Skip to content

پاکستان میں بیوروکریسی: مسائل، چیلنجز، اور اصلاحات کی ضرورت

شیئر

شیئر

  بیوروکریسی ایک ایسا نظام ہے جس میں حکومت یا ادارے کے فیصلے، پالیسی سازی اور نظم و نسق کو چلانے کے لیے مخصوص تربیت یافتہ سرکاری افسران پر انحصار کیا جاتا ہے۔ بیوروکریسی کے افراد میں وزراء یا سیاسی نمائندے شامل نہیں ہوتے بلکہ ان افسران پر مشتمل ہوتی ہے جو ملک کے مختلف شعبوں میں انتظامی امور سر انجام دیتے ہیں۔ بیوروکریسی کو بعض اوقات انتظامی ڈھانچے کے طور پر بھی دیکھا جاتا ہے جس کا مقصد قانون اور اصولوں کے مطابق حکومتی معاملات کو چلانا ہوتا ہے۔

بیوروکریسی کے کام کرنے کا طریقہ کار کچھ اس طرح ہوتا ہے کہ ہر افسر کو اپنے عہدے اور ذمہ داریوں کے مطابق مخصوص اختیارات دیے جاتے ہیں، اور وہ اپنے دائرہ کار میں رہتے ہوئے فیصلے کرتا ہے۔ یہ نظام عام طور پر اصولوں اور قواعد و ضوابط کی پابندی پر مبنی ہوتا ہے، جس کے ذریعے پالیسیوں پر عمل درآمد کیا جاتا ہے۔ بیوروکریسی کی بنیاد پر ادارے مضبوط ہوتے ہیں کیونکہ ان میں فرد یا گروہ کی بجائے ادارے کے اصولوں کے مطابق چلنے کا رجحان ہوتا ہے۔

پاکستان میں بیوروکریسی کی بنیاد نوآبادیاتی دور سے رکھی گئی، جب برطانوی حکومت نے یہاں انتظامی ڈھانچہ قائم کیا۔ آزادی کے بعد بھی پاکستان میں بیوروکریسی کے اس ڈھانچے کو برقرار رکھا گیا اور افسران کی بھرتی کے لیے سول سروس کا نظام متعارف کروایا گیا۔ سی ایس ایس اور پی سی ایس جیسے امتحانات کے ذریعے سرکاری افسران کا انتخاب کیا جاتا ہے جو کہ انتظامیہ میں مختلف عہدوں پر تعینات کیے جاتے ہیں۔ پاکستان میں بیوروکریسی کے اس ڈھانچے کو چلانے کے لیے وفاقی اور صوبائی سطح پر پبلک سروس کمیشنز کام کرتے ہیں جو مختلف شعبوں کے لیے اہل افسران کو منتخب کرتے ہیں۔

پاکستان میں بیوروکریسی کے اس نظام کو بہت سے چیلنجز کا سامنا ہے جن میں سیاسی دباؤ، بدعنوانی، اور نظام میں شفافیت کی کمی شامل ہیں۔ مزید برآں، بیوروکریسی کے بعض شعبے عمومی مسائل کو حل کرنے کے بجائے خود کو بچانے کی طرف مائل ہو جاتے ہیں۔ عوامی مفاد میں شفافیت اور اصلاحات کی ضرورت بڑھتی جا رہی ہے تاکہ بیوروکریسی میں کارکردگی بہتر ہو اور یہ ادارہ حقیقتاً ملک کی ترقی اور عوام کی فلاح کے لیے کام کر سکے۔

بیوروکریسی اگر شفافیت اور دیانتداری کے اصولوں پر قائم رہے تو یہ ملک کے لیے ایک مضبوط ڈھانچہ فراہم کر سکتی ہے اور ترقی کے لیے اہم کردار ادا کر سکتی ہے۔                                                                                                                                                 پاکستان میں بیوروکریسی کا نظام بہت سے مسائل اور تضادات کا شکار ہے۔ اس نظام میں روایتی طور پر ایسی ثقافت پروان چڑھی ہے جہاں "یس سر یس سر” کا رویہ عام ہے، اور اس سے آگے کام کی اصل انجام دہی میں کمی نظر آتی ہے۔ سرکاری افسران اور ماتحت عملہ عموماً اپنے اعلیٰ افسران کے ہر حکم کو بغیر سوال کے قبول کرتے ہیں، چاہے وہ کسی منطقی یا قانونی بنیاد پر ہو یا نہ ہو۔ اس رویے کا نتیجہ یہ ہوتا ہے کہ افسران اور عملے میں نئی سوچ یا جدید طریقہ کار کو اپنانے کی بجائے وہ روایتی اور پرانا نظام برقرار رکھنے پر زور دیتے ہیں۔

بیوروکریسی کا یہ کلچر نا صرف عوامی فلاحی منصوبوں میں تاخیر اور بدانتظامی کا سبب بنتا ہے، بلکہ یہ اس بات کی نشاندہی بھی کرتا ہے کہ بیوروکریٹس اپنی بنیادی ذمہ داریوں کی بجائے خود کو بچانے اور محفوظ رکھنے کو ترجیح دیتے ہیں۔ اس "یس سر” کلچر کا ایک اور نقصان یہ ہے کہ اختراعی خیالات اور نیاپن کو دبایا جاتا ہے، اور نظام کو بہتر بنانے کی بجائے افسران اپنے عہدے بچانے کی کوشش میں لگے رہتے ہیں۔ نتیجتاً، بیوروکریسی عوامی مسائل کو حل کرنے میں ناکام ہو جاتی ہے۔

پاکستان میں بیوروکریسی کے اس قدیم نظام کے ساتھ سیاسی دباؤ اور ذاتی مفادات بھی جڑے ہوئے ہیں، جس سے اس کی کارکردگی مزید متاثر ہوتی ہے۔ زیادہ تر بیوروکریٹس کو اصلاحات کی بجائے موجودہ پرانے اصولوں پر عمل کرنے میں آسانی محسوس ہوتی ہے۔ یوں ایک غیر فعال نظام کی تشکیل ہوتی ہے جس میں کام کی بجائے محض عہدے اور مرتبے کی حفاظت کی جاتی ہے، اور اصل کام صرف کاغذات پر ہی دکھائی دیتا ہے۔ اس نظام میں تبدیلی لانے کے لیے شفافیت اور احتساب ضروری ہیں تاکہ بیوروکریسی اپنی حقیقی صلاحیتوں کو بروئے کار لاتے ہوئے ملک کی ترقی میں کردار ادا کر سکے۔                                                                                   پاکستان میں بیوروکریسی میں کرپشن ایک بڑا مسئلہ بن چکا ہے جس پر قابو پانے میں مشکلات درپیش ہیں۔ حکومتی محکموں میں بے شمار منصوبے فنڈز مختص کیے جانے کے باوجود تکمیل تک نہیں پہنچ پاتے اور عوام کو کوئی فائدہ نہیں ہوتا۔ اعلیٰ سرکاری افسران اکثر ان ترقیاتی منصوبوں کے پیسوں میں خرد برد کرتے ہیں، اور فنڈز کے استعمال کا حساب دینے میں ناکام رہتے ہیں۔ ایک عام طریقہ یہ ہوتا ہے کہ کسی منصوبے کا بجٹ زیادہ دکھا کر اصل لاگت کو چھپایا جاتا ہے اور بچ جانے والے پیسے افسران کی جیبوں میں چلے جاتے ہیں۔

نیب (قومی احتساب بیورو) کرپشن کو روکنے کے لیے قائم کیا گیا تھا، مگر عوام کے نزدیک یہ ادارہ اپنی کارکردگی میں ناکام ثابت ہوا ہے۔ بدعنوان افسران کو اکثر طاقتور سیاسی حمایت ملتی ہے اور ان کے خلاف کاروائیاں باآسانی رک جاتی ہیں۔ اس کی ایک مثال بلوچستان کے سابق سیکرٹری خزانہ مشتاق رئیسانی کا کیس ہے، جن کے گھر سے کروڑوں روپے نقد برآمد ہوئے، مگر وہ اپنے جرائم کی پوری سزا سے بچ نکلے۔ ایسے واقعات عام ہیں جہاں بدعنوان افسران کو بچانے کے لیے نیب یا عدالتوں میں معاملات کو طول دیا جاتا ہے اور کرپشن کے مرتکب افراد آسانی سے بچ نکلتے ہیں۔

پاکستان میں اکثر ترقیاتی منصوبے، جیسے کہ سڑکوں، پلوں، اور عوامی عمارتوں کے تعمیراتی منصوبے، کرپشن کی نذر ہو جاتے ہیں۔ ان منصوبوں کے فنڈز کا ایک بڑا حصہ افسران اور ٹھیکیداروں کی ملی بھگت سے غائب ہو جاتا ہے اور یہ منصوبے مکمل نہیں ہو پاتے یا انتہائی ناقص معیار کے ساتھ مکمل کیے جاتے ہیں۔ بیوروکریسی میں کرپشن اور سزا نہ ہونے کا یہ کلچر عوامی وسائل کی بربادی اور حکومتی عدم استحکام کا باعث بنتا ہے۔                                                                                                                                         پاکستان میں یہ سوال اکثر ذہنوں میں اٹھتا ہے کہ بے شمار ترقیاتی منصوبوں کے لیے بھاری فنڈز مختص ہونے کے باوجود ترقی کیوں نہیں ہو رہی؟ اس کی ایک بڑی وجہ بیوروکریسی میں کرپشن ہے۔ سیاستدانوں کی کرپشن کی خبریں منظر عام پر آتی رہتی ہیں اور ان کے خلاف کاروائیاں بھی ہوتی ہیں، مگر بیوروکریٹس جو ان منصوبوں کو چلانے میں کلیدی کردار ادا کرتے ہیں، مکمل طور پر اس نظام میں شامل رہتے ہیں اور زیادہ تر کارروائی سے بچے رہتے ہیں۔

پاکستان میں آج بھی وہی بیوروکریسی نظام رائج ہے جو انگریزوں نے 1947 سے پہلے قائم کیا تھا۔ انگریز دور میں بیوروکریسی کا مقصد عوام کی خدمت سے زیادہ اقتدار کو کنٹرول کرنا اور حکومتی طاقت کو برقرار رکھنا تھا۔ بدقسمتی سے، آزادی کے بعد بھی اس نظام کو تبدیل نہیں کیا گیا، بلکہ اسی کو جاری رکھا گیا، اور یہ نظام آج بھی عوامی مسائل کو حل کرنے کے بجائے بیوروکریسی کے مفادات کا محافظ بنا ہوا ہے۔

بیوروکریسی کے افسران اکثر ترقیاتی فنڈز کو غیر ضروری طریقوں سے استعمال کرتے ہیں، اور عوامی منصوبوں کا فائدہ عوام تک پہنچنے سے پہلے ہی کرپشن کی نظر ہو جاتا ہے۔ ان حالات میں عوام کو ترقیاتی منصوبوں کا فائدہ کم ملتا ہے، اور قوم کی ترقی کا سفر رک جاتا ہے۔
پاکستان میں بیوروکریسی کے مسائل کو حل کرنے اور کرپشن کو روکنے کے لیے کئی اقدامات کی ضرورت ہے۔ سب سے پہلے، شفافیت اور احتساب کا نظام مضبوط کرنا ضروری ہے۔ اس کے لیے آزاد اور غیر جانبدار ادارے قائم کیے جائیں جو بیوروکریسی کے کاموں کا احتساب کریں اور ان کی مالی سرگرمیوں کی نگرانی کریں۔ حکومت کو چاہیے کہ بیوروکریٹس کی کارکردگی کو عوامی فلاح کے پیمانوں پر جانچنے کا نظام متعارف کرائے اور سالانہ رپورٹیں جاری کرے۔

مزید یہ کہ، بیوروکریسی میں بھرتیوں کا عمل میرٹ کی بنیاد پر ہو، نہ کہ سفارش یا سیاسی اثر و رسوخ پر۔ اس کے لیے جدید امتحانی اور تربیتی نظام اپنانا ہوگا جس میں صرف وہی افراد آگے بڑھیں جو عوامی خدمت کے لیے موزوں ہوں۔ علاوہ ازیں، سرکاری عہدوں پر تعیناتی کا عمل بھی شفاف ہونا چاہیے تاکہ اختیارات کا غلط استعمال نہ ہو۔

ڈیجیٹلائزیشن کے ذریعے عوامی خدمات کو بیوروکریسی کے کنٹرول سے نکالنا بھی ایک اہم قدم ہے۔ سرکاری کاموں کو آن لائن کیا جائے اور فائلوں کی شفافیت کو یقینی بنایا جائے۔ اس طرح بیوروکریسی کے مختلف شعبوں میں کرپشن اور اختیارات کے ناجائز استعمال کو کم کیا جا سکتا ہے۔

ایک اور اہم پہلو یہ ہے کہ بیوروکریٹس کی کارکردگی کو ان کی ترقی کے ساتھ منسلک کیا جائے، یعنی اگر وہ بہتر کارکردگی دکھائیں تو ان کو ترقی دی جائے اور اگر کرپشن یا غفلت کا مظاہرہ کریں تو سخت کاروائی کی جائے۔ اس سے بیوروکریسی میں مثبت مقابلے کی فضا قائم ہوگی اور عوامی خدمت کا جذبہ فروغ پائے گا۔

بیوروکریسی میں کرپشن کو روکنے کے لیے عوامی آگاہی بھی ضروری ہے۔ عوام کو چاہیے کہ وہ اپنے حقوق سے آگاہ ہوں اور سرکاری محکموں کے کاموں پر نظر رکھیں۔ اس سلسلے میں میڈیا اور سول سوسائٹی کا کردار اہم ہے جو کرپشن کے معاملات کو اجاگر کر کے بیوروکریسی پر دباؤ ڈال سکتے ہیں کہ وہ اپنی ذمہ داریوں کو صحیح طور پر ادا کریں۔

بیوروکریسی کے اختیارات کو محدود کرنے کے لیے ضروری ہے کہ سیاسی اور انتظامی اصلاحات کی جائیں اور ایسے قوانین بنائے جائیں جو عوامی فلاح کو ترجیح دیں اور بیوروکریٹس کو جواب دہ بنائیں۔ جب تک بیوروکریسی میں اصلاحات اور شفافیت نہیں لائی جائے گی، ملک میں ترقی کی رفتار کو برقرار رکھنا مشکل ہوگا

اپنی رائے دیں

متعلقہ پوسٹس

دوسری زبان میں ترجمہ کریں