محمد معروف صدیقی
سابق وفاقی وزیر مذہبی امور جناب سردار محمد یوسف کا مجوزہ اقدام ملک کی اقتصادی اصلاحات اور اسلامی تعلیمات کے نفاذ کے لیے ایک اہم سنگِ میل کی حیثیت رکھتا ہے۔ پاکستان کی معیشت کا ایک بڑا حصہ سودی نظام پر انحصار کرتا ہے، جو اسلامی تعلیمات کے بالکل برعکس ہے۔ سود جسے اسلام میں واضح طور پر حرام قرار دیا گیا ہے، نہ صرف روحانی نقصان کا باعث بنتا ہے بلکہ اس سے معاشرتی اور اقتصادی ناہمواریاں بھی پیدا ہوتی ہیں۔ سردار محمد یوسف صاحب کی یہ تجویز ایک ایسی کوشش ہے جو ملک کو سود سے پاک معاشی نظام کی طرف لے جائے گی، جو ایک دیرینہ خواب اور عوام کی دلی خواہش رہی ہے۔
اس ترمیم کی سب سے بڑی خصوصیت یہ ہے کہ اس میں "جس حد تک ممکن ہو” جیسے مبہم الفاظ کو نکال کر "جلد از جلد” جیسے واضح اور قطعی الفاظ استعمال کیے گئے ہیں۔ یہ الفاظ نہ صرف سود کے خاتمے کے حوالے سے ایک واضح سمت کا تعین کرتے ہیں، بلکہ اس بات کو بھی یقینی بناتے ہیں کہ یہ عمل غیر معینہ مدت تک ملتوی نہ کیا جا سکے۔ سردار محمد یوسف صاحب کا یہ موقف کہ سود کے خاتمے کو لازمی طور پر یکم جنوری 2028 تک مکمل کیا جائے، درحقیقت ایک ایسا قدم ہے جو اسلامی نظامِ معیشت کی بنیاد رکھنے میں اہم کردار ادا کرے گا۔
موجودہ آئینی ورژن میں "جس حد تک ممکن ہو” کی اصطلاح سود کے خاتمے کے عزم کو کمزور کرتی تھی، کیونکہ اس کے تحت یہ واضح نہیں تھا کہ سودی نظام کو مکمل طور پر کب اور کیسے ختم کیا جائے گا۔ اس ابہام کی وجہ سے یہ خدشہ تھا کہ سود کے خاتمے کا معاملہ عملی طور پر نظرانداز کر دیا جائے گا، جبکہ اسلامی جمہوریہ پاکستان کی بنیاد اور اس کے آئین میں سود کے خاتمے کو ایک واضح اور حتمی حکم کے طور پر شامل کیا گیا ہے۔
سود کا نظام دنیا بھر میں ایک ظالمانہ اقتصادی طریقہ کار کے طور پر جانا جاتا ہے، جو امیر اور غریب کے درمیان فرق کو بڑھاتا ہے اور معاشرتی ناہمواریاں پیدا کرتا ہے۔ سود کے خاتمے سے نہ صرف اسلامی احکامات کی پیروی ہو گی بلکہ معاشرتی انصاف اور اقتصادی مساوات کے قیام میں بھی مدد ملے گی۔ اسلامی معیشت کا بنیادی اصول یہ ہے کہ دولت کی منصفانہ تقسیم ہو اور اقتصادی لین دین میں استحصال کا کوئی عنصر شامل نہ ہو۔ سود کا خاتمہ اسی اصول کی جانب ایک بڑا قدم ہے، جو معیشت کو زیادہ منصفانہ اور مستحکم بنیادوں پر استوار کرے گا۔
جناب سردار محمد یوسف صاحب کی جانب سے دی گئی یہ ترمیم اس بات کی غمازی کرتی ہے کہ وہ سود کے مسئلے کو حل کرنے میں سنجیدہ ہیں اور چاہتے ہیں کہ پاکستان کی معیشت اسلامی اصولوں کے مطابق ڈھل سکے۔ اس اقدام کے ذریعے ایک مضبوط پیغام دیا جا رہا ہے کہ اسلامی تعلیمات پر عمل پیرا ہوتے ہوئے ہم ایک ایسا معاشرہ تشکیل دے سکتے ہیں جہاں دولت کا ارتکاز چند ہاتھوں میں نہ ہو، اور غریب طبقہ معاشرتی ناانصافی کا شکار نہ ہو۔
جناب سردار محمد یوسف صاحب کی اس جرات مندانہ کاوش کو بھرپور سراہتے ہیں کہ وہ سود جیسے پیچیدہ اور حساس مسئلے کو حل کرنے کے لیے عملی اقدامات اٹھا رہے ہیں۔ ان کی مجوزہ ترمیم آئندہ نسلوں کے لیے ایک ایسی راہ ہموار کرے گی جس سے پاکستان ایک حقیقی اسلامی فلاحی ریاست بننے کی طرف گامزن ہو گا۔ یہ ترمیم اسلامی تعلیمات کی روشنی میں ایک نئی معیشتی حکمتِ عملی کا آغاز ہے، جو نہ صرف پاکستان بلکہ دنیا بھر کے مسلمان ممالک کے لیے ایک مثال بن سکتی ہے۔
ہم دل کی گہرائیوں سے جناب سردار محمد یوسف صاحب کو خراج تحسین پیش کرتے ہیں کہ انہوں نے ایک ایسے اہم اور حساس مسئلے کو حل کرنے کے لیے عملی قدم اٹھایا جس کا تعلق نہ صرف ہماری معیشت بلکہ ہماری مذہبی اور اخلاقی بنیادوں سے ہے۔ ان کی یہ جرات مندانہ کاوش ایک ایسی راہ دکھا رہی ہے جو ہمیں سود سے پاک، عدل و انصاف پر مبنی اسلامی معاشرتی و اقتصادی نظام کی طرف لے جائے گی۔ ہم دعا گو ہیں کہ اللہ تعالیٰ انہیں اس مقصد میں کامیابی عطا فرمائے اور ان کی یہ کوششیں پاکستان کو ایک حقیقی اسلامی فلاحی ریاست میں تبدیل کرنے کا باعث بنیں۔