Skip to content

”نظام عدل کی آؤٹ سورسنگ “

شیئر

شیئر

ہم نے گورے کے دئیے ہوئے اس پورے نظام کا اپنی نا اہلیوں سے رج کر کباڑہ کیا۔ اپنی انیس برس کی وکالت میں آج تک کسی جج کو شہادت قلمبند کرنے سے پہلے اوپننگ سٹیٹمنٹ لیتے نہیں دیکھا۔ لے دے کر مکینکل سے انداز میں شہادت لکھنے کا کام رہ گیا تھا وہ بھی آؤٹ سورس کر دیا گیا ہے۔

حیدر سید

تصویر حیدر سید

ضابطہ دیوانی کے مطابق شہادت قلمبند کرنا صرف اور صرف جج کا کام ہے اور شاید نظام انصاف میں سب سے توجہ طلب کام۔ ضابطہ دیوانی فریقین مقدمہ کو شہادت پیش کرنے سے پہلے ایک اوپننگ سٹیٹمنٹ دینے کا کہتی ہے جس میں انہیں اپنا کیس بیان کرنا ہوتا ہے۔ مقصد یہ تھا کہ شہادت قلمبند کرنے سے پہلے جج کو واقعاتی امور اور تنقیح طلب امور (Facts &issues) کے بارے میں علم ہوجائے اور غیر ضروری شہادت یا جرح کا امکان ختم ہوجائے۔ ضابطہ دیوانی گواہ کی شہادت ہی نہیں بلکہ جج کے مشاہدے کو بھی قلمبند کرنے کا کہتی ہے۔ جیسے کسی گواہ نے کسی سوال پر گھبراہٹ کا مظاہرہ کیا یا جان بوجھ کر متعلقہ بات کہنے سے پرہیز کیا۔ضابطہ دیوانی کے مطابق التواء مقدمہ کا کوئی تصور نہیں ہے۔ ایک بار شہادت شروع ہو جائے تو مقدمے کو روزانہ کی بنیاد پر چلنا ہوگا۔ اس کا مقصد بھی یہی تھا جج کی یادداشت تازہ رہے اور اسے مقدمے کا فیصلہ کرتے ہوئے محض کاغذی پلندے کو پڑھ کر فیصلہ نہ کرنا پڑے بلکہ اس میں اس کی اپنی ججمنٹ بھی شامل ہو۔

کمیشن سے شہادت لکھوانے والا کام پہلے پہل سہولت کے عنوان سے شروع ہوا تھا۔یہ اب ججز، ریڈرز اور تقریبا دو درجن وکلاء کا دھندہ بن چکا ہے۔ پندرہ سو سے شہادت لکھوانے والا کام اب تیس ہزار روپے تک پہنچ چکا ہے۔ (یہ بات واقعاتی طور پر بلکل سچ ہے)۔ ہر عدالت میں جج صاحب یا ان کے ریڈر کی مرضی سے گنتی کے ایک یا دو وکیل روزانہ کی دیہاڑ لگاتے ہیں۔ ریڈروں کو بعد میں ان وکلاء سے سرعام حصہ لیتے بھی دیکھا جاسکتا ہے۔
ایک جج صاحبہ کو دیکھا کہ دیدہ دلیری اپنی خونی رشتہ دار سے اپنی ہی عدالت میں یہ کام کروا رہی ہیں۔

ادھر عدالتوں کا حال یہ ہے کہ سوائے ڈائریکشن کیسز کے باقی مقدمات میں صبح صبح دو دو ماہ کی تاریخیں ڈال دی جاتی ہیں۔ حالانکہ عبوری حکم امتناعی کے مقدمات میں پندرہ دن سے زیادہ کی تاریخ نہیں دی جا سکتی۔ ان ڈائریکشن کے کیسوں کو بھی جو کسی بھی عدالت میں آٹھ سے دس کیس روزانہ سے زیادہ نہیں ہیں اگر ججز خود نہیں نمٹا سکتے تو اتنی بڑی تعداد کے ججز نے کرنا کیا ہے۔

نظام انصاف میں بہتری ججز کو چھوٹے کمروں سے بڑے کمروں میں منتقل کردینے سے نہیں آئے گی۔ اس کے سسٹم کو اون کرنا پڑے گا۔ چاہے اعلی عدلیہ کرے یا بار ایسوسی ایشنز۔

اپنی رائے دیں

متعلقہ پوسٹس

دوسری زبان میں ترجمہ کریں