تحریر شمینہ خان
15 اکتوبر کو دنیا بھر میں منائے جانے والے دیہی خواتین کے عالمی دن کے حوالے سے حکومت سے مطالبہ ہے کہ وہ پاکستان میں بھی اس دن کو دیہی خواتین کے قومی دن کے طور پر ہر سال سرکاری سطح پر منانے کا اعلان کرے۔
دیہی خواتین کا عالمی دن پہلی مرتبہ 15اکتوبر 2008 کو اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی کی قرارداد نمبر 62/123 کے تحت منایا گیا۔ اس دن کے منانے کا پس منظر ان خواتین کی اہمیت کو اجاگر کرنا اور انکے مسائل کے حل کی طرف عالمی توجہ مبذول کرانا ہے جو خواتین دیہی علاقوں میں رہتی ہیں ، زراعت ،کھیتوں اور مقامی معیشتوں میں اہم کردار ادا کرتی ہیں ۔اس دن کے منانے کا مقصد دیہی خواتین کی غربت میں کمی کرنا اور غذای ترقی میں انکے کردار کو تسلیم کرناہے۔
دیہی خواتین دنیا کی غذای پیداوار میں کلیدی کردار ادا کرتی ہیں خاص طور پر ترقی پذیر ممالک میں جہاں وہ کھیتی باڑی،زمین کی دیکھ بھال اور خاندان کی كفالت میں اہم خدمات سر انجام دے رہی ہیں
یہ دن اس بات کی اہمیت کو اجاگر کرتا ہے کہ دیہی خواتین اکثر غربت، صحت کے مسائل اور تعلیم کی کمی جیسے چیلنجز کب سامنا کرتی ہیں اور انکو بہتر زندگی گزارنے کا موقع فراہم کرنے کی ضرورت ہے ۔
دیہی خواتین کے عالمی دن کی نسبت سے پاکستان میں 70 سے زاید اضلاع کی 150 سے زیادہ خواتین رہنماوں نے مشاورتی عمل کے بعد حکومت پاکستان کو تجاویز مرتب کی ہیں ۔
دیہی خواتین رہنماؤں کی جانب سے (PODA) پودا دیہی عورت اتحاد کے پلیٹ فارم سے اپنے مطالبات میڈیا کے ذریعے حکومت، عدلیہ، سیاسی رہنماؤں، اور صنعت کاروں کو پیش کیے گئے اور ان کی توجہ اپنے حقوق اور ترقی کے معاملات کی طرف دلائی گئی۔
دیہی رہنما خواتین نے مطالبہ کیا کہ صنفی مساوات کے فروغ اور سیاسی شراکت کے لئے ہر ضلع کی سطح پر فیصلہ سازی کے ادارے مثلاً مصالحتی اور امن کمیٹیوں اور ووٹرز کی تربیت کی کمیٹیوں میں خواتین کی نمائندگی بڑھائی جائے۔ مقامی حکومتوں کے نظام میں خواتین کی نمائندگی 50 فیصد کی جائے اور تمام صوبوں میں حکومتوں کے اس نظام کو فعال کرتے ہوئے پنجاب میں خاص طور پر بلدیاتی انتخابات جلد ازجلد کروائے جائیں۔
صنفی بنیادوں پر تشدد کے واقعات کی روک تھام کے لیے انہوں نے تجویز دی کہ عورتوں اور بچوں پر بڑھتے ہوئے تشدد کو روکنے کے لئے یونین کونسل کی سطح پر کمیونٹی آگاہی مہم اور پولیس اہل کاروں کو تربیت دی جائے۔ گھریلو تشدد کے خلاف قوانین کو سخت کیا جائے، ان پر عمل در آمد یقینی بنایا جائے اور مزید شیلٹر ہوم بنائے جائیں۔
خواتین کی معاشی ترقی اور خود مختاری کے معاملے پر مطالبہ کیا کہ حکومت زراعت کے شعبے سے وابستہ خواتین کو مردوں کی طرح کسان تسلیم کرے تاکہ وہ سرکاری زرعی سکیموں، مراعات، اور دیگر سہولتوں سے فائدہ اٹھا سکیں۔ ساتھ ہی زمینوں کے ملکیتی حقوق اور وراثتی منتقلی کے عمل میں بھی خواتین کی شرکت کو یقینی بنایا جائے اور لینڈ ریکارڈ سنٹروں میں خواتین سٹاف مثلاً پٹواری اور گرداور کے طور پر بھرتی کیا جائے۔ مطالبہ کیا کہ سندھ میں خواتین کاشتکاروں سے متعلق 2019 ایکٹ کے تحت یونین سازی اور رجسٹریشن کا عمل آسان بنایا جائے اور اس کو باقی صوبوں میں بھی نافذ کیا جائے۔ ہنر مند خواتین کے لئے تمام اضلاع میں بزنس مراکز بنائے جائیں اور وہاں تیار ہونے والی مصنوعات کی فروخت کے لئے ڈسپلے سنٹر اور مارکیٹیں بنائی جائیں۔ خواتین ہنر مندوں کو آسان قرضے بھی فراہم کیے جائیں۔
دیہی خواتین رہنماؤں نے موسمیاتی تبدیلی سے پیدا ہونے والے مسائل پر بھی تشویش ظاہر کی اور کہا کہ حکومتی ادارے اور قومی و بین الاقوامی این جی اوز موسمیاتی تبدیلی سے متعلق اقدامات اور اہداف کے حصول کے لیے فیصلوں اور عملی اقدامات میں دیہی خواتین سے مشاورت پر خصوصی توجہ دیں اور شجر کاری مہمات میں عورتوں کی مقامی تنظیموں کو شامل کیا جائے۔ ایسی فصلیں بھی متعارف کرائی جائیں جو ماحولیاتی تبدیلی کے خلاف زیادہ برداشت رکھتی ہوں۔
دیہی خواتین اور بچیوں کی تولیدی صحت کے بارے میں ان کے مطالبات میں کہا گیا کہ اس معاملے پر آگاہی اور سہولیات کی بہتری کے لئے حکومت کی طرف سے اقدامات کئے جائیں۔اور ہائی سکولوں میں غذائیت اور صحت و صفائی کے بارے میں معلومات دی جائیں۔ انہوں نے مطالبہ کیا کہ حکومت نادرا کے ذریعے فعال انداز میں بچیوں کی پیدائش کی رجسٹریشن اور 18 سال کی عمر میں شناختی کارڈ کے اجراء کو یقینی بنائے۔
دیہی خواتین اور بچیوں کی معیاری تعلیم تک رسائی یقینی بناتے ہوئے انھیں میٹرک کے بعد مفت تعلیم دینے کا بھی مطالبہ کیا گیا تا کہ وہ مالی مشکلات کے باعث تعلیم ادھوری نہ چھوڑیں۔ خواتین نے یاد دہانی کرائی کہ آئین کے آرٹیکل 25 اے کے تحت 5 سے 16 سال کی عمر تک کے بچوں کے لئے مفت تعلیم ریاست کی ذمہ داری ہے۔ انہوں نے کہا کہ بچیوں اور دیہی خواتین کو جدید دور کے مطابق ڈیجیٹل تعلیم اور آگاہی بھی دی جائے۔
ملک میں کم عمری کی شادی کی سرکاری سطح پر حوصلہ شکنی بھی ان خواتین کے مطالبات میں شامل تھی اور انہوں نے کہا کہ اس کے لئے سندھ کی طرح دوسرے صوبوں میں بھی بچیوں کی شادی کی کم از کم عمر 18سال کی جائے۔ اس کے لئے قانون سازی کر کے شناختی کارڈ کی شرط بھی لازمی کی جائے اور جو والدین اور علماء کم عمری میں لڑکیوں کی شادی کریں ان کے لئے سزا مقرر کی جائے۔
مطالبہ کیا کہ پولیس کے اہل کاروں کو لڑکیوں اور عورتوں کے تحفظ کے لئے بنائے گئے قوانین کے بارے میں آگاہی دینے اور جنسی جرائم کی درست تفتیش کی تربیت دی جاے تا کہ ان جرائم میں کمی آ سکے۔
یہ بھی مطالبہ کیا گیا کے لڑکیوں اور بچیوں کی ذہنی اور جسمانی صحت اور اعتماد کے لئے ورزش،کھیل اور سیلف ڈیفنس کی تربیت دینے اور کھیلوں کے لیے جگہ اور سہولیات فراہم کرنے پر بھی زور دیا۔