ڈاکٹر جزبیہ شیریں-چین
مردوں کا عالمی دن ہر سال 19 نومبر کو منایا جاتا ہے تاکہ معاشرے میں مردوں کی خدمات، ان کے کردار، اور ان کی صحت کے مسائل کو اجاگر کیا جا سکے۔ اس دن کا آغاز 1999 میں ہوا جب پہلی بار یہ تقریب ترینیداد اور ٹوباگو میں ڈاکٹر جیروم تیلک سنگھ کی سربراہی میں منائی گئی۔ ڈاکٹر تیلک سنگھ نے اپنے والد کی سالگرہ کو مردوں کے لیے ایک اہم دن کے طور پر منتخب کیا، تاکہ دنیا بھر میں مردوں کی مثبت پہچان اور ان کی قربانیوں کو تسلیم کیا جا سکے۔
یہ دن نہ صرف مردوں کے کردار کو سراہنے کا موقع فراہم کرتا ہے بلکہ ان چیلنجز اور مسائل پر بھی روشنی ڈالتا ہے جو مردوں کو سماجی، جذباتی، اور جسمانی طور پر درپیش ہوتے ہیں۔ اس کا مقصد صنفی مساوات کو فروغ دینا، مردوں کی ذہنی اور جسمانی صحت کی بہتری کے لیے آگاہی پیدا کرنا، اور ان کے ساتھ معاشرتی انصاف کو یقینی بنانا ہے۔ مردوں کے عالمی دن کو اب دنیا کے مختلف ممالک میں تسلیم کیا جاتا ہے اور یہ دن ان کی خدمات اور ان کی اہمیت کو یاد دلانے کے ساتھ ساتھ سماجی ہم آہنگی کا پیغام بھی دیتا ہے۔ مردوں کی صحت، خاص طور پر ذہنی صحت، ایک ایسا موضوع ہے جس پر عموماً کم بات کی جاتی ہے، حالانکہ یہ ایک سنگین مسئلہ ہے۔ معاشرتی توقعات، ذمہ داریوں کا بوجھ، اور جذبات کو دبانے کا رجحان مردوں کو شدید ذہنی دباؤ کا شکار بنا سکتا ہے۔ بدقسمتی سے، بہت سے معاشروں میں مردوں سے توقع کی جاتی ہے کہ وہ اپنی مشکلات کا ذکر نہ کریں اور مضبوط رہیں، جس کے نتیجے میں وہ اپنے اندرونی مسائل کو دوسروں کے ساتھ شیئر نہیں کر پاتے۔
ڈپریشن، جو ایک عام ذہنی بیماری ہے، مردوں میں اکثر نظرانداز ہو جاتی ہے کیونکہ وہ اپنی علامات کو ظاہر نہیں کرتے۔ اسی طرح، خودکشی کے اعدادوشمار بھی تشویشناک ہیں۔ دنیا بھر میں خواتین کے مقابلے میں مردوں کی خودکشی کی شرح زیادہ ہے، جو اس بات کی نشاندہی کرتی ہے کہ مردوں کو اپنی جذباتی مشکلات کے لیے مدد حاصل کرنے میں رکاوٹیں پیش آتی ہیں۔
جسمانی صحت کے ساتھ ساتھ ذہنی صحت پر بھی توجہ دینا ضروری ہے۔ مردوں کے لیے ایک ایسا ماحول پیدا کرنا چاہیے جہاں وہ اپنے مسائل کے بارے میں آزادانہ بات کر سکیں۔ ذہنی صحت کے بارے میں آگاہی مہمات، مشاورت کی خدمات، اور کام کی جگہ پر دباؤ کم کرنے کے اقدامات اس سلسلے میں اہم کردار ادا کر سکتے ہیں۔
حکومت اور سماجی تنظیموں کو بھی مردوں کی صحت کے لیے خصوصی پروگرام ترتیب دینا چاہیے، جہاں انہیں جذباتی حمایت فراہم کی جائے۔ خاندانوں اور دوستوں کو چاہیے کہ وہ مردوں کو سننے اور ان کے جذبات کو سمجھنے کی کوشش کریں تاکہ وہ اپنے اندرونی مسائل کو شیئر کرنے میں ہچکچاہٹ محسوس نہ کریں۔ اس طرح ہم مردوں کی ذہنی صحت کو بہتر بنا سکتے ہیں اور ان کی زندگیوں میں مثبت تبدیلی لا سکتے ہیں۔ خاندان میں مردوں کا کردار ہمیشہ سے نہایت اہم اور بنیادی رہا ہے۔ ایک اچھے والد، بھائی، اور بیٹے کے طور پر مرد اپنے خاندان کی فلاح و بہبود کے لیے کئی قربانیاں دیتے ہیں اور بے شمار ذمہ داریاں نبھاتے ہیں۔ ان کی محنت اور لگن نہ صرف خاندان کے افراد کے لیے ایک مضبوط سہارا بنتی ہے بلکہ ان کی زندگی میں استحکام اور خوشیوں کا ذریعہ بھی ہے۔
ایک والد کے طور پر مرد اپنے بچوں کی پرورش اور تعلیم و تربیت کے لیے سخت محنت کرتا ہے۔ وہ دن رات محنت کر کے اپنے خاندان کے لیے روزی روٹی کا بندوبست کرتا ہے اور ان کی ضروریات کو پورا کرنے کی کوشش کرتا ہے۔ والد کی قربانیوں کو اکثر نظر انداز کر دیا جاتا ہے، حالانکہ وہ اپنی خوشیوں کو قربان کر کے اپنے بچوں کے بہتر مستقبل کے لیے جدوجہد کرتا ہے۔
ایک بھائی کے طور پر مرد اپنے بہن بھائیوں کے لیے تحفظ کا ذریعہ ہوتا ہے۔ وہ نہ صرف ان کے لیے ایک دوست کی حیثیت رکھتا ہے بلکہ مشکل وقت میں ان کے ساتھ کھڑا رہتا ہے۔ ایک بھائی اپنی بہن کی عزت اور خوشیوں کے لیے ہمیشہ فکر مند رہتا ہے اور اسے ہر ممکن سہولت فراہم کرنے کی کوشش کرتا ہے۔
ایک بیٹے کے طور پر مرد اپنے والدین کی خدمت اور ان کے خوابوں کو پورا کرنے کے لیے اپنی پوری توانائی صرف کرتا ہے۔ وہ اپنے والدین کی دعاؤں کا نتیجہ ہوتا ہے اور ان کے بڑھاپے کا سہارا بنتا ہے۔
مردوں کی قربانیاں اکثر نظر انداز ہو جاتی ہیں، لیکن ان کی اہمیت کو تسلیم کرنا اور ان کی خدمات کا اعتراف کرنا ضروری ہے تاکہ وہ اپنے کردار پر فخر محسوس کر سکیں اور مزید دلجمعی کے ساتھ اپنی ذمہ داریاں نبھا سکیں۔ صنفی مساوات ایک ایسا تصور ہے جو معاشرے میں خواتین اور مردوں کے درمیان برابری کو یقینی بنانے کی بات کرتا ہے، لیکن اس بحث میں اکثر مردوں کے مسائل کو نظر انداز کر دیا جاتا ہے۔ جہاں خواتین کے حقوق کے لیے جدوجہد ضروری ہے، وہیں مردوں کے ان مسائل پر توجہ دینا بھی اتنا ہی اہم ہے جو انہیں معاشرتی، جذباتی، اور عملی زندگی میں درپیش ہیں۔
مردوں پر کام کا دباؤ ایک بڑا مسئلہ ہے۔ معاشرے میں یہ توقع کی جاتی ہے کہ مرد خاندان کی مالی ضروریات کو پورا کریں گے، خواہ اس کے لیے انہیں کتنی ہی قربانیاں دینی پڑیں۔ یہ دباؤ نہ صرف ان کی جسمانی صحت پر اثر ڈالتا ہے بلکہ ذہنی صحت پر بھی منفی اثرات مرتب کرتا ہے۔ بہت سے مرد جذباتی مسائل کا شکار ہوتے ہیں لیکن اپنی مشکلات کو ظاہر نہیں کرتے کیونکہ معاشرتی رویے انہیں مضبوط اور غیر جذباتی دیکھنا چاہتے ہیں۔
سماجی توقعات مردوں کے لیے ایک اور چیلنج ہیں۔ انہیں ہمیشہ ایک کامیاب انسان، اچھے شوہر، والد، اور بیٹے کے طور پر خود کو ثابت کرنا ہوتا ہے۔ ان توقعات کے بوجھ تلے کئی مرد اپنی ذاتی خوشیوں اور ضروریات کو نظر انداز کر دیتے ہیں۔ جذباتی دباؤ کی وجہ سے اکثر مرد ذہنی بیماریوں کا شکار ہو جاتے ہیں، لیکن ان کے مسائل کو سنجیدگی سے نہیں لیا جاتا۔
صنفی مساوات کے تحت ضروری ہے کہ مردوں کے مسائل کو بھی اتنی ہی اہمیت دی جائے جتنی خواتین کے حقوق کو دی جاتی ہے۔ معاشرے کو چاہیے کہ مردوں کو بھی وہ آزادی اور تعاون فراہم کرے جس سے وہ اپنی جذباتی اور عملی زندگی کو بہتر بنا سکیں۔ یہ توازن ہی ایک صحت مند اور خوشحال معاشرے کی بنیاد رکھ سکتا ہے مردوں کے لیے تعلیم اور شعور پیدا کرنا ایک صحت مند اور متوازن معاشرے کے لیے انتہائی ضروری ہے۔ معاشرتی نظام میں مردوں کو اکثر طاقت اور اختیار کا حامل سمجھا جاتا ہے، لیکن ان کی ذمہ داریوں اور حقوق کے حوالے سے آگاہی کی کمی مسائل کو جنم دے سکتی ہے۔
تعلیم کے ذریعے مردوں کو یہ سکھایا جا سکتا ہے کہ ان کی طاقت اور وسائل کا استعمال دوسروں کی فلاح کے لیے کیسے کیا جائے۔ ایک اچھے شوہر، والد، یا بھائی بننے کے لیے ضروری ہے کہ مرد اپنے خاندان کے افراد کے جذبات اور ضروریات کو سمجھیں اور ان کے ساتھ ہمدردی کا مظاہرہ کریں۔ تعلیم اور شعور انہیں اس قابل بناتا ہے کہ وہ خواتین کے حقوق کا احترام کریں اور گھر، کام، اور معاشرے میں صنفی مساوات کو فروغ دیں۔
اسی طرح، مردوں کو اپنے حقوق کے بارے میں بھی شعور دینا ضروری ہے تاکہ وہ معاشرتی دباؤ یا غیر ضروری ذمہ داریوں کا بوجھ برداشت نہ کریں۔ یہ شعور انہیں اس قابل بناتا ہے کہ وہ اپنی زندگی میں توازن قائم کر سکیں اور اپنی ذہنی اور جسمانی صحت کا خیال رکھ سکیں۔ شعور کی یہ مہم مردوں اور خواتین دونوں کے لیے فائدہ مند ہے اور معاشرے کو ترقی کی راہ پر گامزن کرتی ہے۔ معاشرے میں عمومی طور پر صنفی امتیاز کے مسئلے کو زیادہ تر خواتین کے حقوق کے حوالے سے دیکھا جاتا ہے، لیکن مردوں کے ساتھ ہونے والے امتیازی سلوک کو اکثر نظر انداز کیا جاتا ہے۔ جھوٹے مقدمات، خاص طور پر گھریلو تشدد یا ہراسانی کے کیسز، مردوں کی زندگی پر سنگین اثر ڈال سکتے ہیں۔ ان کیسز میں اکثر مردوں کو بغیر کسی ٹھوس ثبوت کے قصوروار ٹھہرا دیا جاتا ہے، جو نہ صرف ان کی ساکھ بلکہ ان کی ذہنی اور جذباتی صحت کو بھی نقصان پہنچاتا ہے۔
اس کے علاوہ، قانونی اور سماجی نظام میں کچھ ایسے قوانین اور رویے موجود ہیں جو مردوں کے خلاف غیر منصفانہ ثابت ہو سکتے ہیں۔ مثال کے طور پر، والدین کی علیحدگی کے بعد بچوں کی تحویل کے معاملات میں زیادہ تر فیصلے خواتین کے حق میں دیے جاتے ہیں، چاہے والد بہتر کفالت فراہم کرنے کے قابل ہو۔
معاشرتی دباؤ اور جذباتی توقعات بھی مردوں کے لیے ایک بڑا چیلنج ہیں۔ انہیں اکثر جذباتی طور پر مضبوط دکھنے کا مطالبہ کیا جاتا ہے، جس کے نتیجے میں وہ اپنی ذہنی صحت کے مسائل پر بات کرنے سے کتراتے ہیں۔ یہ مسائل اجاگر کرنا ضروری ہے تاکہ مردوں کے حقوق اور مسائل کو بھی اتنی ہی اہمیت دی جائے جتنی دیگر صنفی مسائل کو دی جاتی ہے۔ معاشرے کی ترقی میں مردوں کی خدمات اور کامیابیاں نمایاں حیثیت رکھتی ہیں، جو زندگی کے ہر شعبے میں ان کی محنت اور عزم کی عکاسی کرتی ہیں۔ سائنس اور ٹیکنالوجی میں مردوں نے انقلابی کارنامے انجام دیے ہیں، جیسے آئن سٹائن کے نظریہ اضافیت سے لے کر نیوٹن کے قوانین تک، جنہوں نے دنیا کی سائنسی بنیادیں مضبوط کیں۔
فن ار ادب میں بھی مردوں کی خدمات کو نظر انداز نہیں کیا جا سکتا۔ اردو ادب میں میر، غالب، اور اقبال جیسے شاعر آج بھی ہماری ثقافتی پہچان ہیں۔ کھیلوں میں بھی مردوں نے ملک کا نام روشن کیا ہے، جیسے کرکٹ میں وسیم اکرم اور ہاکی میں شہباز احمد کی خدمات۔
صنعت اور معیشت کے شعبے میں مردوں کا کردار بھی اہم ہے، جہاں وہ معاشی استحکام کے لیے دن رات کام کرتے ہیں۔ سیاست اور قیادت کے میدان میں مردوں نے نہ صرف تاریخ رقم کی ہے بلکہ قوموں کی تقدیر بھی بدلی ہے، جیسے قائداعظم محمد علی جناح کی قیادت۔
مردوں کی ان کامیابیوں کا اعتراف کرنا ضروری ہے تاکہ ان کی قربانیوں اور محنت کو سراہا جا سکے اور نئی نسل کو بھی ان کے نقش قدم پر چلنے کی ترغیب ملے۔ یہ کامیابیاں انسانیت کی ترقی کی علامت ہیں۔ مرد بھی جذبات رکھتے ہیں، لیکن سماج میں پائی جانے والی روایتی توقعات اور دباؤ کی وجہ سے وہ اپنے جذبات کا اظہار کرنے سے کتراتے ہیں۔ انہیں بچپن سے ہی یہ سکھایا جاتا ہے کہ آنسو بہانا یا کمزوری ظاہر کرنا مردانگی کے خلاف ہے، جس کی وجہ سے وہ اپنی اندرونی کیفیات کو دبانے پر مجبور ہو جاتے ہیں۔
یہ رویہ مردوں کی ذہنی اور جذباتی صحت پر منفی اثر ڈال سکتا ہے۔ دبے ہوئے جذبات نہ صرف پریشانی اور ڈپریشن کو بڑھاتے ہیں بلکہ مردوں کے تعلقات اور روزمرہ زندگی پر بھی اثرانداز ہو سکتے ہیں۔ ان کی بےچینی، غصہ یا مایوسی کبھی کبھار غیر متوازن رویے کا سبب بن سکتی ہے، جو ان کے قریبی تعلقات کو متاثر کرتا ہے۔
ضرورت اس بات کی ہے کہ معاشرہ مردوں کو یہ آزادی دے کہ وہ اپنے جذبات کا اظہار کھل کر کر سکیں۔ ان کے لیے ایک ایسا ماحول بنایا جائے جہاں وہ اپنے مسائل کو بانٹ سکیں اور جذباتی مدد حاصل کر سکیں۔ جذبات کا اظہار کمزوری نہیں بلکہ انسان ہونے کی نشانی ہے، اور مردوں کو یہ سمجھنا ضروری ہے کہ ان کی خوشحالی اور زندگی کے معیار کو بہتر بنانے کے لیے جذباتی اظہار لازمی ہے۔ معاشرے میں مردوں کے ساتھ جڑے کئی رویے ایسے ہیں جو ان کی عزت، مسائل اور جذبات کو نظر انداز کرتے ہیں۔ روایتی سوچ کے مطابق مرد کو صرف کفیل اور محافظ سمجھا جاتا ہے، جبکہ ان کے جذبات اور مسائل کو کم اہمیت دی جاتی ہے۔ یہ سوچ نہ صرف ان کی شخصیت کو محدود کرتی ہے بلکہ ان پر غیر ضروری دباؤ بھی ڈالتی ہے۔
مرد بھی انسان ہیں اور ان کی عزت کرنا اتنا ہی ضروری ہے جتنا کسی اور کا۔ ان کے کام اور قربانیوں کو سراہا جانا چاہیے، چاہے وہ ایک خاندان کی کفالت کرنے والا شوہر ہو، ایک محنتی باپ ہو، یا ایک مددگار بھائی۔ ان کے کردار کو صرف معاشی ذمہ داریوں تک محدود نہ کریں، بلکہ ان کی جذباتی اور سماجی ضرورتوں کو بھی اہمیت دیں۔
مردوں کے مسائل کو سننے اور ان کے لیے ایک محفوظ ماحول فراہم کرنے کی اشد ضرورت ہے۔ انہیں یہ حق دیا جائے کہ وہ اپنے مسائل پر بات کر سکیں اور مدد حاصل کر سکیں۔ جھوٹے الزامات، کام کے دباؤ، اور غیر حقیقی سماجی توقعات جیسے مسائل کو کھلے دل سے سننا اور ان کا حل نکالنا ضروری ہے۔
ہمیں اپنے رویوں میں تبدیلی لانے کی ضرورت ہے تاکہ مردوں کو بھی وہ مقام اور عزت ملے جو وہ مستحق ہیں۔ ان کے کردار کو سراہنے اور ان کے مسائل کو سنجیدگی سے لینے سے نہ صرف مردوں کی زندگی بہتر ہو سکتی ہے بلکہ معاشرہ بھی متوازن اور خوشحال بن سکتا ہے۔ مردوں کی عزت اور ان کے کردار کو تسلیم کرنے سے ہم ایک بہتر اور مساوی معاشرتی نظام کی بنیاد رکھ سکتے ہیں۔
مردوں کے عالمی دن کا مقصد صرف مردوں کی کامیابیوں کو تسلیم کرنا نہیں ہے، بلکہ ان کی فلاح و بہبود کے لیے اقدامات کرنا بھی ہے۔ یہ دن مردوں کے مسائل اور چیلنجز کو اجاگر کرنے کی کوشش ہے، جنہیں اکثر نظر انداز کیا جاتا ہے۔ ان مسائل میں جسمانی، ذہنی صحت، اور سماجی دباؤ شامل ہیں، جنہیں سمجھنا اور ان پر توجہ دینا ضروری ہے۔ مردوں کو صرف معاشی اور جسمانی طاقت کے طور پر نہیں دیکھنا چاہیے، بلکہ ان کے جذباتی اور ذہنی صحت کے مسائل کو بھی اہمیت دی جانی چاہیے۔
یہ دن ہمیں یہ یاد دلاتا ہے کہ مردوں کی کامیابیاں اور قربانیاں صرف ان کی ذاتی محنت کی نہیں، بلکہ معاشرتی تعاون اور عزت کی بھی عکاسی کرتی ہیں۔ انہیں اپنی زندگی کے مختلف پہلوؤں میں تعاون، محبت اور حمایت کی ضرورت ہوتی ہے۔ اس دن کا مقصد مردوں کو وہ عزت اور قدر فراہم کرنا ہے جس کے وہ مستحق ہیں، تاکہ وہ اپنی مشکلات کا سامنا کر سکیں اور اپنی زندگی میں توازن پیدا کر سکیں۔
علاوہ ازیں، مردوں کے حقوق اور ان کی ذمہ داریوں کے بارے میں آگاہی پیدا کرنا اور ان کے مسائل کو سننا، ایک صحت مند اور متوازن معاشرے کے قیام کے لیے ضروری ہے۔ ان تمام پہلوؤں کو تسلیم کرنے کے بعد ہم ایک ایسا معاشرہ تشکیل دے سکتے ہیں جہاں ہر فرد، خواہ وہ مرد ہو یا عورت، برابر کی عزت اور مواقع حاصل کرے۔