Skip to content

موجودہ معاشرہ اور اخلاقیات

شیئر

شیئر

موجودہ معاشرہ تیزی سے جدیدیت اور مادی ترقی کی طرف بڑھ رہا ہے، جس کی وجہ سے روایتی اخلاقی اصول اور قدریں متاثر ہو رہی ہیں۔ یہ تبدیلیاں جہاں لوگوں کی زندگیوں میں سہولتیں اور آسائشیں لا رہی ہیں، وہیں اخلاقیات اور معاشرتی اقدار میں زوال کا باعث بھی بن رہی ہیں۔ آج کا معاشرہ ایک ایسے دور سے گزر رہا ہے جہاں ٹیکنالوجی اور ڈیجیٹل دنیا نے انسانی تعلقات اور اخلاقی رویوں پر گہرے اثرات مرتب کیے ہیں۔ اس تیز رفتار ترقی نے بلاشبہ انسانی زندگی کو آسان بنایا ہے، مگر ساتھ ہی ساتھ اخلاقی قدروں اور اصولوں کی حیثیت کو بھی نظر انداز کیا ہے۔

اخلاقی تربیت کا ایک اہم عنصر خاندان اور تعلیمی ادارے ہوا کرتے تھے۔ ماضی میں، اخلاقیات کی بنیادیں گھر اور اسکول میں رکھی جاتی تھیں، جہاں بچوں کو سچائی، امانت داری، دیانت داری اور ہمدردی جیسے بنیادی اصول سکھائے جاتے تھے۔ بچوں کو خاندان کے افراد اور اساتذہ کی جانب سے اخلاقی اصولوں کا درس دیا جاتا تھا، جس سے ان کی شخصیت میں مثبت تبدیلیاں پیدا ہوتیں اور وہ ایک بہترین شہری بننے کی طرف گامزن ہوتے۔ مگر آج کل والدین اور تعلیمی ادارے زیادہ تر مادی کامیابیوں اور اقتصادی فوائد پر زور دے رہے ہیں۔ اس کے نتیجے میں، نوجوان نسل کے اندر اخلاقیات کی کمی اور خود غرضی کے رجحانات پیدا ہو رہے ہیں۔

سوشل میڈیا اور ڈیجیٹل دنیا کا اثر

سوشل میڈیا اور ڈیجیٹل ٹیکنالوجی نے موجودہ معاشرتی اقدار اور انسانی رویوں پر ایک بڑی چھاپ چھوڑی ہے۔ آج کل کے دور میں، لوگ اپنی بہترین تصویر دوسروں کے سامنے پیش کرنے میں زیادہ دلچسپی رکھتے ہیں، جس کی وجہ سے معاشرے میں دکھاوا، خود غرضی اور مصنوعی تعلقات کا رواج بڑھتا جا رہا ہے۔ ڈیجیٹل دنیا میں لوگوں کے ذاتی مفادات زیادہ نمایاں ہوتے ہیں، اور سوشل میڈیا پر اکثر ایسا مواد شیئر کیا جاتا ہے جس کا مقصد دوسروں کو متاثر کرنا ہوتا ہے۔ اس صورتحال نے انسانی تعلقات میں اخلاص اور حقیقت پسندی کو متاثر کیا ہے، اور لوگ زیادہ تر اپنے مفادات کی بنیاد پر تعلقات قائم کرتے ہیں۔

یہی وجہ ہے کہ موجودہ معاشرتی تعلقات میں اخلاقی اقدار کا فقدان محسوس ہوتا ہے۔ لوگ دوسروں کے ساتھ جذباتی وابستگی کی بجائے مفادات کو ترجیح دیتے ہیں، جس کے نتیجے میں معاشرتی تعلقات کمزور ہوتے جا رہے ہیں۔ سچائی اور دیانت داری جیسے اخلاقی اصول، جو کہ کسی بھی معاشرے کی بنیاد ہیں، پسِ پردہ چلے گئے ہیں۔ اس کے علاوہ، ڈیجیٹل دنیا کی تیز رفتار نے لوگوں کو صبر، برداشت اور تفہیم جیسے اہم رویوں سے دور کر دیا ہے۔

اخلاقیات کی بحالی کے لیے کوششیں

تاہم، موجودہ معاشرے میں ابھی بھی ایسے افراد اور ادارے موجود ہیں جو اخلاقیات کی بحالی کے لیے کوشش کر رہے ہیں۔ یہ ادارے اور افراد لوگوں کو بنیادی اخلاقی اصولوں کی طرف لوٹانے کے لیے مختلف طریقے اپنا رہے ہیں۔ مختلف فلاحی تنظیمیں، مذہبی ادارے اور سماجی کارکن لوگوں کو دیانت داری، ہمدردی، اور انصاف پسندی کی طرف راغب کرنے کے لیے سرگرم ہیں۔ ان کے لیے تعلیمی ادارے اور والدین کا کردار نہایت اہم ہے، کیونکہ بچوں کی اخلاقی تربیت ان کی ابتدائی زندگی میں ہی کی جاتی ہے۔

تعلیمی اداروں اور والدین کا کردار

تعلیمی ادارے اور والدین دونوں ہی بچوں کی اخلاقی تربیت میں اہم کردار ادا کرتے ہیں۔ تعلیم اور تربیت کا مقصد محض علمی معلومات فراہم کرنا نہیں بلکہ بچوں کی شخصیت اور کردار کو بہتر بنانا بھی ہے، تاکہ وہ معاشرے کے بہترین اور بااخلاق شہری بن سکیں۔

تعلیمی اداروں کا کردار:
تعلیمی ادارے بچوں کو علم اور تربیت دونوں فراہم کرتے ہیں۔ ایک اچھا تعلیمی ادارہ نہ صرف علمی مضامین میں مہارت دیتا ہے بلکہ طلبہ کو سچائی، دیانت، امانت اور انسان دوستی جیسے اصول بھی سکھاتا ہے۔ اساتذہ کا طلبہ کی کردار سازی میں اہم کردار ہوتا ہے؛ اساتذہ اپنی روزمرہ کی گفتگو اور رویے سے بچوں کے لیے مثال بن سکتے ہیں۔ اسکول میں مختلف تربیتی سرگرمیاں جیسے کہ مباحثے، گروپ ورک، اور سوشل ورک کے پروجیکٹس، طلبہ کو ذمہ داری اور مل جل کر کام کرنے کا درس دیتی ہیں۔ اس طرح طلبہ میں اخلاقی اصولوں اور معاشرتی اقدار کی تربیت کی جاتی ہے۔

والدین کا کردار:
بچوں کی پہلی تربیت گاہ ان کا گھر ہوتا ہے، اور والدین ان کے پہلے استاد ہوتے ہیں۔ والدین کا رویہ، بات چیت، اور طرز زندگی بچوں پر گہرا اثر چھوڑتا ہے۔ اگر والدین خود سچائی، انصاف اور اخلاص پر عمل کریں، تو بچے بھی ان اصولوں کو اپناتے ہیں۔ بچوں کے ساتھ محبت اور احترام کا رویہ ان میں دوسروں کے لیے بھی یہی جذبات پیدا کرتا ہے۔ والدین کو چاہیے کہ وہ بچوں کے مسائل سنیں، ان کی رہنمائی کریں، اور اچھے اور برے کی تمیز سکھائیں۔ والدین کو بچوں کے ساتھ دوستانہ اور ہمدردانہ رویہ رکھنا چاہیے، تاکہ بچے ان کی باتوں کو سمجھ سکیں اور ان کے نقش قدم پر چلنے کی کوشش کریں۔

مشترکہ ذمہ داری اور ہم آہنگی

تعلیمی ادارے اور والدین کو مل کر بچوں کی تربیت پر توجہ دینی چاہیے۔ اسکول میں جو اصول اور اخلاقیات سکھائی جاتی ہیں، والدین کو ان کی حمایت کرنی چاہیے تاکہ بچوں کو تربیت میں کوئی تضاد محسوس نہ ہو۔ والدین اور اساتذہ کو مسلسل رابطے میں رہنا چاہیے تاکہ بچے کی تربیت میں دونوں کا کردار ہم آہنگ ہو اور بچے کی شخصیت کی مثبت نشوونما ہو۔

اخلاقیات کی بحالی کے لیے والدین اور تعلیمی اداروں کو اپنا کردار بھرپور طریقے سے ادا کرنا ہوگا۔ جدید معاشرے میں بڑھتی ہوئی چیلنجز کے باوجود، اخلاقی تربیت کا عمل مضبوط کیا جا سکتا ہے اگر والدین اور اساتذہ دونوں اپنی ذمہ داریوں کو پوری سنجیدگی سے نبھائیں۔ تعلیمی ادارے اور والدین کا یہ مشترکہ کردار معاشرے میں ایک بہتر اور بااخلاق نسل کو پروان چڑھا سکتا ہے، جو کہ مستقبل میں ایک مثبت اور مضبوط معاشرہ تشکیل دینے میں مددگار ثابت ہو سکتی ہے۔

ڈاکٹر صاحبزادہ جواد الفیضی

اپنی رائے دیں

متعلقہ پوسٹس

دوسری زبان میں ترجمہ کریں