائی میں پھنسے رہتے ہیں اور عملی دنیا میں ان کا کوئی کردار نہیں ہوتا۔ یہی وجہ ہے کہ میڈیکل، انجینئرنگ یا دیگر پیشوں کے مقابلے میں پی ایچ ڈی کی ڈگری کو اہمیت نہیں دی جاتی۔ حتیٰ کہ جو لوگ سرکاری یا نجی اداروں میں کام کرتے ہیں، انہیں بھی وہ عزت اور مقام نہیں ملتا جو ان کی محنت اور قابلیت کے مطابق ہونا چاہیے۔ اعداد و شمار کے مطابق، پاکستان میں ہر سال سینکڑوں طلبہ پی ایچ ڈی مکمل کرتے ہیں، لیکن ان میں سے اکثر یا تو بیروزگار رہتے ہیں یا اپنی فیلڈ سے ہٹ کر کم تنخواہ والی نوکریاں کرنے پر مجبور ہوتے ہیں۔ تحقیق کے شعبے میں حکومت کی جانب سے فنڈنگ کی کمی اور نجی اداروں کی تحقیق میں عدم دلچسپی اس صورتحال کو مزید خراب کرتی ہے۔ یہ المیہ ہے کہ پاکستان میں پی ایچ ڈی کرنے والے اکثر بیرون ملک جانے کو ترجیح دیتے ہیں، کیونکہ وہاں ان کے کام کو نہ صرف سراہا جاتا ہے بلکہ ان کی زندگی کا معیار بھی بہتر ہوتا ہے۔ یہ برین ڈرین پاکستان کے تعلیمی اور تحقیقی شعبے کو مزید نقصان پہنچا رہا ہے، کیونکہ ملک میں جو لوگ علم کی شمع جلانے کی کوشش کرتے ہیں، انہیں یہاں رہ کر ترقی کے مواقع نہیں ملتے۔ لہٰذا، یہ کہنا بجا ہوگا کہ پاکستان میں پی ایچ ڈی کی ڈگری اپنی وقعت کھو رہی ہے۔ حکومت، تعلیمی اداروں اور معاشرے کو اس صورتحال پر سنجیدگی سے غور کرنے کی ضرورت ہے۔ تحقیق اور اعلیٰ تعلیم کو اگر واقعی ملک کی ترقی کے لیے استعمال کرنا ہے، تو پی ایچ ڈی کرنے والوں کو وہ مقام اور وسائل فراہم کرنا ہوں گے جو ان کا حق ہیں۔ ورنہ یہ ذہین دماغ بیرون ملک جا کر وہاں کی ترقی میں اپنا حصہ ڈالنے پر مجبور ہوتے رہیں گے، اور پاکستان علمی و تحقیقی میدان میں پیچھے رہ جائے گا

اپنی رائے دیں

متعلقہ پوسٹس

دوسری زبان میں ترجمہ کریں