Skip to content

احساسِ مروت کو کچل دیتے ہیں آلات

شیئر

شیئر

کنعانِ آرزو/بلال اشفاق
شاعرِ مشرق علامہ محمد اقبال آج سے تقریباً چھہتر سال قبل مادی ترقی اور اس کے بنی نوع انسان کے باہمی تعلقات پر مرتب ہونے والے اثرات کے حوالے سے کیا خوبصورت پیغام دے گئے ہیں۔
ہے دل کے لیے موت مشینوں کی حکومت
احساسِ مروت کو کچل دیتے ہیں آلات
یہ غالباً سات آٹھ برس قبل کی بات ہے کہ اس وقت راقم اسلام آباد کے ایک میڈیا ہاؤس میں ملازم تھا۔ اُس وقت موبائل فونز اور مختلف دوسرے سافٹ ویئرز کی اتنی بھرمار نہیں تھی۔ منیر نامی ہمارا ایک کولیگ جو کہ آفس بوائے تھا ،کے والد کی وفات ہو گئی اور یہ اُن کی تدفین کا چوتھا روز تھا ۔ہم لوگ دفتر میں بیٹھے کام کر رہے تھے کہ اچانک ایک دوست کے موبائل فون کی گھنٹی بجی اور رنگ ٹون ایک انڈین گانا تھا۔ سارے کولیگز نے خشمگیں نظروں سے اُس کولیگ جس کے موبائل کی گھنٹی بجی تھی کی طرف دیکھا اور ایک دوست نے ذرا غصے سے اُسے کہا کہ شرم نہیں آتی کہ منیر کے والد کی وفات کا چوتھا روز ہے اور آپ نے موبائل پر گانا چلا دیا ہے۔ اُس کولیگ نے شرمساری اور معذرت خواہانہ انداز میں جواب دیا کہ میں نے گانا نہیں چلایا بلکہ یہ رنگ ٹون ہے اور میں اسے ہٹانا بھول گیا تھا۔ خیر اس کے بعد کافی دیر اس موضوع پر گفتگو چلتی رہی کہ دوسروں کے دکھ اور پریشانی میں شریک ہونا چاہیے اور کسی بھی ایسے عمل سے اجتناب کیا جانا چاہیے جسے اگر وہ پریشان شخص دیکھے تو اُس کے دکھ میں مزید اضافہ ہو سکتا ہو۔
یہ تفصیل پیش کرنے کی ضرورت اس لیے پیش آئی کہ چند ماہ پہلے ہمارے ایک آفس کولیگ جو کہ ایک دہائی سے بھی زیادہ عرصہ ہمارے ساتھ کام کرتے رہے، کا انتقال ہو گیا۔ چونکہ اُن کا تعلق پنجاب کے ایک دور دراز ضلع سے تھا اور جنازہ تدفین کے لیے وہاں لے جایا گیا ، اس لیے سارے آفس کولیگز کا مرحوم کے گائوں جا کر آخری رسومات میں شریک ہونا ممکن نہ تھا۔ وہ آفس کولیگز جن کے پاس اپنی گاڑیاں تھیں یا جو افراد مذکورہ علاقے تک پہنچنے کی استطاعت رکھتے تھے وہ چلے گئے۔ دفتر کے سٹاف میں سے کئی افراد جنازے میں شرکت کے لیے گئے ہوئے تھے اور کام معمول سے تھوڑا کم اور سست رفتار سے ہو رہا تھا تو ایک نوجوان کولیگ جو ادارے میں چند سال گزار چکے تھے، موبائل فون پر بلند آواز سے ایک بے ہودہ سا گانا لگائے اُس پر جھوم رہے تھے۔ راقم کی طرف سے جب موصوف کو تنبیہ کی گئی کہ کم از کم اتنا تو خیال کر لو کہ ہمارے ایک دیرینہ ساتھی ہم سے جدا ہو گئے ہیں اور ابھی اُن کی تدفین بھی نہیں ہوئی۔ تو اُن کی جانب سے یہ جواب آیا:
”جناب! آپ ابھی تک بیسویں صدی میں جی رہے ہیں۔ یہ دنیا تو بنی ہی آنے جانے کیلئے ہے۔ یہاں کون سا دن ایسا ہوتا ہے جب کوئی قریبی عزیز، جان پہچان والا یا تعلق دار دنیا سے نہ گزرتا ہو۔ اب یہ تو ممکن نہیں کہ ہم مرحومین کے دکھ اور صدمے کو دل میں لے کر ماتم کریں اور غمزدہ ہوں۔ اگر ہم ایسا کرنے لگ جائیں تو سال کے تین سو پینسٹھ دن میں ایک دن بھی ایسا باقی نہیں بچے گا جس دن ہم خوشی منا سکیں۔ اور ویسے بھی دنیا میں دکھ اور پریشانی کے لیے اور چیزیں تھوڑی ہیں کہ ہم گزر جانے والوں کا ماتم کریں۔ ”
موصوف اپنے جواب کے دوران مسکراہٹ اور کبھی ہلکے قہقہے سے یہ بھی ثابت کرنے کی کوشش کر رہے تھے کہ جیسے اُنہوں نے راقم کو ”چاروں شانے چت ” کر دیا ہو۔ راقم کو نوجوان کی باتیں زہر میں بجھے ہوئے تیر کی طرح لگ رہی تھیں لیکن وقت کا تقاضا یہ تھا کہ خاموشی اختیار کی جائے اور صبر کا دامن تھامے رہا جائے۔
اگر ان دونوں واقعات کا آپس میں موازنہ کیا جائے تو علامہ اقبال کے مذکورہ بالا شعر کی تشریح ہو جاتی ہے۔ پہلے واقعے میں ایک آفس بوائے کے والد کی وفات کے چوتھے دن موبائل پر رنگ ٹون گانے کی صورت میں ہونے پر بھی انتہائی غصے کا اظہار کیا جا رہا ہے اور موبائل فون کا مالک بھی اپنے اس فعل پر نادم ہے اور معافی کا خواہاں ہے۔ اس کے برعکس دوسرے واقعے میں براہ راست ایک دیرینہ کولیگ کی وفات کے دن ازخود موبائل فون پر گانے چلائے جا رہے ہیں اور ٹوکنے پر اس فعل پر نادم ہونے کی بجائے موصوف اسے جائز ثابت کرنے کے لیے مختلف جواز پیش کر رہے ہیں۔
ہر دو صورتحال کا موازنہ کرنے سے یہ بات واضح ہو جاتی ہے کہ گو کہ پہلے واقعے کے پیش آنے کے دور میں ٹیکنالوجی نے اتنی ترقی نہیں کی تھی لیکن انسان کا انسان کا تعلق موجودہ دور کی نسبت کافی گہرا تھا۔ ایک دوسرے سے رابطے اور رسائی میں تھوڑی دقت پیش آتی تھی لیکن اس کے باوجود عوام الناس کا آپس میں تعلق خاصا گہرا تھا۔ خط اگر پوسٹ کیا جاتا تو کہی روز اور بعض اوقات ہفتوں بعد دوسرے تک پہنچتا لیکن اس کے باوجود لوگ ایک دوسرے سے رابطے میں رہنے کی کوشش کرتے اور ایک دوسرے کا پتا رکھتے۔ اب جب کہ واٹس اپ ، فیس بک اور دیگر ایسے سافٹ ویئرز کے ذریعے چند سیکنڈز میں پیغام دنیا کے کسی بھی کونے میں پہنچ جاتا ہے ، نقل و حمل کے ذرائع میں بھی جدت آ گئی ہے اور فاصلے سمٹ گئے ہیں۔ اس کے باوجود آج دلوں میں دوری پیدا ہو گئی ہے اور ہر گزرتے دن کے ساتھ لوگ ایک دوسرے سے دور سے دور تر ہوتے چلے جا رہیں۔ اب تو دوستی یاری یا تعلق داری تو دور کی بات اپنے قریبی رشتوں سے تعلق رکھنا اور نبھانے بہت مشکل ہو گیا ہے اور سگے بہن بھائی اور بعض اوقات والدین اور اولاد کے درمیان کئی کئی ماہ ملاقات نہیں ہو پاتی۔ رب کریم ہمیں نفانفسی کی اس صورت حال سے محفوظ رکھے اور اپنے رشتوں اور تعلق کو بہتر انداز میں نبھانے کی توفیق عطا فرمائے۔ آمین

اپنی رائے دیں

متعلقہ پوسٹس

دوسری زبان میں ترجمہ کریں