ہر سال 9 دسمبر کو بدعنوانی کے خلاف بین الاقوامی دن منایا جاتا ہے، جو بدعنوانی کے خلاف عالمی سطح پر ایک مؤثر کارروائی کی ضرورت کو اجاگر کرتا ہے۔ اقوام متحدہ نے 2003 میں اس دن کا آغاز کیا، جس کا مقصد بدعنوانی کے حکومتی نظام، ترقی اور سماجی انصاف پر منفی اثرات کے بارے میں آگاہی پیدا کرنا ہے۔ پاکستان کے تناظر میں یہ دن خاص اہمیت رکھتا ہے کیونکہ بدعنوانی ملک کی پائیدار ترقی، شفاف حکمرانی، اور عوام کے اداروں پر اعتماد کے لیے ایک اہم رکاوٹ بنی ہوئی ہے۔
2023کا کرپشن پرسیپشن انڈیکس، جو جنوری 2024 میں شائع ہوا، 180 ممالک کو "100 (بہت صاف) سے 0 (انتہائی بدعنوان)” کے اسکیل پر درجہ بندی کرتا ہے، جو 1 مئی 2022 سے 30 اپریل 2023 تک کی صورتحال پر مبنی ہے۔ ڈنمارک، فن لینڈ، نیوزی لینڈ، ناروے، سنگاپور اور سویڈن دنیا کے سب سے کم بدعنوان ممالک کے طور پر سمجھے جاتے ہیں اور بین الاقوامی مالیاتی شفافیت میں مسلسل بلند مقام پر ہیں، جبکہ سب سے زیادہ بدعنوان ممالک میں شام، جنوبی سوڈان اور وینیزویلا (13 پوائنٹس) کے ساتھ ساتھ صومالیہ (11 پوائنٹس) شامل ہیں۔
پاکستان میں بدعنوانی: موجودہ صورتحال
پاکستان طویل عرصے سے بدعنوانی جیسے سنگین مسئلے سے دوچار ہے جو عوامی انتظامیہ سے لے کر نجی کاروبار تک ہر شعبے کو متاثر کرتا ہے۔ بدعنوانی جمہوریت کو کمزور کرتی ہے، بیرونی سرمایہ کاری کو روکتی ہے، اقتصادی عدم مساوات میں اضافہ کرتی ہے، اور خدمات کی فراہمی کو متاثر کرتی ہے۔
ٹرانسپیرنسی انٹرنیشنل کے کرپشن پرسیپشن انڈیکس 2023میں پاکستان کو 180 ممالک میں سے 133 ویں نمبر پر رکھا گیا ہے ،جو بدعنوانی کے خاتمے کے لئے مسلسل جدوجہد کو ظاہر کرتا ہے۔جنوبی ایشاء میں پاکستان کی درجہ بندی سب سے کم ہے جو اس مسئلے کو حل کرنے کی اہمیت کو اجاگر کرتی ہے۔
جنوبی ایشیا: بدعنوانی کی درجہ بندی
ٹرانسپیرنسی انٹرنیشنل کے حالیہ کرپشن پرسیپشن اندیکس کو مطابق جنوبی ایشیاء میں ؛
۔بھوٹان۔خطے میں سب سے کم بدعنوانی والا ملک، عالمی سطح پر بھی شاندار درجہ بندی کا حامل ہے۔1
– .۔بھارت۔اگرچہ چیلنجز موجود ہیں، بھارت کی کارکردگی پاکستان سے بہتر ہے2
۔سری لنکا ۔سیاسی اور اقتصادی بحرانوں کے باوجود معتدل درجہ بندی۔3
۔نیپال ۔بدعنوانی کے مسائل ہیں لیکن پاکستان سے بہتر کارکردگی۔4
۔پاکستان ۔نچلی سطح پر، حکومتی اور احتسابی نظام کی کمی کے ساتھ موجود ہے۔5
۔بنگلہ دیش ۔وسیع بدعنوانی کا شکار، پاکستان سے ملتی جلتی درجہ بندی۔6
۔افغانستان ۔جنوبی ایشیا میں سب سے زیادہ بدعنوانی، جس میں تنازع اور کمزور حکومتی ڈھانچے نے اضافہ کیا ہے۔7
پاکستان میں بدعنوانی کی بنیادی وجوہات
کمزور ادارہ جاتی ڈھانچے: شفافیت اور احتساب کے مؤثر نظام کی کمی-: 1
سیاسی عدم استحکام:حکومتوں کی بار بار تبدیلی طویل مدتی پالیسیوں کو کمزور کرتی ہے۔: 2
عدالتی سست روی :قانونی عمل کی سست رفتاری احتساب کو روکتی ہے۔: 3
عوامی آگاہی کی کمی:شہریوں کے حقوق اور فرائض کے بارے میں محدود آگاہی۔:4
معاشی ناہمواری:غربت غیر اخلاقی رویوں کو فروغ دیتی ہے۔: 5
بدعنوانی کے اثرات
اقتصادی نتائج:سالانہ اربوں روپے کی آمدنی کا نقصان، ترقی میںبہت بڑی رکاوٹ ہے۔: 1
سماجی ناہمواری:وسائل تک غیر مساوی رسائی دولت کے فرق کو بڑھاتی ہے جس سے معاشرے میں تقسیم اور انتشار پیدا ہوتا ہے۔:2
ماحولیاتی نقصان:طاقت اور وسائل کے غیر قانونی استعمال سے جنگلات کی کٹائی، غیر قانونی کان کنی اور آلودگی میں اضافہ: 3
کمزور حکمرانی:عوامی ادارے اپنی ساکھ اور کارکردگی کھو دیتے ہیں۔: 4
پاکستان میں بدعنوانی کے خاتمے کی کوششیں
پاکستان نے بدعنوانی کے مسئلے سے نمٹنے کے لیے کئی اقدامات کیے ہیں، بشمول
قومی احتساب بیورو کا قیام : بدعنوانی کے کیسز کی تحقیقات اور ان کےاحتساب کے لئے بنایا گیا۔ (NAB): 1
قانون سازی:اینٹی منی لانڈرنگ اور وِسل بلوور پروٹیکشن کے قوانین کا نفاذ۔: 2
ڈیجیٹل حکمرانی:ای گورننس سسٹمز کا تعارف تاکہ انسانی رابطے اور رشوت کے مواقع کم ہوں۔: 3
عوامی آگاہی مہمات:سول سوسائٹی تنظیمیں اور میڈیا بدعنوانی کو بے نقاب کرنے میں کلیدی کردار ادا کرتے ہیں۔: 4۔
مسائل اور رکاوٹیں
ان اقدامات کے باوجود پاکستان کو کئی رکاوٹوں کا سامنا ہے، جیسے کہ سیاسی مداخلت، قوانین کے نفاذ کی کمی، انسداد بدعنوانی اداروں کے لیے ناکافی وسائل۔ جب کہ معاشرتی سطح پر بدعنوانی کو نظرانداز کرنے کا رویہ سب سے اہم مسئلہ ہے۔
آگے کا راستہ
اداروں کو مضبوط کرنا:انسداد بدعنوانی کے اداروں کی خودمختاری اور وسائل کو یقینی بنانا-: 1
عدالتی اصلاحات:بدعنوانی کے مقدمات میں شفافیت اور تیزی لانا۔-: 2۔
حکمرانی میں شفافیت:مالیاتی اور فیصلہ سازی کے عمل کو زیادہ شفاف اورقابل رسائی بنانا۔: 3
شہریوں کی شمولیت:شہریوں کو آگاہی اور تعلیم کے ذریعے احتساب کا مطالبہ کرنے کے قابل بنانا۔: 4
علاقائی تعاون:بھوٹان جیسے کامیاب ماڈلز سے سیکھنا۔: 5
الغرض بدعنوانی کے خلاف بین الاقوامی دن پر، پاکستان کو بدعنوانی کے خاتمے کے لیے اپنے عزم کی تجدید کرنی چاہیے۔ بدعنوانی کے خلاف جنگ صرف اداروں کی ذمہ داری نہیں بلکہ شہریوں، سول سوسائٹیعلماء کرام اور میڈیا کا بھی کردار ہے۔ شفافیت، احتساب، اور صفر برداشت (زیرو ٹارلنس) کے کلچر کو فروغ دے کر پاکستان اعتماد کو بحال کر سکتا ہے، بہتر حکمرانی فراہم کر سکتا ہے، اور ایک خوشحال مستقبل کی راہ ہموار کر سکتا ہے۔
مختار جاوید ایک سماجی و ماحولیاتی کارکن
ایگزیکٹو ڈائیریکٹر واج، ، چیئر پرسن فا فن
ایگزیکٹو ممبر این ایچ این،سن سی ایس اے نیوٹریشن نیٹ ورک پاکستان
،ممبر ، ، سٹارٹ گلوبل نیٹ ورک ر یڈی پاکستان،اور خیبر پختونخواہ فارسٹری راونڈ ٹی