Skip to content

آ ئیں زندگی کی حقیقتوں کو تسلیم کریں اور بہتر زندگی جینے کی کوشش کریں

شیئر

شیئر

جویریہ ارشد

مرد ہو کہ عورت ہر انسان اپنے اندر جذبات رکھتا ہے۔یہ جذبات اک ایسی توانائی ہیں کہ اگر انکو صحیح طور پر سمجھا نا جائے یا سمت درست نہ رکھی جائے تو فرسٹیشن ،نا امیدی یا محرومی کو جنم دیتے ۔اک انسان جو اپنے جذبات کو کنٹرول کرنے سے معذور ہو٫
فریسٹر یٹڈ ہو،وہ اپنےلیے اور معاشرے کے لیے اک خطرہ ہے ۔معاشرے میں بڑھتی ہوئی عدم برداشت ،فسادات اور آئے روز جنسی درندگی کے بڑھتے کیسز انہی جذبات کی اگاہی نہ ہونےاور گھٹن زدہ ماحول اور فرسودہ روایات سے چمٹے رہنےکے نتائج ہیں ۔یہ حقیقت ہے کہ پاکستانی معاشرے میں Emotional intelligence, جذباتی تعلیم اور آ گاہی نہ ہو نے کے برابر ہے ۔ بدقسمتی سے جو چراغ شمع دے رہے معاشرے کی قدامت پسندی اور مادیت پرستی انہیں بجھانے میں مصروف ہے ۔
کچھ دن قبل وزارت صحت نے قومی اسمبلی میں رپورٹ پیش کی ہے جس میں بتایا گیا کہ پاکستان میں تقریباً آٹھ کروڑ لوگ ڈیپریشن کا شکار ہیں . ہمارے تعلیمی ادارے م سے مٹھو اور ط سے طوطا جہاں رٹا رہے وہاں بچے کو جذباتی ذہانت اور برداشت کی تعلیم کیوں نہیں دی جاتی ؟
رومسیہ فیاض جو سائیکالوجی ڈیپارٹمنٹ ہزارہ یونیورسٹی میں انٹرن شپ کر رہی ہیں ، ان کے مطابق "ڈیپریشن اور اینزائٹی اس معاشرے میں معمول بن چکی ہے۔ وہ کہتی ہیں کہ ان کے پاس کونسلنگ کے لیے آنے والے نوجوان اپنے مستقبل کے حوالے سے خوف زدہ ،احساس کمتری اور معاشرے میں رائج موازنہ کرنے کی روایت کی وجہ سے ما یوسی اور اضطراب کا شکار نظر آتے صرف نوجوان ہی نہیں بلکہ مایوسی اس حد تک پھیل چکی ہے کہ پانچ سال کے بچے بھی محرومی اور اضطراب کا
شکار ہیں ۔
ڈپریشن یا اینگزائٹی
گھریلو تشدد ،مارپیٹ، بےجا توقعات کا بوجھ ،ہر وقت کا موازنہ اور موبائل گیمز کا استعمال بچوں کو ڈیپریس ،انشیس اور پرتشدد بنا دیتے۔ یہی بچے مستقبل میں شدت پسند اور اختلافات کو نہ تسلیم کرنے والے تشدد پسند گروہ بنتے۔ اچھی سکولنگ کرنے والا پڑھا لکھا طبقہ بھی شدت پسندی کی طرف مائل ہے اور دوسروں کے نظریات کو برداشت کرنا،اختلاف رائے کو تسلیم کرنا اپنے علم کی توہین گردانتا ہے۔
سوال یہ ہے کہ دنیا جہاں جذباتی ذہانت کی تعلیم کو فروع دے رہی ہے وہاں پاکستانی معاشرہ اس کی اہمیت سے کیوں نظریں چرائے بیٹھا ہے؟اس سوال کا جواب جاننے کے لیے ماہر نفسیات پروفیسر زعفران جمیل سے ملاقات کی اور وجوہات جاننے کی کوشش کی ،زعفران جمیل کے مطابق ،” ہمارے ہاں لوگوں میں آگاہی کی کمی ہے,لوگ قدامت پسند اور پیری فقیری ،تعویز گنڈھے ، جن سایے وغیرہ کے فضول اور جاہلیت پر مبنی عقائد کی پیروی کرتے ہیں ۔کسی نفسیاتی دباؤ یا بیماری کی صورت میں کسی ماہر نفسیات یا دماغ کے ڈاکٹر سے رجوع کے بجائے جعلی پیروں اور مولویوں سے اپنا معاشی اور نفسیاتی استحصال کرواتے ہیں”۔
مانسہرہ شہر اور ہزارہ ڈویژن سے تعلق رکھنے والے لوگ اپنے ماحولیاتی اثر کے تحت زیادہ شدت پسند اور اور اٹل ہوتے ہیں بات بات پر سخث الفاظ کہنا ،گالم گلوچ کرنا ،مذاق مذاق میں دوسروں کی عزت نفس مجروح کرنے والے کو پوجا جاتا ہے۔ چھوٹی چھوٹی باتوں پر قسمیں کھانا ، غیرت کو ہاتھوں میں لے کر گھومنا ،زرا سی بات پر مرنے مارنے تک آجانا ،اسے غیرت اور بہادری کا نام دے کر اس حقیقت سے کہ وہ نفسیاتی دباؤ کا شکار ہیں ،منہ پھیر لیا جاتا ہے۔
دوران گفتگو انہوں نے بتایا کہ” لوگ اس ڈر سے کہ معاشرہ انہیں پاگل یا حبطی نہ کہے ، ماہر نفسیات کی مدد لینے کے بجائے ،ساری زندگی اذیت میں گزارنے کو ترجیح دیتے ۔ لوگ اس بات سے نابلد ہیں کہ نفسیاتی صحت بھی جسمانی صحت کی طرح ناگزیر ہے ،نفسیاتی پریشانی کا سامنا کرنا اک عام بات ہے ،کوئی پاگل پن نہیں ۔
ان کے مطابق نفسیاتی مسائل کا سب سے زیادہ شکار حواتین طبقہ ہے بڑے شہروں کے مقابلے میں ہزارہ کی حواتین احساس کمتری اور نفسیاتی دباؤ میں زیادہ مبتلا رہتیں۔یہاں کا معاشرہ مہذب اور روایات کی آ ڑ بنا کر عورتوں کو سختی اور گھٹن زدہ ماحول میں رہنے پر مجبور کرتا۔ خواتین کو معاشی طور پر مرد حضرات پر انحصار کرنا پڑتا جس کی وجہ سے وہ اپنے لیے چاہ کر بھی درست فیصلہ نہیں کر سکتیں ۔ ایسے گھٹن ذدہ ماحول میں پرورش پانے والی حواتین عملی زندگی میں زیادہ مشکلات کا سامنا کرتی ہیں۔ ایسی خواتین جو جذباتی مسائل کا شکار ہوں ،ایک صحت مند معاشرے کی پرورش نہیں کر سکتیں۔
اس معاشرے کو اگاہی کی ضرورت ہے،اس لیے کہ نفسیاتی بیماری بھی باقی تمام جسمانی بیماریوں کی طرح ایک بیماری ہے۔ اس کے علاج میں کسی بھی شرمندگی یاعار محسوس کرنے کی بات نہیں ۔ ہمیں یہ سمجھنے کی ضرورت ہے کہ اگر ایسی صورتحال پیش آئے تو یہ محسوس کریں کہ آ پ بیمار ہیں پاگل نہیں۔ زندگی گھٹن میں گزارنے کے بجائے کسی ماہر نفسیات کی مدد لیں۔ اس آگاہی کے لیے زعفران جمیل سائیکالوجی کلب چلا رہے۔ علاوہ ازیں ڈاکٹر جاوید علی مینٹل ہوسپٹل ڈاڈر میں نفسیاتی مسائل پر راہنمائی اور علاج کی سہولت مہیا کرتے ہیں۔
ایک صحت مند معاشرے کے لیےاپنی نئی نسل کی تربیت کی ضرورت ہے حاص طور پر خواتین کے اندر اعتماد اور فیصلہ لینے کی قوت پیدا کرنے کی ضرورت ہے ۔ آئیں اس بیماری کو تسلیم کریں اور زندگی جینے کے راستے پر اگے بڑھیں ۔

اپنی رائے دیں

متعلقہ پوسٹس

دوسری زبان میں ترجمہ کریں