Skip to content

اپنے دو کلو گوشت کیلئے

شیئر

شیئر

کنعان آرزو/ بلال اشفاق
اسلام دوسرے مذاہب کی طرح صرف ایک دین نہیں بلکہ ایک مکمل ضابطہ حیات ہے جس نے محض دینی معاملات ہی نہیں بلکہ زندگی کے تمام پہلوؤں میں انسان کی رہنمائی کی ہے اور انسانی حقوق کا تعین کیا ہے۔ اسلام نے صرف اپنے ماننے والوں کو حقوق نہیں دیئے بلکہ دوسرے مذاہب کے پیروکاروں کے حقوق مقرر کیے اور مسلمانوں کو غیر مذاہب کے ماننے والوں کے وہ حقوق پورے کرنے کا پابند بنایا۔ اسلام دیگر مذاہب کے برعکس جنسی، طبقاتی اور نسلی امتیاز کی نفی کرتا ہے۔قرآن و حدیث میں میں بھی بار بار ان حقوق کو پورا کرنے کی تاکید کی گئی اور حضور نبی اکرم صلی علیہ وسلم نے بھی اپنے خطبہ حجہ الوداع میں مسلمانوں کے بجائے انسانوں کو مخاطب کیا جو ان حقوق کی اہمیت و افادیت کو واضح کرتا ہے۔
جب اسلام غیر مسلموں کے حقوق پورے کرنے پر اتنا اصرار کرتا ہے تو اسلام کے پیروکاروں کے حقوق ادا کیے بغیر دین کی تکمیل کیونکر ممکن ہے۔ اسلام نے تو جانوروں کے بھی حقوق مقرر کیے ہیں۔
اس ضابطہ حیات میں جہاں عبادات کا ذکر آیا وہیں معاملات کا بیان بھی ہوا۔ عبادات میں کوتاہی کی صورت میں توبہ کی طرف رجوع کرنے پر رب کریم نے اپنے غفار اور کریم ہونے کا ذکر کیا لیکن دوسری جانب معاملات میں کوتاہی کی صورت میں معافی کو متاثرہ فریق یا فرد کی طرف درگزر سے منسلک کر دیا۔ تاہم آج ہم نے صرف عبادات کو ہی دین سمجھ لیا ہے اور معاملات ہمارے لیے کوئی اہمیت نہیں رکھتے۔
ان حوالہ جات اور اس تہمید کا مقصد ایک چھوٹے سے واقعے کا بیان ہے جو بظاہر تو بہت معمولی ہے اور شاید اکثر افراد اس پہلو پر غور ہی نہ کرتے ہوں لیکن ہماری پست سوچ اور انسانی حقوق کی ادائیگی سے پہلو تہی کا عکاس ہے۔
مانسہرہ لاری اڈا سے موٹر وے انٹر چینج اور مختلف علاقوں کی طرف نکلنے والے پانو لنک روڈ کی حالت ناگفتہ بہ ہے لیکن ایک جگہ سڑک بہت زیادہ ٹوٹ پھوٹ کا شکار ہے اور اس مقام پر گاڑی انتہائی سست رفتار سے گزرتی ہے۔ سڑک پر گہرے گڑھے موجود ہیں۔ بظاہر پانی کی نکاسی کی کوئی نالی بھی وہاں سے نہیں گزرتی کہ سڑک کی ٹوٹ پھوٹ کا باعث بنتی ہو۔ اس مقام سے جب گاڑی انتہائی سست رفتار سے جھولتی ہوئی گزرتی تو کئی بار متعلقہ محکموں اور افسران کی عدم توجہی اور غفلت کی جانب دھیان گیا لیکن بعد ازاں دیگر امور میں مشغول ہو کر بات ذہن سے محو ہو گئی۔
ایک روز گاڑی کی فرنٹ سیٹ پر بیٹھے جب مذکورہ مقام سے گزر ہوا تو بے اختیار گاڑی کے ڈرائیور کے ساتھ اس حوالے سے گفتگو شروع ہو گئی کہ متعلقہ محکمے کتنے غافل ہیں، عرصے سے اس مقام پر سڑک کی صورت انتہائی خراب ہے، اگر مرمت نہیں کر سکتے تو کم از کم گڑھے ہی مٹی سے بھر دیں تاکہ گاڑیاں آسانی سے گزر سکیں۔
گاڑی کا ڈرائیور زیر لب مسکرایا اور گویا ہوا: "یہ محکمے کا نہیں بلکہ ہمارے عوام کا قصور ہے۔”
راقم نے حیرت سے گاڑی کے ڈرائیور کی طرف دیکھا اور اور سوال کیا کہ اس میں عوام کا قصور کیسے اور سڑکوں کی تعمیر و مرمت تو ان کا کام ہی نہیں۔
ڈرائیور بولا: "آپ نے سڑک کی نچلی جانب روٹی کا تنور دیکھا تھا۔”
راقم نے جواب دیا نہیں تو۔ لیکن تنور کا سڑک کی ٹوٹ پھوٹ کے ساتھ کیا تعلق، وہاں سے تو کوئی ایسی چیز خارج نہیں ہوتی جو سڑک کی ٹوٹ پھوٹ کا باعث بنے اور ویسے بھی وہ جگہ بالکل خشک ہے۔
اس پر ڈرائیور نے جو تفصیل بتائی وہ یقینا حیرت زدہ کرنے والی اور ہماری مجموعی پست سوچ کی عکاس تھی۔ ڈرائیور نے بتایا کہ تنور کے مالکان خود اس جگہ سڑک کی مرمت نہیں ہونے دیتے تاکہ گاڑیاں بہت آرام سے گزریں، مٹی اور دھول اڑ کر آٹے اور روٹیوں پر نہ پڑے، گاہکوں کو اس جگہ کھڑے ہونے اور سڑک کے آر پار آنے جانے میں کوئی دقت پیش نہ آئے۔
ڈرائیور نے بتایا کہ متعلقہ محکمے کی طرف سے متعدد بار سڑک پر موجود ان گڑھوں کو مٹی سے بھرا بھی جاتا ہے لیکن بغیر بارش اور کسی دیگر وجہ کے اگلی صبح گڑھے مٹی سے خالی ہوتے ہیں اور مجھے سو فیصد یقین ہے کہ یہ کیا دھرا تنور والوں کا ہی ہوتا ہے۔
بظاہر تو یہ ایک معمولی سا واقعہ معلوم ہوتا ہے لیکن ہماری سوچ کی پستی کی عکاسی کرتا۔ چند سو روپے خرچ کر کے اپنی چیزوں کو دھول اور مٹی سے محفوظ بنانے کی بجائے روزانہ سینکڑوں گاڑیوں کے ذریعے گزرنے والے لاکھوں مسافروں کو تکلیف اور پریشانی میں مبتلا کرنا ہمیں زیادہ آسان معلوم ہوتا ہے۔ ہم عوام صبح و شام محکموں اور حکمران طبقے پر کرپشن اور بے ضابطگیوں کے الزام تو دھرتے ہیں لیکن خود روش تبدیل کرنے پر آمادہ نہیں ہوتے اور اور اپنی بے ضابطگیوں کو اپنا جائز حق خیال کرتے ہیں۔ یہاں اپنے دو کلو گوشت کیلئے پوری گائے ذبح کرنے کا محاورہ صادق آتا ہے۔

اپنی رائے دیں

متعلقہ پوسٹس

دوسری زبان میں ترجمہ کریں