ڈاکٹر جزبیہ شیریں
غربت پاکستان کا ایک دیرینہ مسئلہ ہے جو خاص طور پر دیہی علاقوں میں شدت سے محسوس کیا جاتا ہے۔ دیہی پاکستان کی تقریباً 60 فیصد آبادی خط غربت کے نیچے زندگی بسر کر رہی ہے، جہاں نہ صرف بنیادی ضروریات کی کمی ہے بلکہ صحت، تعلیم، اور روزگار کے مواقع بھی محدود ہیں۔ پاکستان میں موجودہ غربت کی شرح تقریباً 39 فیصد ہے، جس میں دیہی علاقوں کا حصہ زیادہ نمایاں ہے۔
دیہی علاقوں میں غربت کی بڑی وجوہات میں زمین کی غیر مساوی تقسیم، زراعت میں جدید ٹیکنالوجی کی کمی، اور موسمیاتی تبدیلیوں کے اثرات شامل ہیں۔ سندھ کے تھرپارکر اور بلوچستان کے اندرونی علاقوں میں خوراک اور پانی کی شدید قلت غربت کو مزید بڑھا رہی ہے۔ پنجاب کے کچھ دیہی علاقے ترقی یافتہ ہیں، لیکن جنوبی پنجاب اب بھی صحت اور روزگار کی سہولتوں میں بہت پیچھے ہے۔ خیبر پختونخواہ اور قبائلی اضلاع میں جنگوں اور شورش کے اثرات نے عوام کو مزید مشکلات میں ڈال دیا ہے، جبکہ بلوچستان کے دور دراز علاقوں میں حکومتی توجہ کی کمی سب سے زیادہ ہے۔
پاکستان کے دیہی علاقوں میں صحت کے شعبے کی صورتحال بھی انتہائی تشویشناک ہے۔ ملک میں صحت پر جی ڈی پی کا صرف 1.2 فیصد خرچ کیا جاتا ہے، جو عالمی معیار سے کہیں کم ہے۔ سندھ کے دیہی علاقوں میں بچوں کی شرح اموات سب سے زیادہ ہے، جہاں ہر 1,000 بچوں میں سے 81 پانچ سال کی عمر تک پہنچنے سے پہلے ہی موت کا شکار ہو جاتے ہیں۔ بلوچستان میں صحت کے مراکز کی کمی اور ڈاکٹروں کی دستیابی کا فقدان ایک سنگین مسئلہ ہے۔ خیبر پختونخواہ میں بھی صحت کی سہولتیں ناکافی ہیں، خاص طور پر پہاڑی علاقوں میں۔
دیہی علاقوں میں خواتین کی حالت اور بھی زیادہ خراب ہے۔ تعلیم کے فقدان اور غربت کی وجہ سے خواتین اکثر صحت کی سہولتوں سے محروم رہتی ہیں۔ یونیسف کی ایک رپورٹ کے مطابق، پاکستان کی 45 فیصد حاملہ خواتین کو مناسب طبی سہولتیں میسر نہیں ہوتیں، جس کی وجہ سے زچگی کے دوران اموات کی شرح بلند ہے۔
چاروں صوبوں میں موجود مسائل کی شدت مختلف ہے لیکن غربت اور صحت کے مسائل ہر جگہ مشترک ہیں۔ پنجاب کے ترقی یافتہ علاقوں میں مواقع کی کچھ بہتری نظر آتی ہے، لیکن جنوبی پنجاب اور سندھ کے دیہی علاقے شدید غربت کا شکار ہیں۔ بلوچستان، جو پاکستان کا سب سے بڑا لیکن کم آبادی والا صوبہ ہے، ان مسائل میں سب سے زیادہ پیچھے ہے۔ خیبر پختونخواہ میں شورش کے باعث ترقیاتی کام سست روی کا شکار ہیں۔
اس صورتحال سے نمٹنے کے لیے حکومت کو فوری اور موثر اقدامات کرنے کی ضرورت ہے۔ سماجی بہبود کے نظام میں سرمایہ کاری، زراعت کی ترقی، اور صحت کے شعبے پر توجہ دیے بغیر دیہی علاقوں کی غربت اور صحت کے مسائل حل نہیں ہو سکتے۔ عوامی آگاہی اور نجی اداروں کی شمولیت سے ہی دیرپا تبدیلی ممکن ہے۔ پاکستان کے دیہی علاقوں میں صحت کی سہولیات کی عدم دستیابی ایک اہم اور سنگین مسئلہ ہے جو عوامی فلاح و بہبود اور قومی ترقی میں بڑی رکاوٹ بن چکا ہے۔ دیہی پاکستان کی اکثریت بنیادی صحت کی سہولتوں سے محروم ہے، جہاں جدید طبی آلات، ماہر ڈاکٹروں، اور ادویات کی شدید کمی موجود ہے۔
ورلڈ بینک کی رپورٹ کے مطابق پاکستان میں دیہی علاقوں کی تقریباً 60 فیصد آبادی کو معیاری صحت کی سہولتیں میسر نہیں ہیں۔ ان علاقوں میں صحت کے مراکز کی کمی، محدود وسائل، اور تربیت یافتہ طبی عملے کا فقدان عام ہے۔ مثال کے طور پر، بلوچستان کے بیشتر دیہی علاقے صحت کی بنیادی ضروریات سے بھی محروم ہیں، جہاں دور دراز کے علاقوں میں ایک ڈاکٹر کے لیے 10,000 سے زیادہ مریض ہوتے ہیں۔ سندھ کے تھرپارکر جیسے علاقے خوراک اور پانی کی قلت کے ساتھ ساتھ صحت کے مسائل کا شکار ہیں، جہاں غذائی قلت سے بچوں کی اموات کی شرح بہت زیادہ ہے۔
دیہی علاقوں میں بنیادی ڈھانچے کی کمی صحت کی سہولتوں کے فقدان کا ایک بڑا سبب ہے۔ اکثر علاقوں میں اسپتال یا ڈسپنسری تک پہنچنے کے لیے لوگوں کو میلوں سفر کرنا پڑتا ہے۔ اس کے علاوہ، بجٹ کی کمی کی وجہ سے صحت کے مراکز میں ادویات اور طبی آلات دستیاب نہیں ہوتے۔ پنجاب کے جنوبی علاقے، جہاں کچھ حد تک ترقیاتی کام ہوئے ہیں، بھی ان مسائل سے مبرا نہیں ہیں۔ خیبر پختونخواہ کے پہاڑی علاقوں میں بھی صحت کی رسائی ایک چیلنج ہے، جہاں خواتین اور بچوں کو خاص طور پر مشکلات کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔
دیہی علاقوں میں صحت کی سہولیات کی کمی کی وجہ سے سب سے زیادہ متاثر ہونے والے طبقات میں حاملہ خواتین اور نوزائیدہ بچے شامل ہیں۔ پاکستان میں زچگی کے دوران اموات کی شرح 186 فی لاکھ ہے، جو جنوبی ایشیا کے اوسط سے کہیں زیادہ ہے۔ خاص طور پر دیہی علاقوں میں، جہاں ہسپتالوں اور تربیت یافتہ دائیوں کی کمی ہے، یہ شرح مزید بلند ہو جاتی ہے۔ یونیسیف کی رپورٹ کے مطابق، پاکستان میں 45 فیصد سے زیادہ حاملہ خواتین مناسب طبی سہولیات سے محروم رہتی ہیں۔
دیہی علاقوں کے مسائل کا حل صرف حکومتی اقدامات تک محدود نہیں ہونا چاہیے بلکہ نجی شعبے کی شمولیت اور عوامی آگاہی بھی ضروری ہے۔ موبائل کلینکس اور ٹیلی میڈیسن جیسی سہولتیں دیہی علاقوں کے مسائل کے حل میں معاون ثابت ہو سکتی ہیں۔ اس کے علاوہ، صحت کے بجٹ میں اضافے اور دیہی علاقوں میں صحت کے بنیادی ڈھانچے کی تعمیر کو ترجیح دینا بھی ناگزیر ہے۔
دیہی علاقوں میں
صحت کی سہولیات کی فراہمی نہ صرف انسانی فلاح کے لیے ضروری ہے بلکہ یہ معیشت اور قومی ترقی کے لیے بھی بنیادی حیثیت رکھتی ہے۔ اگر دیہی عوام صحت مند ہوں گے تو وہ معیشت میں بھرپور کردار ادا کر سکیں گے، جس سے ملک کی مجموعی ترقی ممکن ہو سکے گی۔
پاکستان میں معاشی، تعلیمی، صحت کی سہولیات کی غیر مساوی تقسیم اور صنفی امتیاز نمایاں ہیں۔ دیہی اور شہری علاقوں کے درمیان وسائل کی غیر مساوی تقسیم نے اس مسئلے کو مزید بڑھا دیا ہے۔
معاشی سطح پر، پاکستان میں غربت کی شرح تقریباً 39 فیصد ہے، جس میں دیہی علاقوں کا حصہ زیادہ ہے۔ امیر اور غریب کے درمیان بڑھتا ہوا فاصلہ ملک میں طبقاتی تقسیم کو گہرا کر رہا ہے۔ ایک طرف بڑے شہروں میں شاندار شاپنگ مالز اور ترقیاتی منصوبے نظر آتے ہیں، جبکہ دوسری طرف دیہی علاقوں میں لوگ بنیادی ضروریات جیسے صاف پانی، تعلیم، اور صحت کی سہولتوں سے محروم ہیں۔
دیہی علاقوں میں صحت کی سہولیات ناکافی ہیں، اور اکثر عوام کو بنیادی طبی علاج کے لیے کئی کلومیٹر دور جانا پڑتا ہے۔ سندھ کے تھرپارکر اور بلوچستان کے دور دراز علاقے اس کی واضح مثال ہیں۔ شہری علاقوں میں نسبتاً بہتر صحت کی سہولتیں موجود ہیں، لیکن وہ بھی صرف ان لوگوں کے لیے ہیں جو ان کے اخراجات برداشت کر سکتے ہیں۔
صنفی امتیاز بھی پاکستان میں سماجی عدم مساوات کا ایک اہم پہلو ہے۔ خواتین کو اکثر تعلیم، روزگار، اور صحت کی سہولتوں تک مساوی رسائی حاصل نہیں ہوتی۔ دیہی علاقوں میں یہ مسئلہ مزید شدت اختیار کر جاتا ہے۔
سماجی عدم مساوات کے بڑھتے اثرات صرف انفرادی زندگیوں کو متاثر نہیں کرتے بلکہ یہ قومی ترقی کو بھی نقصان پہنچاتے ہیں۔ یہ عدم مساوات جرائم کی شرح میں اضافے، سیاسی عدم استحکام، اور سماجی تناؤ کا باعث بنتی ہے۔ اگر اس مسئلے پر قابو نہ پایا گیا تو یہ ملک کو مزید تقسیم اور پسماندگی کی طرف دھکیل سکتا ہے۔
اس مسئلے کے حل کے لیے ضروری ہے کہ حکومت وسائل کی منصفانہ
تقسیم، تعلیم اور صحت کے شعبوں میں اصلاحات، اور دیہی علاقوں کی ترقی پر توجہ دے۔ سماجی انصاف کی بنیاد پر پالیسیاں ترتیب دیے بغیر پاکستان میں پائیدار ترقی کا خواب پورا نہیں ہو سکتا۔ عوامی آگاہی اور سول سوسائٹی کی شمولیت بھی اس مسئلے کے حل میں اہم کردار ادا کر سکتی ہے۔
دیہی علاقوں میں صحت کے مسائل اور غربت کے درمیان گہرا تعلق ایک پیچیدہ مگر واضح حقیقت ہے۔ پاکستان کے دیہی علاقوں میں رہنے والے لوگوں کی اکثریت غربت کے جال میں جکڑی ہوئی ہے، جس کی وجہ سے وہ بنیادی صحت کی سہولیات سے محروم ہیں۔ اس دوہری مار کے نتیجے میں نہ صرف ان کی زندگی کے معیار میں کمی آتی ہے بلکہ یہ مسائل ایک دوسرے کو مزید پیچیدہ بناتے ہیں۔
دیہی علاقوں میں صحت کی سہولیات کا شدید فقدان ہے۔ ورلڈ بینک کی رپورٹ کے مطابق، پاکستان کی 60 فیصد آبادی دیہی علاقوں میں رہتی ہے، جہاں صحت کے بنیادی ڈھانچے کی حالت ناگفتہ بہ ہے۔ ان علاقوں میں بیشتر اسپتالوں اور کلینکس کی غیر موجودگی یا ناکافی سہولیات کی وجہ سے لوگوں کو طبی امداد کے لیے طویل فاصلے طے کرنے پڑتے ہیں۔ بلوچستان اور سندھ کے دور دراز علاقوں میں یہ مسئلہ خاص طور پر شدت اختیار کر گیا ہے، جہاں ہر 10,000 افراد کے لیے ایک ڈاکٹر بھی دستیاب نہیں۔
غربت اس صورت حال کو مزید بگاڑتی ہے۔ دیہی علاقوں میں رہنے والے خاندانوں کی اکثریت کم آمدنی یا بے روزگاری کا شکار ہے، جس کی وجہ سے وہ مہنگے علاج معالجے کے اخراجات برداشت کرنے سے قاصر رہتے ہیں۔ اکثر لوگ بیماریوں کی تشخیص یا علاج کے بغیر ہی زندگی گزارنے پر مجبور ہوتے ہیں، جس کے نتیجے میں ان کی صحت مزید خراب ہو جاتی ہے اور ان کی غربت مزید گہری ہو جاتی ہے۔
غذائی قلت اور غیر معیاری رہائش بھی صحت کے مسائل کو بڑھاتے ہیں۔ دیہی علاقوں میں لوگوں کی بڑی تعداد متوازن غذا سے محروم ہے، جس کی وجہ سے وہ مختلف بیماریوں کا شکار ہو جاتے ہیں۔ بچوں میں غذائی قلت کے باعث جسمانی اور ذہنی نشوونما متاثر ہوتی ہے۔ ایک حالیہ رپورٹ کے مطابق، پاکستان میں 40 فیصد بچے غذائی قلت کا شکار ہیں، جن میں زیادہ تعداد دیہی علاقوں کے بچوں کی ہے۔
تعلیم کی کمی بھی ایک اہم مسئلہ ہے جو غربت اور صحت کے مسائل کو بڑھاتا ہے۔ صحت کے حوالے سے آگاہی نہ ہونے کے باعث دیہی علاقوں میں بیماریوں کی روک تھام کے لیے ضروری اقدامات نہیں کیے جاتے۔ صاف پانی کی فراہمی، صفائی ستھرائی، اور حفاظتی ٹیکوں کے بارے میں لاعلمی لوگوں کی صحت کو مزید خطرے میں ڈالتی ہے۔
حکومت کی جانب سے دیہی صحت کے مسائل پر توجہ دینے کی کوششیں ناکافی ثابت ہوئی ہیں۔ دیہی صحت کے بنیادی ڈھانچے کو بہتر بنانے کے لیے مزید سرمایہ کاری اور منصوبہ بندی کی ضرورت ہے۔ اس کے علاوہ، صحت کی سہولیات تک رسائی کو آسان بنانے، اور غربت کے خاتمے
کے لیے موثر پالیسیوں کی تشکیل ناگزیر ہے۔
اگر پاکستان کے دیہی علاقوں میں غربت اور صحت کے مسائل کو حل کرنے کے لیے سنجیدہ اقدامات نہ کیے گئے، تو یہ مسائل نہ صرف ان علاقوں کی ترقی کو متاثر کریں گے بلکہ مجموعی قومی ترقی میں بھی رکاوٹ بنیں گے۔ اجتماعی کوششوں اور عوامی شعور بیدار کیے بغیر ان چیلنجز سے نمٹنا ممکن نہیں۔
تعلیم اور صحت کسی بھی معاشرے کی ترقی کی بنیاد ہیں۔ پاکستان میں، بدقسمتی سے، ان دونوں شعبوں کو وہ توجہ اور وسائل نہیں مل پاتے جو ان کے لیے ضروری ہیں۔ تعلیم اور صحت میں بہتری سے نہ صرف عوام کی زندگی کے معیار میں اضافہ ہوتا ہے بلکہ یہ ملک کی معیشت، سیاسی استحکام، اور سماجی ہم آہنگی کو بھی مضبوط کرتی ہیں۔
تعلیم ایک ایسا ذریعہ ہے جو لوگوں کو نہ صرف علم بلکہ بہتر زندگی گزارنے کے لیے ضروری ہنر اور شعور فراہم کرتی ہے۔ پاکستان میں خواندگی کی شرح 60 فیصد کے قریب ہے، جو جنوبی ایشیا کے دیگر ممالک کے مقابلے میں کم ہے۔ دیہی علاقوں میں، خاص طور پر خواتین اور لڑکیوں کی تعلیم تک رسائی محدود ہے۔ اسکولوں کی کمی، اساتذہ کی غیر موجودگی، اور غربت جیسے مسائل بچوں کو تعلیم حاصل کرنے سے روکتے ہیں۔
اسی طرح، صحت ایک ایسا شعبہ ہے جو معاشرے کی جسمانی اور ذہنی بہبود کو یقینی بناتا ہے۔ پاکستان میں صحت کی سہولیات کی حالت ناقابل اطمینان ہے۔ دیہی علاقوں میں بنیادی صحت کے مراکز کی کمی ہے، اور موجودہ اسپتال اور کلینکس بھی اکثر ضروری آلات اور ادویات سے محروم ہوتے ہیں۔ عالمی ادارہ صحت کی ایک رپورٹ کے مطابق، پاکستان میں ہر 1,000 افراد کے لیے صرف 0.6 ڈاکٹر دستیاب ہیں، جو کہ ایک خطرناک حد تک کم شرح ہے۔ اس کے نتیجے میں، لوگوں کو بیماریوں کا سامنا کرنا پڑتا ہے جو کہ نہ صرف ان کی زندگیوں کو متاثر کرتی ہیں بلکہ ملک کی اقتصادی پیداوار کو بھی نقصان پہنچاتی ہیں۔
تعلیم اور صحت کے درمیان گہرا تعلق ہے۔ ان دونوں شعبوں کی ترقی ایک دوسرے کو تقویت دیتی ہے، اور جب ان میں سے ایک متاثر ہوتا ہے تو دوسرا بھی اس کے اثرات سے محفوظ نہیں رہتا۔
پاکستان کی حکومت کو چاہیے کہ وہ تعلیم اور صحت کے شعبوں میں سرمایہ کاری کو ترجیح دے۔ اسکولوں کی تعداد بڑھانا، اساتذہ کی تربیت، اور صحت کے بنیادی ڈھانچے کو بہتر بنانا وقت کی اہم ضرورت ہے۔ اس کے علاوہ،
عوامی شعور کو بیدار کرنا اور لوگوں کو ان کے حقوق کے بارے میں آگاہ کرنا بھی ضروری ہے تاکہ وہ ان سہولیات سے زیادہ بہتر طریقے سے مستفید ہو سکیں۔
تعلیم اور صحت کی ترقی کے بغیر سماجی ترقی کا خواب پورا نہیں ہو سکتا۔ یہ دونوں عوامل نہ صرف فرد کی زندگی کو بہتر بناتے ہیں بلکہ پورے معاشرے کو ترقی کی راہ پر گامزن کرتے ہیں۔ پاکستان کو اپنے مستقبل کی بنیاد مضبوط کرنے کے لیے ان شعبوں کو اولین ترجیح دینی ہوگی۔
پاکستان میں غربت ایک اہم اور مسلسل بڑھنے والا مسئلہ ہے، جس کے اثرات نہ صرف اقتصادی بلکہ سماجی ڈھانچے پر بھی گہرے ہیں۔ ملک کی آبادی کا ایک بڑا حصہ بنیادی ضروریات سے محروم ہے، اور دیہی علاقوں میں یہ صورتحال زیادہ شدید ہے۔ غربت کے خاتمے کے لیے مساوی حکمت عملی اختیار کرنے کی ضرورت اس لیے بڑھ جاتی ہے کہ تمام طبقات کو یکساں مواقع فراہم کیے بغیر ترقی ممکن نہیں۔
پاکستان میں غربت کی شرح، جو 2018 میں تقریباً 24.3 فیصد تھی، 2023 میں بڑھ کر 39.4 فیصد تک پہنچ چکی ہے۔ اس اضافے کی بڑی وجوہات میں مہنگائی، بے روزگاری، اور وسائل کی غیر منصفانہ تقسیم شامل ہیں۔ دیہی علاقوں میں صورتحال اور بھی خراب ہے، جہاں زیادہ تر آبادی زراعت پر انحصار کرتی ہے، لیکن پانی، بیج، اور دیگر وسائل کی کمی نے کسانوں کی پیداوار کو متاثر کیا ہے۔ بلوچستان، سندھ، اور جنوبی پنجاب جیسے علاقوں میں غربت کی شرح نسبتاً زیادہ ہے، جبکہ خیبر پختونخوا میں صورتحال کچھ بہتر ہے لیکن ابھی بھی چیلنجز موجود ہیں۔
مساوی حکمت عملی کے بغیر غربت کا خاتمہ ممکن نہیں۔ حکومت کی موجودہ پالیسیاں اکثر شہری علاقوں کو ترجیح دیتی ہیں، جس سے دیہی عوام نظرانداز ہو جاتے ہیں۔ اس کے نتیجے میں، دیہی علاقوں میں تعلیمی اداروں، صحت کے مراکز، اور روزگار کے مواقع کی کمی نے غربت کے دائرے کو مزید وسیع کر دیا ہے۔ ان مسائل کو حل کرنے کے لیے ضروری ہے کہ پالیسیاں اس طرح ترتیب دی جائیں جو ہر علاقے کی مخصوص ضروریات کو مدنظر رکھیں۔
غربت کے خاتمے کے لیے مساوی حکمت عملی کے تحت وسائل کی منصفانہ تقسیم، سماجی بہبود کے پروگراموں میں سرمایہ کاری، اور عوامی شعور کی بیداری ضروری ہے۔ مثلاً، حکومت کو دیہی علاقوں میں چھوٹے اور درمیانے درجے کے کاروباروں کو فروغ دینا چاہیے تاکہ مقامی معیشت کو مضبوط بنایا جا سکے۔
تعلیم اور صحت کے شعبوں میں سرمایہ کاری غربت کے خاتمے کی کلید ہے۔ جبکہ صحت مند معاشرہ زیادہ مؤثر انداز میں ترقی کر سکتا ہے۔ اس کے ساتھ ساتھ، خواتین کو معیشت میں شامل کرنے سے بھی غربت کے خاتمے میں مدد مل سکتی ہے۔
پاکستان کو
غربت کے خاتمے کے لیے مساوی حکمت عملی کو اپنانا ہوگا، جو تمام طبقات اور علاقوں کے لیے یکساں مواقع فراہم کرے۔ یہ صرف اقتصادی ترقی کے لیے ضروری نہیں بلکہ ایک مضبوط اور متحد معاشرے کی تشکیل کے لیے بھی لازم ہے۔ انصاف اور مساوات پر مبنی پالیسیاں نہ صرف غربت کو ختم کرنے میں مددگار ہوں گی بلکہ
ملک کے ہر شہری کو ترقی کی دوڑ میں شامل کرنے کے لیے ایک مضبوط بنیاد فراہم کریں گی