انسانی تاریخ گواہ ہے کہ زلزلوں ، بارشوں اور سیلاب وغیرہ کا آنا کوئی انہونی اور اچھنبے کی بات نہیں۔ یہ زمین اور موسم کے تغیر و تبدل کے قدرتی اور فطری عمل کا نتیجہ ہوسکتا ہے۔
البتہ اس سے نمٹنے کی صلاحیت اور طریقہ کار ہر قوم و ملک اور معاشرے کا اپنا اپنا ہوسکتا ہے۔
جیسے ہم اسلامی تاریخ میں نوح علیہ اسلام کی کشتی کا بارے میں پڑھتے ہیں کے اس وقت سیلاب کے نقصانات سے انسانوں اور دیگر جانداروں کو بچانے کے لیے ایک حکمت عملی اپنائی گئی اسی طرح جدید دور میں قدرتی آفات سے ہونے والے نقصانات کا بندوبست یا ڈیزاسٹر رسک مینجمنٹ DRR کا تصور سامنے آیا اور پوری دنیا میں قدرتی آفات کے نتیجے میں انسانوں کو درپیش مشکلات یا نقصانات کا والیم کم سے کم کرنے کے لیے انتظامی اور سماجی سطح پر مختلف نظام وضع کیے گیے جو ایسے حادثات سے بچاو کے لیے افراد کی صلاحیت اور خطرات سے آگاہی کے حوالے سے مختلف پروگرامز جاری رکھتے ہیں۔
اگر کسی قوم کے پاس ان قدرتی آفات سے نمٹنے کی صلاحیت اور طریقہ کار موجود ہو، تو وہ قوم ان آفتوں کو مواقعوں میں بدل سکتی ہے۔ کیونکہ ان تبدیلیوں میں غورو فکر کا اچھا خاصا سامان موجود ہوتا ہے۔
لیکن اگر کسی قوم و ملک کا اجتماعی زندگی کا انتظامی ڈھانچہ ناکارہ ہو تو یہ مواقع ان کے لیے مصیبت کا ذریعہ بن جاتے ہیں۔ کیوں کہ انکے اجتماعی نظام میں یہ سکت نہیں ہوتی کہ وہ اس کو ڈیل کر سکیں۔
اسی طرح کا ایک ہولناک زلزلہ 8اکتوبر 2005 کو بالاکوٹ میں ہوا۔ جس کے نتیجے میں ہزاروں لوگ لقمہ اجل بن گئے ہزاروں زخمی ہوگئے، سینکڑوں معذور ہوگے اور لاکھوں بے گھر ہوگئے۔ یہ واقع ہونا تھا سو ہوگیا۔
اس کے بعد اس ہر مختلف تبصرے، تجزیے اور نظریے پیش کیے گئے۔ مثلآ ایک عام اور مجموعی رائے تھی کہ یہ اللہ تعالیٰ کی طرف سے عذاب تھا جو اس کی ناراضگی کا اظہار ہے۔ کچھ کی رائے تھی کہ یہ مسلمانوں پر آزمائش ہے اور ایسا وقتاً فوقتاً اللہ کے نیک بندوں کے ساتھ ہوتا رہتا ہے۔
ایک تبصرہ یہ تھا کہ زمین کی پلیٹیں آپس میں ٹکرائیں ہیں جس کی وجہ سے یہ زلزلہ ہوا اور یہ علاقہ ایک ایسی فالٹ لائن پر ہے جس کی پہلے سے وارننگ بھی موجود ہے اور یہ آئندہ بھی اس طرح کی فالٹ لائن پھٹنے سے ہو سکتا ہے۔
تیسری سازشی تھیوری یہ بتائی جاتی رہی کہ یہ علاقہ کسی ایسے ملک کے کسی ٹیکنالوجی کے تجربے کیلئے استعمال ہوا ہے۔ جس کی وجہ سے زلزلہ پیدا ہوا۔
بہرحال یہ قیاس آرائیاں اپنی جگہ پر ان میں سے اس کی کوئی ایک وجہ ہو یا ساری وجوہات ہوں۔ حتمی رائے اب تک ہمارے ہاں کوئی سامنے نہیں آسکی.اس قدرتی آفت کی وجوہات جو بھی ہوں سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ اس حادثہ کے نتیجے میں سامنے آنے والے مسائل کے حل کےلیے ریاستی اور سماجی سطح پر کیا حکمت عملی اپنائی گئی ؟
البتہ اس کے بعد لوگوں کیساتھ جو کچھ اس نظام نے کیا وہ سب کے سامنے ہے جس پر کوئی دوسری رائے نہیں کہ کیسے اس فرسودہ نظام نے اس کو کاروبار کا ذریعہ بنایا اور متاثرہ علاقوں میں بحالی کا کام مکمل ہوا یا نہیں؟ اور سب سے بڑھ کر آئندہ اس طرح کی آفات سے نمٹنے کی کیا کیا حکمت عملی بنائی گئی تاکہ مستقبل میں اس کا تدارک کیسے کیا جائے۔
آج انیس برس گزرنے کے باوجود اس علاقے کا کوئی سٹیٹس کلیر نہیں آیا یہ ریڈ زون ہے کہ نہیں۔
اس کے ہسپتال اور سکول مکمل نہیں ,اس کا بنیادی انفراسٹرکچر جوں کا توں ہے۔ اس کے رہائشیوں کے لئے نیو بالاکوٹ سٹی کا کیا مستقبل ہے؟ وہ بنے گا کہ نہیں؟ لوگوں کو پلاٹ ملیں گے کہ نہیں؟ کوئی ایسی سٹڈی نہیں ہوئی کہ کیا یہ علاقہ اب بھی رہنے کے قابل ہے کہ نہیں ؟۔
سرمایہ داری نظام کا سب سب سے بڑا انسان دشمن نظریہ اور سوچ یہ ہوتی ہے کہ کیسے ان آفتوں اور مصیبت زدہ لوگوں کو کمائی کا ذریعہ بنایا جاسکے۔ یہ نظام اس سوچ کیساتھ مسلسل کنفیوژن پیدا کرتا رہتا ہے تاکہ لوگ کسی نتیجے پر نہ پہنچ سکیں۔اسی کنفیوژڈ صورتحال کا سامنا آٹھ اکتوبر دو ہزار پانچ کے متاثرین زلزلہ دو دہائیوں سے کر رہے ہیں .یہ نظام مسائل کے حل کے بجائے ہر سال اس دن کی مناسبت سے ایک رسمی دعائیہ تقریبات کے کے علاوہ عملی حل دینے سے قاصر ہے ۔جس کی حقیقت پلاسٹک کے اس پھول سی ہے جو نہ مرجھاتا ہے اور نہ خوشبو دیتا ہے۔ضرورت اس امر کی ہے کہ باشعور افراد آبادیاتی دور کے جدید نوآبادیاتی غلامی کے نظام سے چھٹکارہ حاصل کرنے کے لیے منظم جدوجہد کا حصہ بنیں، ہم جب تک اس نظام کی غلامی میں رہیں گے تب تک اس طرح کی قدرتی آفات سمیت دیگر اجتماعی مسائل سے چھٹکارہ ناممکن ہے۔۔