Skip to content

سیاسی کارکن زندگی سے نہ کھیلیں

شیئر

شیئر

عمرخان جوزوی
سیاسی کارکن مسلم لیگ ن کے ہوں،تحریک انصاف کے یاپیپلزپارٹی،جے یوآئی،اے این پی،ایم کیوایم،جماعت اسلامی یاکسی اورپارٹی کے انہیں سیاست کی بھینٹ چڑھ کربے موت نہیں مرناچاہئیے۔یہ کارکن اپنی پارٹیوں اوربعض لیڈروں کے لئے شائدکہ کیڑے مکوڑوں سے بڑھ کرنہ ہوں لیکن یہ ایک پورے گاؤں،خاندان،گھرانے،ماں باپ اوربیوی بچوں کے لئے لیڈراوروزیراعظم سے بھی بڑھ کرہوتے ہیں۔سیاسی لیڈروں اورسیاستدانوں کی طرح یہ بھی اپنے ہزاروں رشتہ داروں اورچاہنے والوں کے بادشاہ ہوتے ہیں۔ایک کارکن جب سیاست کی بھینٹ چڑھ کربے موت مرتاہے توپھردرجنوں نہیں سینکڑوں اورہزاروں لوگ متاثرہوتے ہیں۔متاثرہ خاندان اورگھرانوں کی تباہی اورخواری تولازمی ہے کیونکہ جس دورمیں ایک بندے کوکوئی نہیں سنبھالتااس دورمیں پھرپانچ اوردس لوگوں کومفت میں کون سنبھالے گا۔؟سیاسی جلسوں،جلوس،احتجاج،مظاہروں،ہڑتال اوردھرنوں میں جانے والوں نے کیاکبھی سوچاہے کہ اللہ نہ کرے اگریہ کسی جلسے،جلوس،مظاہرے اوردھرنے کاشکاراورلقمہ بن گئے توپھرپیچھے ان کے ماں باپ،بہن بھائیوں اوربیوی بچوں پرکیاگزرے گی یاان کاکیاہوگااورکیابنے گا۔؟وہ لوگ جوان کی زندگی میں انہیں ایک وقت کاکھاناتک نہیں دے سکتے کیاوہ ان کے مرنے کے بعدان کے ماں باپ،بیوی بچوں اورپورے خاندان وگھرانے کی کفالت کرلیں گے۔؟آنکھوں کے سامنے بڑے ہونے والے کٹے کے دانت نہیں گنے جاتے۔دانت ان کے گنے اوردیکھے جاتے ہیں جن کے بارے میں کوئی علم اورپتہ نہ ہو۔یہ سیاسی پارٹیاں اورسیاسی لوگ توسب کے آزمائے ہوئے ہیں،ان کے دانت توہرکسی معلوم ہے۔یہ توہرکس وناکس کوپتہ ہے کہ یہ لیڈروسیاستدان کتنے باہروکتنے پانی میں ہیں۔جوپارٹیاں اورلوگ اپنے ایک کارکن کونہیں سنبھال سکتے وہ پارٹی اورلیڈرپرقربان ہونے والے کارکن کے پورے گھرانے اورخاندان کوکیاخاک سنبھالیں گے۔؟تحریک انصاف کے اسلام آباد احتجاج سے بڑے بڑوں کی رات کی تاریکی میں پتلی گلی سے نکلنے کاافسوس نہیں۔ افسوس ہے توان غریب کارکنوں کی بے موت مرنے کاجواپنے پیچھے ماں باپ اوربیوی بچوں سمیت کئی سوگوارچھوڑکربہت دورچلے گئے ہیں۔اسلام آباداحتجاج میں جوغریب کارکن زندگی کی بازی ہارچکے ہیں ان کے بوڑھے ماں باپ اوربیوی بچوں پراب کیاگزرے گی اوران کااب کیابنے گا۔؟اسلام آباداحتجاج میں ایبٹ آبادکے شہیدہونے والے ایک کارکن کے بارے میں بتایاجارہاہے کہ اس نے سوگواروں میں سات بچے چھوڑے ہیں۔جانے والاتوچلاگیالیکن ان سات بچوں کے چہروں پراب یتیمی کے جوآثاردکھائی دیں گے وہ برسوں بعدبھی زائل نہیں ہوسکیں گے۔کاش۔کہ ان بدقسمت بچوں کاوہ باپ پی ٹی آئی کے احتجاج میں جانے سے پہلے ان بچوں کے بارے میں ایک بارہی سوچتا۔پی ٹی آئی اوردیگرسیاسی پارٹیوں کے جلسے،جلوس،مارچ،ہڑتال،مظاہرے اوردھرنے تواب بھی ہوں گے لیکن اسلام آباداحتجاج میں دنیاسے جانے والے اب کبھی واپس نہیں آئیں گے۔جانے والوں کے جانے سے سیاست پرکوئی فرق پڑاہے اورنہ لیڈروں پرکوئی اثر۔سیاست ومنافقت کاکھیل بھی پہلے کی طرح جاری رہے گااورسیاسیوں کے ڈرامے بھی اسی طرح چلتے رہیں گے پرافسوس نہ توجانے والے دنیامیں موجودہوں گے اورنہ ان کے گھروں میں وہ پہلے والی خوشیاں ہوں گی۔جانے والوں کے گھروں میں اب ہردن سوگ کاعالم اورغم کاسماں ہوگا۔شہداء کے بچے اورعزیزواقارب اپنے پیاروں کوکبھی بھول نہیں پائیں گے۔اب جب بھی کوئی جلسہ،جلوس،ہڑتال،مظاہرہ اورکوئی دھرناہوگاتوان جانے والوں کاغم پھرسے تازہ ہوگا۔ہرجلسے اورجلوس پرماؤں کواپنے بچھڑنے والے بچے اوریتیم بچوں کواپنے باپ شدت سے یادآنے لگیں گے۔اسی لئے کہاجاتاہے کہ دوسروں کے لئے اپنی زندگی داؤپرنہیں لگانی چاہئیے۔ ہمارے بزرگ اکثرکہاکرتے تھے کہ ہراس کام واقدام سے اجتناب ضروری ہے جس سے فائدے کے بجائے نقصان ہو۔وہ کہتے تھے کہ جس شخص یاجگہ سے تکلیف،پریشانی اورنقصان یقینی ہواس شخص اورجگہ سے جتنابھی ممکن ہودوررہو۔سیاسی لوگوں اورپارٹیوں کے بارے میں تواپنایہ خیال ہے کہ سیاست یہ مداریوں کاکھیل اورہاتھیوں کی لڑائی ہے۔اس میں پڑنے کاکوئی فائدہ نہیں پھرغریب۔؟غریب کاتوویسے بھی ووٹ دینے سے زیادہ سیاست کے ساتھ کوئی تعلق نہیں۔ماناکہ لیڈراورپارٹی وابستگی ہرانسان کی ہوتی ہے اوریہ ہونی بھی چاہئیے۔ہم یہ نہیں کہتے کہ کسی کاکوئی لیڈریاکسی پارٹی کے ساتھ کوئی وابستگی نہ ہو پرلیڈریاپارٹی کی محبت میں کسی کوبھی اس قدرآگے نہیں جاناچاہئیے کہ جہاں پھرزندگی سے ہاتھ دھونااورپیچھے بہت سے پیاروں کورونا،دھونااورچیخناوچلاناپڑے۔لیڈرسے محبت اورپارٹی سے لگاؤاپنی جگہ لیکن جان سے پیاری اورزندگی سے آگے یابڑھ کرتوکوئی شئے نہیں۔جولوگ کسی لیڈریاپارٹی کے لئے جان ہتھیلی پررکھ کراحتجاج،جلسے،جلوس اوردھرنوں میں شرکت کرکے پھرپاگل پن پراترآتے ہیں۔ایسے لوگوں کوپاگل بننے سے پہلے ایک صرف ایک بارگھرمیں موجوداپنے بوڑھے ماں باپ،بیوی اورمعصوم بچوں کی طرف بھی دیکھناچاہئیے کہ کسی لیڈراورپارٹی پرجان قربان کرنے کے بعدپیچھے رہ جانے والے ان معصوم بچوں اوربزرگ ماں باپ کاکیابنے گا۔؟ لیڈراورپارٹی چاہے کتنی ہی اچھی کیوں نہ ہولیکن ماں باپ اوربچوں کاجتناخیال ایک بیٹااورباپ رکھ سکتاہے اتناکوئی لیڈراورپارٹی کیا۔؟کوئی بھی دوسراشخص نہیں رکھ سکتا۔اس لئے سیاسی کارکنوں کولیڈروں اورپارٹیوں سے محبت کرتے ہوئے اپنے گھروالوں اوربچوں کوبھی یادرکھناچاہئے۔یہ لیڈراورسیاستدان سیاست سیاست کھیلتے رہیں گے،جلسے،جلوس اوردھرنے بھی ان کے اسی طرح ہوتے رہیں گے لیکن جان ایک بارملتی ہے یہ کوئی روزروزکاکھیل نہیں۔جان ہے توجہان ہے نہیں توپھرکچھ بھی نہیں۔سیاسی کارکن اپنے لیڈروں اورپارٹیوں کی طرح سیاست سیاست ضرورکھیلیں لیکن خدارااپنی جانوں سے نہ کھیلیں۔جولوگ اپنی جانوں سے کھیلتے ہیں ان کے پیارے پھرعمربھریہ غم بھلانہیں پاتے

اپنی رائے دیں

متعلقہ پوسٹس

دوسری زبان میں ترجمہ کریں