Skip to content

بڑے ڈیم کی بجلی، کس حد تک صاف اور سستی؟؟

شیئر

شیئر

تحریر شبینہ فراز

بڑے ڈیموں کے حوالے سے یہ تاثر عام ہے کہ ان ڈیموں سے حاصل ہونے والی بجلی سستی اور صاف(کاربن فری ) ہوتی ہے۔لیکن یہ بات کسی طور درست نہیں ہے۔یہ بجلی بڑے ڈیموں کے کاربن فٹ پرنٹ کے ساتھ نہ صرف ماحول پر منفی اثرات مرتب کرتی ہے بلکہ ان ڈیموں کی تعمیر کے لیے عموما عالمی مالیاتی اداروں(IFIs)سے جو قرضے حاصل کیے جاتے ہیں ، ان کی سود در سود ادائیگی کے بعد یہ بجلی انتہائی مہنگی ہو جاتی ہے۔
مثلا 2007 میں جب نیلم جہلم پن بجلی منصوبے کی فزیبیلیٹی تیار کی گئی تھی تو اس کا تخمینہ 945 ملین ڈالرز لگایا گیا تھاجبکہ دس سال کی طویل مدت کے بعد جب یہ منصوبہ تیار ہوا تو اس کی لاگت 32.329 بلین ڈالر ہوچکی تھی۔ اس لاگت میں سود، تعمیر، ماحول پر مرتب بدترین اثرات اور اس علاقے میں ہونے والا سیسمک رسک بھی شامل ہے۔
معروف ہائیڈرو لوجسٹ ڈاکٹر حسن عباس کی ایک تحقیقی رپورٹ
(True cost of Hydero power from Tarbela & Neelum-Jhelum)کے مطابق، اگر نیلم جہلم پن بجلی منصوبہ اپنے ڈیزائن کے مطابق30سال تک چلے، تو اس سے حاصل ہونے والا ایک یونٹ قوم کو 50.55 روپے کا پڑے گا۔ یاد رہے کہ پچھلے سال سے یہ منصوبہ فنی خرابی کی وجہ سے بند پڑا ہے جس کی وجہ سے اس منصوبے کی قیمت میں مزید اضافہ ہو رہا ہے۔
اسی طرح اگر تربیلا ڈیم کی بات کریں جو1976 میں تعمیر ہوا ،پاکستان کے بڑے ڈیم منصوبوں میں سے ایک تھا، اور جس کے لیے بنیادی قرضہ ورلڈ بینک نے فراہم کیا تھا، اس کا تعمیری تخمینہ 351.911 بلین ڈالرز ہے، اس میں بنیادی تعمیری اخراجات کے ساتھ اس ڈیم کا کاربن فٹ پرنٹ اور ڈیم کی وجہ سے اس زرخیز مٹی کی رکاوٹ کی قیمت بھی شامل ہے جو دریا کا پانی اپنے ساتھ پہاڑوں سے بہا لاتا تھا اور یہ مٹی ڈیلٹا کے علاقے کی زمین میں اضافے اوراسے زر خیز بناتی تھی۔ اگرچہ کہ ابتدائی طور پر ان نقصانات کا تخمینہ نہیں لگایا جاتا ہے۔لیکن یہ حقیقت ہے کہ اس بھاری رقم کے قرضے کے بعد تربیلا ڈیم سے حاصل ہونے والی بجلی 53.61 روپے فی یونٹ پڑتی ہے جو کسی طور سستی نہیں کہلائی جاسکتی۔
ڈاکٹر عباس کی رپورٹ کے مطابق تربیلا ڈیم میں ذخیرہ کیا جانے والا پانی گرمیوں میں پنجاب اور سندھ میں دو ملین ایکڑ فٹ پانی کم کردیتا ہے جبکہ سردیوں میں سندھ اور پنجاب کو دو ملین ایکڑ فٹ اضافی پانی مہیا کرتا ہے۔ چونکہ گرمیوں کی فصلیں زیادہ مہنگی ہوتی ہیں، لہذا گرمیوں کا نقصان سردیوں کے فائدے سے بڑھ جاتا ہے اور اس پانی کے ذخیرے سے مجموعی طور پہ ہمیں نقصان ہوتا ہے۔ یہاں یہ بات بھی یار رکھنا ہو گی کہ مجموعی طور پہ ہمارا نہری نظام 104 ملین ایکڑ فٹ سالانہ پر چلتا ہے جس میں تربیلا کا حصہ صرف 2 ملین ایکڑ فٹ ہے۔ تربیلا میں پانی کے اس ذخیرے کو کسی صورت بھی ہم آب پاشی میں ”ریڑھ کی ہڈی“ نہیں گردان سکتے۔
بڑے ڈیموں کے منفی اثرات، جن پر بات نہیں ہوتی !
جبریہ بے دخلی !
تربیلا ڈیم جس کی تعمیر 1976 میں مکمل ہوئی اور اس کی تعمیر کے نتیجے میں 96 ہزار سے زائد افراد اپنے گھروں سے بے دخل اور 135 گاو ¿ں دریا برد ہو گئے۔ اس منصوبے سے متاثرہ افراد کی اکثریت کو تین ٹاون شپ اسکیموں اور دو بستیوں میں منتقل کیا گیا لیکن یہ بھی حقیقت ہے کہ ساٹھ سال گزر جانے کے بعد ان میں سے بے شمار لوگوں کو متبادل زمین نہیں مل سکی۔ اس حوالے سے عدالتی فیصلہ موجود ہے ، 60 سال بعد جنوری 2022 میں سپریم کورٹ نے تربیلا ڈیم کی تعمیر سے متاثرہ افراد کو متبادل زمین اور معاوضے کی ادائیگی کے حوالے سے پشاور ہائی کورٹ کے فیصلے کو برقرار رکھتے ہوئے واٹر اینڈ پاور ڈویلپمنٹ اتھارٹی (واپڈا) کو متاثرین کو معاوضہ دینے ہدایت کی۔جسٹس بندیال نے اپنے ریمارکس میںیہ بھی کہاتھا کہ پالیسی کے مطابق تربیلا ڈیم کے بہت سے متاثرین کو متبادل زمین نہیں ملی۔واپڈا اس حوالے سے اقدامات کرے۔
اگرچہ کاغذات پر یہ عمل بہت سادہ نظر آتا ہے کہ لوگوں کو ان کے گھروں سے نکالو، ایک نئے مقام پر منتقل کردو۔ لیکن یہ عمل اتنا آسان بھی نہیں ہے۔ اس حساس اور پیچیدہ عمل میں صرف انجینئرنگ اور رہائشی پہلووں کے علاوہ اس جبری بے دخلی کے انسانی جذبات اور دماغ پر اثرات، ثقافت اور رسم و رواج کا خاتمہ سبھی کچھ شامل ہوتا ہے۔
اس کے علاوہ ریاستی اداروں میں اتنی صلاحیت نہیں ہے کہ وہ تمام متاثرین کو اکوموڈیٹ کر سکیں لہذا تربیلا ڈیم کے متاثرین کی تیسری نسل آج بھی متبادل زمین اور ہرجانے کے لیے عدالتوں اور سرکاری دفاتر میں دھکے کھا رہی ہے۔
عمر خان باچا جوتر بیلا متاثرین میں سے ایک ہیں ان کا کہنا ہے کہ ’ساٹھ سال بعد اب کیا بتائیں، اب تو کچھ بھی نہیں بچا۔بس سمجھ لیں کہ لینڈ اور سیاسی مافیا راج کر رہی ہے جبکہ غریب دھکے کھا رہے ہیں۔ ان متاثرین کے بہت سے خاندان ملک سے باہر چلے گئے اور بہت سے کراچی جاکر آباد ہو گئے ہیں، جو زمینیں دی گئی تھیں وہ غیر آباد اور بنجر تھیں، لہذا زیادہ تر متاثرین نے اونے پونے بیچ دیں کہ وہ کسی کام کی نہیں تھیں۔ ‘
ماہر ماحولیات نصیر میمن کا کہنا ہے کہ جو لوگ براہ راس ڈیم سائٹ سے اٹھائے گئے ، انہیں تو ڈیم متاثرین کے طور پر کسی حد تک کمپنسیٹ کیا گیا مگر ان ڈیموں کے وجہ سے ڈیلٹا پر جو اثرات مرتب ہوئے ، لوگوں کا روزگار ختم ہوا ، انہیں بھی جبرا ہجرت کرنی پڑی مگر انہیں کوئی ڈیم متاثرین کے طور پر نہیں مانتا ، نہ ہی کسی کمپنسیشن میں ان کا نام ہے۔
نصیر کا کہنا ہے کہ ری سیٹلمنٹ کی پالیسی موجود ہے مگر اس پر عمل درآمد ایک بہت بڑا سوال ہے۔
ماحول پر اثرات !
کاربن فٹ پرنٹ!
ایک تحقیق ( Scherer and Pfister ,2016) میں 1,473 دنیاکے بڑے ڈیموں جن میں تربیلا ڈیم بھی شامل تھا کے جائزے کے مطابق 1MWH بجلی کی پروڈکشن میں 265.68 کلوگرام کاربن ڈائی آکسائیڈپیدا ہوتی ہے۔۔اور اگر تربیلا سے Terawatt hour(TWH) 534 بجلی پیدا کی جائے تو یہ 142 ملین ٹن کاربن ڈائی آکسائیڈ ماحول میں شامل کرتی ہے۔
سیلاب کی روک تھام!
کلائمیٹ چینج نے بارشوں کا پیٹرن بھی بدل دیا ہے۔اب بہت کم وقت میں تیز ترین بارشیں معمول بن چکی ہیں لہذا یہ بارشیں اور سیلاب ان ڈیموں کے اسٹرکچر کے لیے خطرہ بن جاتے ہیں۔ ڈاکٹر حسن عباس کے مطابق سنگین حقیقت یہ ہے کہ بعض دفعہ یہ ڈیم ہی سیلاب کا باعث بن جاتے ہیں۔ جب پانی ڈیم کے انتہائی سطح سے اوپر ہوجاتا ہے توڈیم کو بچانے کے لیے ڈیم کا گیٹ کھول دیا جاتا ہے۔ ہماری واٹر پالیسی کی شق نمبر 20.1.4 کے مطابق ہر صورت میں اپنے ہائڈرولک اسٹرکچر کو بچانا ہوتا ہے۔ لیکن پاکستان کے آئین کا آرٹیکل 9 کہتا ہے کہ لوگوں کی جان اور مال کو بچانا ہے۔ لیکن حکومت کی ترجیح اسٹرکچر کو بچانا ہوتی ہے ۔
حسن عباس کے مطابق” 1992 کی بارشوں میں جب منگلا ڈیم ستمبر تک اپنی انتہا ئی سطح تک بھرا جاچکا تھا تو دریاﺅں میں مزید پانی آگیا اور حکومت نے ڈیم بچانے کے لیے اس کا گیٹ کھول دیا اور جہلم شہر کو ڈبودیا جس میں 1000 لوگ جان سے ہاتھ دھو بیٹھے۔1994 میں شائع ہونے والی واپڈا کی رپورٹ، جو 1992 سیلاب سے متعلق تھی میں واضح طور پر لکھا ہے کہ منگلا ڈیم میں فلڈ کنٹرول کے حوالے سے کوئی پرووڑن موجود نہیں ہے۔ایسا ہی ایک سانحہ بلوچستان میں شادی کور ڈیم ٹوٹنے کا ہے۔ 2005 میں تیز بارشوں سے پانی کی مقدار بڑھ گئی جسے ڈیم کی دیواریں برداشت نہ کرسکیں اور ٹوٹ گئیں اور یوں قریبی گا?ں کے 250 ماہی گیر سوتے سوتے سمندر برد ہوگئے۔آج کسی کو یہ سانحہ یاد بھی نہیں ہے۔
ڈیموں کے جو فوائد بتائے جاتے ہیں ان میں اس بات کی بہت تکرار ہوتی ہے کہ بڑے ڈیم سیلاب کے پانی کو ذخیرہ کرکے سیلاب کو روک لیتے ہیں لیکن کوئی بھی ڈیم بیک وقت آبی ذخیرہ گاہ اور سیلاب کو روکنے کے کام نہیں آسکتا۔مون سون کے موسم میں جیسے ہی بارشوں کا پانی دریا میں آتا ہے اسے ڈیم میں ذخیرہ کرلیا جاتا ہے اور اس کے لیے اگلی بارش کا انتظار نہیں کیا جاتا یعنی کسی ممکنہ سیلاب کے امکان پر ڈیم کو خالی نہیں رکھا جاسکتا۔ لہذا یہ بات غلط ثابت ہوتی ہے کہ ڈیم سیلاب کنٹرول کرسکتے ہیں۔
سیسمک رسک!
بڑے ڈیم دریائے سندھ کے بالائی علاقے یعنی پہاڑوں میں تعمیر کے جاتے ہیں،یہاں تینوں عظیم پہاڑی سلسلوں کی ٹیکٹونک پلیٹس ملتی ہیں یعنی زلزلے کا خطرہ موجود ہے، جس کی ماضی قریب میں مثالیں عطا آباد لینڈ سلائیڈ 2010 اور 2005 کے زلزلے کی شکل میں موجود ہیں۔
پہاڑوں میں قائم ڈیم یا جھیلیں کسی بھی وقت لینڈ سلائیڈ کے سبب کسی بڑے سونامی کا سبب بن سکتے ہیں۔ ان ڈیموں کے لیے تعمیر کی جانے والی جھیلوں میں عطاءآباد کی طرز کی ایک بھی لینڈ سلائیڈ ناقابل یقین تباہی پھیلانے کے لیے کافی ہوگی۔ ڈیموں کی تعمیر کی رقم میں اس رسک کو شامل نہیں کیا جاتا۔
بائیوڈائیورسٹی پر منفی اثرات !
ڈیموں کی تعمیر سے دریاﺅں میں پانی کی روانی متاثر ہوتی ہے اور وہ زخیزمعدنیات جو دریا پہاڑوں سے اپنی مٹی کے ساتھ بہا لاتا ہے ، ڈیموں کی تعمیر کے باعث ان میں رکاوٹ پیدا ہوجاتی ہے ، یہ زرخیزی دریائی اور بعد ازاں سمندری حیات کے لیے ضروری ہوتی ہے مثلا ڈبلیو ڈبلیو ایف کی ایک رپورٹ کے مطابق پلامچھلی (Hilsa shad) جو اریبین سی کی ایک خاص نوع تھی جو مون سون کے سیزن میں سمندر سے انڈس ڈیلٹا میں آجاتی تھی اورانڈس ڈیلٹا میں شکار کے جانے والی مچھلی کا70% پلا ہوتی تھی جبکہ اب بمشکل پندرہ فیصد ہوتی ہے۔صرف پلا ہی نہیں ایسی بے شمار مثالیں موجود ہیں مثلا انڈس بلائنڈ ڈولفن کا مسکن پورا دریائے سندھ ہوا کرتا تھا مگر ڈیموںکی تعمیر کے بعد اب یہ صرف گدو اور تونسہ کے درمیان محدود ہوکر رہ گئی ہے۔ بڑے ڈیموں سے ہونے والے نقصانات میں بائیو ڈائیورسٹی کے نقصان کو بھی شامل کیا جانا چاہیے جو کہ نہیں کیا جاتا۔
ڈیلٹا کا نقصان !
دریا کے بالائی علاقوں میں ڈیموں کی تعمیر کے بعد ڈیلٹا تک پہنچنے والے میٹھے پانی میں کمی واقع ہوئی بلکہ دریائی پانی کے ساتھ آنے والی زرخیز مٹی بھی کم ہوتی چلی گئی۔ دریائی پانی کے ساتھ یہ مٹی بچھ کر نئی زمین بناتی ہے،برطانوی گزٹ کے مطابق 1873ءتک دریا کے پانی کے ساتھ آنے والی مٹی نے تقریباً 97 مربع میل (97 square miles)ڈیلٹا کی نئی زمین بنائی تھی۔
لیکن دریا کے بالائی علاقوں پر تعمیر ہوتے بڑے اسٹرکچر ز کے باعث پانی کم سے کم ہوتا چلاگیا اور سمندر کا پانی ڈیلٹا کی زرخیززمین کو نگل گیا۔ حسن عباس کی تحقیق کے مطابق ڈیلٹا کی ان زمینوں پر چاول اور کیلے کی ہائی ویلیو کراپ ہوتی تھیں۔ اگر ایک ایکڑ کا ایک کروڑ بھی لگائیں تو ہم اندازہ لگا سکتے یں کہ ڈیلٹا کی تباہی سے ہمارا کیا نقصان ہوا ہے۔فصلوں کے علاوہ کیٹی بندر کی بندرگاہ اورشہربھی اجڑگیا،شہر میں رائس ملز بھی تھیں ، لوگوں کی مائیگریشن ، سڑکوں اورگھروںکی قیمت، یہ سب ڈیموں کی تعمیر کے منفی اثرات ہیں۔
انڈس کنسورشیم کے سی ای او حسین جروار کے مطابق عالمی مالیاتی ادارے خاص طور ورلڈ بینک ڈیموں کی تعمیر کے سلسلے میں کافی فنی اور مالی امداد فراہم کر رہا ہے۔ اس وقت بھی عالمی بینک ، داسو ڈیم اسٹیج ون پراجیکٹ، دوسری ایڈیشنل فنانسگ داسو پرواجیکٹ، تربیلا ہائیڈرو پاور، اورخیبر پختون خواہ ہائیڈرو پاور منصوبوں کو سپورٹ کر رہا ہے۔ اسی فائنانس کی وجہ سے مستقبل میں ہائیڈرو پاور کا بجلی میں شئیر40 سے54 فیصد ہو جائے گا لیکن عالمی بینک نے اس حوالے سے انڈس ڈیلٹا میں ہونے والے ماحولیاتی اور سماجی تباہی کے لیے کمیونٹی سے کوئی مشاورت نہیں کی ، اور یہ عمل عالمی بینک کے ماحولیاتی اور سماجی سیف گارڈس کو خاطر میں نہیں لانا تصور ہوگا۔ عالمی بینک نے پاکستان افورڈ ایبل اور کلین انرجی پروگرام کے انیکس4میں یہ واضح طور پر لکھا ہے کہ مزید ہائیڈرو منصوبوں کی وجہ سے ایکو سسٹم متاثر ہو سکتا ہے۔ عالمی بینک کے ہائیڈرو فنانسنگ، اصل میں ونڈ اور سولر انرجی کی حقیقی تر قی میں بھی رکاوٹ ہے اور پاکستان کی این ڈی سیز (NDCs)کے ٹارگیٹ کو حاصل کرنے میں رکاوٹ بن رہی ہے جو کہ پیرس معاہدے سے بھی مماثل نہیں ہے۔
قدرتی ذرائع !
دریا پر بڑے ڈیموں یا بڑے اسٹرکچرجن کی تعمیر کے لیے عالمی اداروں سے بھاری قرضے لیے جاتے ہیں جو سود در سود کی صورت ملکی معیشت پر بدترین بوجھ ثابت ہوتے ہیں۔ دوسری جانب یہ بڑے اسٹرکچر پورے دریائی ماحولیاتی نظام کو تباہ کردیے ہیں جو خود اپنے آپ میں ایک بھاری نقصان ہے۔ اکیس ویں صدی کی تیسری دہائی چل رہی ہے اور یہ ڈیم انیس ویں صدی کی ٹیکنالوجی ہے ، آج ہمارے پاس ان ڈیموں کے متبادل سولر اور ونڈ کی صورت میں بہترین ، آسان، کم قیمت اور نیچر بیسڈ سلوشن موجود ہیں جن سے فائدہ اٹھا کر قرضوں سے نجات اور دریا کے ماحولیاتی نظام کو بھی بہتر بنا سکتے ہیں۔ دریا کا یہ بہتا پانی انڈس ڈیلٹا کے لیے بھی نئی زندگی ثابت ہوسکتا ہے۔

بشکریہ شبینہ فراز

اپنی رائے دیں

متعلقہ پوسٹس

دوسری زبان میں ترجمہ کریں