ڈاکٹر جزبیہ شیریں
پاکستان میں توانائی کا بحران ایک سست رفتار لیکن مسلسل بڑھتی ہوئی عفریت کی صورت اختیار کر چکا ہے، جس نے ملک کے ہر طبقے، خصوصاً غریب اور متوسط آمدنی والے لوگوں کی زندگی کو بوجھل بنا دیا ہے۔ یہ مسئلہ بجلی کی لوڈشیڈنگ اور ناقابل برداشت بلوں سے کہیں زیادہ بڑا ہے۔ دراصل یہ اس بکھرتے ہوئے نظام کی علامت ہے جہاں سیاست کی تکرار میں عوامی مسائل کہیں پیچھے رہ جاتے ہیں۔ دن کے بیشتر حصے میں بجلی کے بغیر زندگی گزارنا عام ہو چکا ہے، اور جب بجلی آتی ہے تو اس کے بل اس قدر بلند ہوتے ہیں کہ کم آمدنی والے گھرانوں کے لیے یہ بوجھ بن جاتے ہیں۔ سیاسی عدم استحکام اور ناقص حکومتی پالیسیاں اس بحران کو مزید پیچیدہ بنا رہی ہیں، جس سے معاشی بدحالی کی صورتحال مزید سنگین ہو رہی ہے۔
حکومتیں آتی ہیں، دعوے کرتی ہیں، مگر لوڈشیڈنگ کا یہ مسئلہ اور بڑھتا ہوا بجلی کا بوجھ عام آدمی کے لیے ویسا ہی رہتا ہے۔ سیاستدان انتخابی مہمات میں سبز باغ دکھاتے ہیں، لیکن ان کا زیادہ وقت پوائنٹ اسکورنگ اور ایک دوسرے پر الزام تراشی میں صرف ہوتا ہے۔ نتیجہ یہ ہے کہ جو وسائل عوامی فلاح پر خرچ ہونے چاہیے تھے، وہ سیاسی رسّہ کشی کی نذر ہو جاتے ہیں۔ یہ بدقسمتی کی بات ہے کہ حکومتیں تو تبدیل ہوتی ہیں لیکن توانائی بحران کا حل بدستور عوام کے لیے ایک دور کا خواب بنا ہوا ہے۔
یہاں عام آدمی کی مشکلات کو نظرانداز نہیں کیا جا سکتا۔ ایک مزدور، جس کی دن بھر کی محنت اس کے بچوں کے پیٹ بھرنے کے لیے بھی کافی نہیں ہوتی، ان بڑھتے ہوئے بجلی کے بلوں کا بوجھ کیسے برداشت کرے؟ ایسے خاندان جو پہلے ہی معاشی مشکلات کا شکار ہیں، ان کے لیے بجلی کا بل ایک خواب کی مانند ہوتا ہے جس کا ادا ہونا ناممکن ہے۔ بجلی کی عدم دستیابی نے چھوٹے کاروبار اور مزدوروں کی روزی پر براہ راست اثر ڈالا ہے، اور یہ اثر شاید کوئی سیاسی حکمران محسوس نہیں کر سکتا۔
دوسری طرف، مہنگائی کے بڑھتے ہوئے طوفان نے بھی لوگوں کی زندگیوں کو مزید مشکل بنا دیا ہے۔ ضروریات زندگی کی قیمتوں میں بے پناہ اضافہ ہو چکا ہے، اور جب اس میں بجلی کے بلوں کا بوجھ بھی شامل ہو جائے تو غریب عوام کے پاس سوائے مایوسی کے کچھ نہیں بچتا۔ ان حالات میں، کیا واقعی کوئی شخص اپنے بچوں کی تعلیم یا صحت پر خرچ کر سکتا ہے؟ اس بحران کا سب سے بڑا شکار وہ بچے ہیں، جنہیں تعلیم کے بغیر ایک بہتر مستقبل کی امید نہیں ہوتی۔
یہ حقیقت ہے کہ پاکستان کے پاس شمسی اور ہوائی توانائی کے بے پناہ مواقع موجود ہیں۔ بلوچستان اور سندھ کے وسیع علاقے سورج کی توانائی سے بجلی پیدا کرنے کے لیے نہایت موزوں ہیں، جبکہ ساحلی علاقے ہوا سے بجلی پیدا کرنے کی صلاحیت رکھتے ہیں۔ لیکن، ان وسائل کو بروئے کار لانے میں ایک بڑی رکاوٹ یہ ہے کہ سیاسی استحکام اور مسلسل پالیسی سازی کا فقدان ہے۔ بیرونی قرضوں، مہنگے ایندھن اور درآمدات پر انحصار نے ملکی معیشت کو تباہ کر دیا ہے، اور عوام اس بھاری بوجھ کو اپنے کندھوں پر اٹھائے ہوئے ہیں۔ معاشی بدحالی کے اس دور میں، بین الاقوامی قرضے بھی اس بحران کو مزید شدید کر رہے ہیں، کیونکہ حکومت کو اپنے مالی وسائل کا بڑا حصہ ان قرضوں کے سود کی ادائیگی میں خرچ کرنا پڑتا ہے۔
یہاں ایک اور پہلو بھی ہے جو توجہ طلب ہے: دیہی علاقوں میں رہنے والے افراد کی مشکلات۔ جہاں شہری علاقوں میں لوگ بجلی کی عدم دستیابی سے متاثر ہیں، وہاں دیہات میں لوگ بنیادی سہولیات کی عدم موجودگی سے دوچار ہیں۔ بجلی کی عدم دستیابی نے نہ صرف ان کے روزمرہ کے معمولات متاثر کیے ہیں، بلکہ ان کی معیشت بھی متاثر ہوئی ہے۔ زرعی مزدور، جن کی معیشت کا انحصار کھیتوں پر ہوتا ہے، جب بجلی نہیں آتی تو ان کے لیے فصلوں کی دیکھ بھال ایک مشکل مرحلہ بن جاتا ہے۔
بنیادی سوال یہ ہے کہ کیا کوئی ایسی قیادت موجود ہے جو عوام کے اس سنگین مسئلے کو سنجیدگی سے حل کرے؟ ہمیں ایک ایسی جامع توانائی پالیسی کی ضرورت ہے جسے کوئی بھی حکومت اور جماعت تبدیل نہ کرے۔ توانائی کے بحران کو حل کرنا آج کی حکومت کا فرض ہے، مگر ایسا لگتا ہے کہ توانائی کے منصوبے محض ایک سیاسی ایجنڈا بن کر رہ گئے ہیں۔ ایک شفاف اور مستقل توانائی پالیسی، جس کا مقصد صرف قومی مفاد ہو، پاکستان کے مستقبل کی روشن ضمانت بن سکتی ہے۔
بجلی کا بحران صرف بجلی کی کمی کا مسئلہ نہیں ہے، یہ اس نظام کی عکاسی ہے جو عوام کو ان کے بنیادی حقوق سے محروم رکھے ہوئے ہے۔ عوامی بیداری اور جوابدہی کے بغیر یہ بحران کبھی حل نہیں ہو گا۔ ہمیں ایک مضبوط، مستقل اور قابل عمل پالیسی کی ضرورت ہے جو پاکستان کے ہر شہری کو روشن مستقبل کا خواب دکھا سکے، تاکہ ہر بچہ، ہر مزدور، اور ہر شہری اس بنیادی سہولت سے محروم نہ رہے جو اس کا حق ہے۔ اگر ہم نے اس مسئلے کی طرف سنجیدگی سے توجہ نہ دی، تو یہ بحران نہ صرف اقتصادی بلکہ سماجی بحران کی صورت اختیار کر سکتا ہے، جو کہ ایک مکمل نسل کو اس کے حقوق سے محروم کر دے گا۔ یہ وقت ہے کہ ہم سب مل کر اس چیلنج کا مقابلہ کریں اور ایک روشن مستقبل کی راہ ہموار کریں