Skip to content

عہد رسالت میں مرد و خواتین کے سماجی اختلاط اور روابط کی جہات

شیئر

شیئر

تحریر ڈاکٹر عرفان شہزاد

ڈاکٹر مظہر یاسین صدیقی کی کتاب ‘رسول اکرم اور خواتین ایک سماجی مطالعہ’ کے تناظر میں

ہمارے ہاں مسلم ذہن علمی سے زیادہ تاریخی، بلکہ شخصی واقع ہوا ہے۔ یہ علم کو استدلال سے زیادہ، شخصی مثال سے سمجھتا ہے۔ علمی بنیادوں پر استوار نتائج اس کے ہاں وہ پذیرائی نہیں پاتے، جو شخصی مثالوں کے ذریعے سےقبولیت پاتے ہیں۔ ایسے علمی نتائج جن کا پیش کار قابل گردن زدنی قرار پاتا ہے، وہی نتائج شخصی مثالوں سے حرز جاں بنائے جا سکتے ہیں۔ شخصی مثالوں میں موجود غیر مطلوب افعال اور رویے بھی محل استدلال اور وجۂ تقلید اور ذوقی معاملات دین کے مطالبات بن جاتے ہیں۔ یہ رجحان عوامی حلقوں میں ہی نہیں، اہل علم کے ہاں بھی پوری شدت کے ساتھ پایا جاتا ہے۔

اس کی ایک نمایاں مثال جناب جاوید احمد غامدی اور مولانا ڈاکٹر محمد یٰسین مظہر صدیقی صاحب کا مر دوں اور عورتوں کے اختلاط سے متعلق دینی تصور ہے، جو روایتی دینی طبقات کے ہاں پائے جانے والے تصور سے مختلف ہے۔ غامدی صاحب کے استدلال کی بنیاد قرآن مجید کے نصوص ہیں، جب کہ صدیقی صاحب اسے سیرت نبوی سے اخذ کرتے ہیں۔ غامدی صاحب نے مرد و زن کے اختلاط کے بارے میں جس متوازن موقف کو علمی استدلال سے پیش کر کے روایتی دینی طبقے سے طعن وصول کیے، مظہر صدیقی صاحب نے اسی تصور کو سیرت کی مثالوں سے مزین کرکے انھی روایتی دینی طبقات سے خراج تحسین حاصل کیا۔

غامدی صاحب نے سورۂ نور (۲۴) کی آیات ۳۰ اور ۳۱ [1]ہ سے استدلال کیا کہ یہاں مردو زن کے اختلاط کے آداب بیان کیے گئے ہیں۔ اس سے پہلی بات یہ معلوم ہوئی ہے کہ مرد و زن کا اختلاط اصلاً اور مطلقاً ممنوع نہیں ، بلکہ آداب کے ساتھ روا ہے۔سورہ میں یہ ہدایات دی گئی ہیں کہ مرد اور خواتین کے اختلاط کے موقع پردونوں کو اپنی نظروں اور اندیشے کی جگہوں کی حفاظت کرنی چاہیے۔ خواتین نے اگر بناؤ سنگھار (زینت) کر رکھا ہو تو انھیں چاہیے کہ اسے ڈھانپ لیں، البتہ اس زیب و زینت میں سے جو عموماً ظاہر اور کھلارہتا ہے، اس کے کھلا رہنے میں کوئی حرج نہیں (اِلَّا مَا ظَهَرَ)۔ یہ اسی اصول پر ہے کہ دین میں کوئی تنگی نہیں ہے۔ اس کھلا رہنے میں چہرے اور ہاتھوں کا کھلا رہنا تمام مفسرین کے نزدیک مسلّم ہے۔ اس کا واضح مطلب یہ ہے کہ اختلاط کے اس موقع پر چہرہ زیب و زینت کے ساتھ بھی کھلا رہ سکتا ہے، چہ جائیکہ چہرے کے پردے کو مسلمہ اسلامی حکم کی حیثیت سے پیش کیا جائے، بلکہ اس سے بھی آگے بڑھ کر ہاتھوں اور آنکھوں تک کو چھپانا مطلوب و مستحسن باور کرایا جائے، بلکہ مرد و خواتین کے اختلاط کو مطلقاً ممنوع اور حرام سمجھا جائے۔ سورہ میں خواتین کو مزید یہ ہدایت بھی دی گئی کہ پاؤں میں اگر کوئی بجنے والا زیور انھوں نے پہن رکھا ہو تو اسے اتارنا ضروری نہیں، البتہ پاؤں اتنے زور سے مار کر نہ چلیں کہ مرد حضرات متوجہ ہوں۔

وحی کا نزول اسی لیے ہوا ہے کہ جن معاملات میں انسان درست نتیجے پر نہیں پہنچ پاتا، وحی اس کی رہنمائی کرتی ہے۔ عورت ہر دور میں مردانہ تعصبات کا نشانہ رہی ہے۔ اس کے پردے کا معاملہ جس افراط و تفریط کا ہدف اب تک ہے، وہ معلوم حقیقت ہے۔ اس لحاظ سے دیکھا جائے تو معلوم ہوتا ہے کہ قرآن مجید میں مرد و زن کے اختلاط سے متعلق یہ متوازن اور معتدل ہدایات خود خدا نے جاری کرنا ضروری سمجھا ہے۔ مختلف تاریخی اور تہذیبی عوامل کے تحت مدتوں میں تشکیل پا جانے والے روایتی مسلم ذہن کے لیے یہ علمی استدلال اور اس پر مبنی نتائج قابل قبول نہ ہوئے۔ ان کے خلاف سورۂ احزاب کی آیات ۳۳ [2]داور ۵۹ [3] سےاستدلال کیا گیا ۔ غامدی صاحب نے آیت ۵۹کے بارے میں توجہ دلائی کہ اس آیت کا سیاق و سباق بتارہا ہے کہ یہ خواتین کے لیے ایک احتیاطی و انتظامی تدبیر اختیار کرنے کی ہدایت تھی اور اس کی وجہ ، جیسا کہ سورہ کا سیاق و سباق بتا رہا ہے، یہ تھی کہ اُس وقت مدینہ میں منافقین نے مختلف حیلوں، بہانوں سے مسلم خواتین کی اذیت رسانی، بہتان طرازی اور چھیڑچھاڑ کی مہم شروع کر رکھی تھی۔ ان کے قطع عذر کے لیے یہ ہدایت دی گئی کہ مسلم خواتین ایک اضافی چادر لے کر گھروں سے نکلیں جو ان کے معزز گھرانے کی خاتون ہونے کی پہچان بن جائے تاکہ منافقین انھیں چھیڑنے کی جرأت نہ کریں اور اگر پھر بھی باز نہ آئیں تو ریاستی طاقت سے انھیں سزا دی جائے۔ یہ گھر سے باہر اوباشوں کی موجودگی کی بنا پر دیا جانے والا حکم تھا۔ جب کہ اسی سورہ کی آیات ۳۲ اور ۳۳ میں انھی منافقین کی، ازواج نبی کے خلاف ریشہ دوانیوں اور شرارتوں کی وجہ سے ازواج نبی کو یہ حکم دیا گیا تھا کہ وہ چونکہ عام خواتین کی طرح نہیں ہیں، اس لیے ان کے لیے حجاب کے خصوصی احکام دیے جا رہے ہیں، جس میں یہ بھی تھا کہ وہ گھروں میں ٹک کر رہیں اور عام خواتین کی طرح باہر کی چلت پھرت ترک کردیں۔ سیرت کے مطالعہ سے بھی ثابت ہوتا ہے کہ ازواج نبی کا خصوصی حجاب عام خواتین استعمال نہیں کرتی تھیں۔ جس خاتون سے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نکاح فرماتے، اس کو ازواج نبی میں تب ہی شمار کیا جاتا جب یہ معلوم ہوتا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اسے خصوصی حجاب کرا دیا ہے[4] ۔ حضرت ریحانہ بنت شمعون نے اسی بنا پر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے حبالۂ عقد میں آنے سے معذرت کر لی تھی کہ وہ اس خصوصی حجاب کی پابندی اختیار نہیں کرنا چاہتی تھیں[5]۔ حجاب کا یہ خصوصی حکم ازواج نبی کے لیے اس لیے بھی قابل عمل تھا کہ ان کے معاش اور دیگر ضروریات کا بندوبست فے کی زمینوں کی آمدنی سے کر دیا گیا تھا۔ مدینے کی عام خواتین نے کبھی حجاب کے ان خصوصی احکام کو نہیں اپنایا جن پر عمل کا حکم ازواج نبی کو دیا گیا تھا۔ وہ اپنی علمی، معاشی ضرورتوں اور سماجی روابط کے تقاضوں سے گھروں سے باہرآتی جاتی رہیں، جیسے پہلے آتی جاتی تھیں۔

قرآن مجید سے معلوم کیے گئے یہی نتائج فکر، سیرت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے عملی نمونوں سے ڈاکٹر مظہر یٰسین صدیقی صاحب نے اپنی کتاب ’’نبی اکرم اور خواتین: ایک سماجی مطالعہ‘‘ (شائع کردہ: نشریات، لاہور) میں سیرت رسول اور سیرت صحابیات کی مثالوں سے پیش کیے ہیں، جنھیں خاصی پذیرائی ملی اور یہ اس کے مستحق بھی ہیں۔ اپنے ان تحقیقی مضامین کو انھوں نے ’’گمشدہ اوراق سیرت‘‘ کا عنوان دیا ہے، جس کا ایک حصہ یہ کتاب ہے۔ انھوں نے سیرت کے وہ پہلو نمایاں کیے ہیں جو اس سے پہلے اس طرح نمایاں ہو کر سامنے نہ آسکے، حالاں کہ یہ سب مواد سیرت کے بڑے بڑے واقعات کے پہلو بہ پہلو موجود تھا، مگر یک گونہ اوجھل تھا۔

یہاں ان کی کتاب سے چند اقتباسات پیش کیے جاتے ہیں۔ کتاب کے ابتدائیہ میں لکھتے ہیں:

’’اختلاط مردو زن کے باب میں ہماری سوچ بالعموم منفی رہتی ہے اور اس کے لیے ہماری ناقص تربیت اور ناقص تر معلومات ذمہ دار ہیں جو صدیوں کے مردانہ توہمات کی پیدا کردہ ہیں۔‘‘ (۱۱)
مظہر صدیقی صاحب نے نہایت با ادب، پروقار اور پر اعتماد انداز میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی خواتین سے ملاقاتوں کا ڈیٹا اکٹھا کر کے بیان کیا ہے۔ مکی دور کےایسے متعدد واقعات نقل کر نے کے بعد وہ لکھتے ہیں:

’’مکی خواتین کی زیارات نبوی کا ایک فقہی اور قانونی نکتہ یہ ہے کہ ان میں محرم اور غیر محرم دونوں قسم کی خواتین طاہرات شامل تھیں۔ محرمات میں پھوپھیاں، رضاعی بہنیں، اور بھانجیاں ،بھتیجیاں وغیرہ شامل تھیں۔ غیر محرم خواتین پھوپھی زاد، خالہ زاد، چچا زاد بہنیں اور بعض دوسری رشتہ دار جیسے سالیاں اور غیر رشتہ دار خواتین شمار کی جا سکتی ہیں۔‘‘ (۱۲)
’’انصاری خواتین کے گھروں میں‘‘ کے عنوان سے بھی متعدد واقعات نقل کرنے کے بعد ان کا خلاصہ یوں بیان کیا ہے:

’’رسول اکرم ﷺ ان کے گھروں میں بکثرت جایا کرتے تھے۔ ان کے علاوہ ان کی خواتین مطہرات سے بھی ملتے، ان سے کلام و گفتگو فرماتے تھے، ان کے ساتھ کھاتے پیتے، ان کی میزبانی اور مدارات قبول فرماتے تھے۔ دوپہر سر پر آ جاتی تو ان ہی کے گھروں میں قیلولہ فرماتے تھے۔ رات چھا جاتی تو کبھی کبھی شب بسری بھی فرماتے تھے۔ خواتین انصار اور خاتونان مدینہ مہر و محبت کی پتلیاں تھیں اور اسلامی عقیدت اور نبوی محبت سے سرشار بھی۔ وہ آپﷺ کا سر دباتی تھیں، بالوں میں چمپی کرتی تھیں اور دوسری خدمات انجام دیتی تھیں۔ آپﷺ کے وجود مسعود اور پاکیزہ جسم اطہر کا گلاب جیسا پسینہ جمع کر لیتی تھیں، موئے مبارک ہاتھ آ جاتے تو سنبھال کر تبرک جان کر سینت لیتی تھیں۔ انصاری خواتین سے رسول اکرم ﷺ کے سماجی روابط پر ایک تحقیقی کتاب لکھی جا سکتی ہے۔‘‘ (۲۳)
صدیقی صاحب نے بخاری شریف کی ایک روایت کا ذکر بھی کیا ہے، جس کا متن حضرت اسماء بنت ابو بکر رضی اللہ عنہا، زوجہ حضرت زبیر بن العوام رضی اللہ عنہ کی زبانی یہ ہے:

’’زبیر رضی اللہ عنہ کی وہ زمین جو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے انھیں دی تھی، اس سے میں اپنے سر پر کھجور کی گٹھلیاں گھر لایا کرتی تھی۔ یہ زمین میرے گھر سے دو میل دور تھی۔ ایک روز میں آ رہی تھی اور گٹھلیاں میرے سر پر تھیں کہ راستے میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے ملاقات ہو گئی۔ آں حضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ قبیلۂ انصار کے کئی آدمی تھے۔ آں حضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے مجھے بلایا۔ پھر ( اپنے اونٹ کو بٹھانے کے لیے ) کہا: ’’اخ اخ‘‘۔ آں حضرت صلی اللہ علیہ وسلم چاہتے تھے کہ مجھے اپنی سواری پر اپنے پیچھے سوار کر لیں، لیکن مجھے مردوں کے ساتھ چلنے میں شرم آئی اور زبیر رضی اللہ عنہ کی غیرت کا بھی خیال آیا۔ زبیر رضی اللہ عنہ بڑے ہی باغیرت تھے۔ حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم بھی سمجھ گئے کہ میں شرم محسوس کر رہی ہوں۔ اس لیے آپ آگے بڑھ گئے۔ پھر میں زبیر رضی اللہ عنہ کے پاس آئی اور ان سے واقعہ کا ذکر کیا کہ آں حضور صلی اللہ علیہ وسلم سے میری ملاقات ہو گئی تھی۔ میرے سر پر گٹھلیاں تھیں اور آں حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ آپ کے چند صحابہ بھی تھے۔ آں حضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنا اونٹ مجھے بٹھا نے کے لیے بٹھایا، لیکن مجھے اس سے شرم آئی اور تمھاری غیرت کا بھی خیال آیا۔ اس پر زبیر نے کہا کہ اللہ کی قسم ! مجھ کو تو اس سے بڑا رنج ہوا کہ تو گٹھلیاں لانے کے لیے نکلے، اگر تو آں حضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ سوار ہو جاتی تو اتنی غیرت کی بات نہ تھی (کیونکہ اسماء رضی اللہ عنہا آپ کی سالی اور بھاوج، دونوں ہوتی تھیں)۔‘‘ (بخاری، رقم ۵۲۲۴)
مدینے کے مخلوط سماجی اجتماعات کے بارے میں صدیقی صاحب لکھتے ہیں:

’’شادی بیاہ، عقیقہ اور وفات وغیرہ پر صحابہ اور صحابیات کے مخلوط اجتماع ہوتے تھے۔‘‘ (۱۶۹)
صدیقی صاحب،کسب معاش کے ہر شعبہ میں خواتین کی آزادانہ اور بھرپور شمولیت کا ذکر تے ہیں۔ تجارت و کاروبار سے لے کر مزدوری اور بازار میں خرید و فروخت سے لے کر گھر گھر جا کر اشیا کی خرید و فروخت کرنے والی خواتین کے بارے میں معلومات فراہم کی ہیں۔ حضرت شفاء کو آپ نے بازار کی نگران افسر کے طور پر تعینات کیا تھا (۱۵۶)۔

گانے بجانے والی خواتین کا ایک طبقہ بھی تھا جو لوگوں کو اپنے گانے سے لطف اندوز کرتا اور پیسے کماتا تھا (عورتوں کا حق خرید و فروخت اور کسب معاش۱۳۹- ۱۵۴)۔ انھی میں میت پر ماتم و نوحہ کر کے پیسے کمانے والیاں بھی تھیں۔ اس طبقے کا، البتہ خاتمہ کر دیا گیا (۱۵۴، بہ حوالہ بلاذری ۱/۳۶۰- ۳۶۱)، کیونکہ نوحہ گری کی مذمت کی گئی ہے، مگر گانے بجانے والیوں کو گوارا کیا گیا۔ ان میں سے بعض خواتین نے خود رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے سامنے کئی بار اپنے فن کا مظاہرہ بھی کیا۔ تاہم جن صحابہ کے مزاج میں سختی تھی، جیسے حضرت عمر رضی اللہ عنہ، ان کے سامنے وہ گانے بجانے سے جھجکتی تھیں۔ ایک روایت، جس کا ذکر صدیقی صاحب کی کتاب میں نہیں ملا ،وہ ہے ناچنے والے حبشیوں کا ایک تماشا، جو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت عائشہ کو دیر تک کرایا۔

حضرت رفیدہ یا کعیبہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا کے بارے میں لکھتے ہیں کہ وہ مستقل جراح و طبیب نبوی تھیں۔ مسجد کے صحن میں ان کا خیمہ مستقل طور پر لگا رہتا تھا جہاں وہ علاج کیا کرتی تھیں اور آپ ان سے مسلسل ملاقاتیں فرماتے تھے (۱۱۸)۔

صدیقی صاحب ذکر کرتے ہیں کہ جنگوں میں نہ صرف خواتین زخمیوں کو سنبھالتیں، بلکہ ان کو ان کے گھروں تک پہنچانے کی مشقت بھی کرتی تھیں۔اپنے اہل تعلق مرد و خواتین کی بیماری میں دونوں طبقات ایک دوسرے کی عیادت کیا کرتے تھے۔ امام بخاری نے ’’کتاب المرضی‘‘ میں ایک باب، ’’عیادۃ النساء الرجال‘‘ کا باب باندھا ہے، جس میں وہ ام درداء کا ایک انصاری جو مسجد میں رہتے تھے، کی عیادت کا ذکر کرتے ہیں۔

معاش اور کاروبار کے سلسلے میں مرد اور خواتین کے تعامل کے بارے میں مظہر صدیقی صاحب لکھتے ہیں:

’’خواتین مرد تاجروں، خوردہ فروشوں سے خریداری کرتی تھیں اور مرد حضرات متعدد تاجر بی بیوں سے ان کا سامان تجارت خریدتے تھے۔ متعدد مردوں نے خاتون تاجرات سے مضاربت، اجرت اور اشتراک کی بنیاد پر کاروبار کیا اور ان کے گماشتے تک بننے کی جرأت کی۔ باغات، کھیتوں اور اموال میں دونوں کے شانہ بشانہ کام کرنے اور زرعی پیداوار بڑھانے کے کاموں میں حصہ لینے کا پکا ثبوت ہے۔‘‘ (۱۷۰)
نکاح و طلاق میں خواتین کی آزادی انتخاب کے متعدد واقعات کے حوالے دے کر لکھتے ہیں:

نہ صرف ثیبہ (شوہر دیدہ)، بلکہ کنواری لڑکیوں کے نکاح، جو ان کی پسند کے خلاف کیے گئے، رسول اللہ کی عدالت سے رد کروائے گئے (۱۷۴)۔ اِسی طرح خواتین کی شکایت معقول پا کر آپ نے ان کے مطالبے پر ان کے شوہروں سے ان کے نکاح فسخ کرا دیے۔

صدیقی صاحب علامہ ابن حجر عسقلانی کے حوالے سے بہ صراحت لکھتے ہے کہ حجاب کے حکم کے بعد بھی ایسے واقعات ملتے ہیں (۱۶۷)۔ حقیقت یہ ہے کہ حجاب کا کوئی ایسا عمومی حکم کبھی نازل نہیں ہوا جو مردوں اور عورتوں کی ایک دوسرے سے معروف و پر وقار انداز کی سماجی ملاقاتوں کو بھی ممنوع ٹھیراتا ہو۔ حجاب کا خصوصی حکم ازواج نبی کے لیے ان کے خصوصی مقام و مرتبے کی وجہ سے دیا گیا تھا اور عام خواتین کو گھر سےنکلتے وقت ایک اضافی چادر ان کی پہچان قائم رہنےکا حکم تھا تاکہ منافقین کے پاس یہ عذر نہ رہے کہ انھوں نے انھیں عام خاتون یا لونڈی وغیرہ سمجھ کر ہلکا لے لیا تھا۔ یہی وجہ ہے کہ مظہر صدیقی صاحب کو حجاب کے حکم سے پہلے اور بعد میں صحابیات کی سرگرمیوں میں کوئی فرق نہیں ملا، بلکہ بقول ان کے آیت حجاب کے بعد ان کی سرگرمیوں میں اضافہ دیکھنے میں آیا۔

ہر قسم کے لوگوں سے تشکیل پایا ہوا ایک زندہ سماج انسانی کم زوریوں سے مبرا نہیں ہوتا۔ صدیقی صاحب نے اس پہلو کو بھی خوبی سے نمایاں کر کے بتایا ہے کہ اس سے بھی دین و شریعت کی رہنمائی کا کیا خیر برآمد ہوا ہے۔ تاہم، زنا اور ریپ کے واقعات پر سیرت کے باب میں جو رہنمائی ملتی ہے، وہ اس کتاب میں نظر نہیں آئی۔ اس موضوع زیر بحث سے متعلق ایک اہم اور چشم کشا واقعہ ایک خاتون کے ریپ کا ہے جو نماز فجر کو جاتے ہوئے ان کے ساتھ پیش آیا۔ خاتون کی تنہا گواہی پر ایک شخص کو مجرم ٹھیرا کر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی عدالت سے اس کی سزا کا فیصلہ بھی صادر ہوا۔ اس پر مجمع میں سے ایک شخص کھڑا ہوا اور اعتراف جرم کرتے ہوئے بتایا کہ اصل مجرم وہ ہے، ایک بے گناہ کو اس کے جرم کی سزا نہ دی جائے۔ خاتون اندھیرے کے باعث اصل مجرم کو پہچان نہ پائی تھی۔ اس سے یہ معلوم ہوتا ہے کہ واقعاتی شہادت اگر ایک عورت کی گواہی پر مشتمل ہو تو وہ بھی عدالت کے لیے قابل قبول ہو سکتی ہے۔ دوسری بات یہ معلوم ہوئی کہ اس گھناؤنے حادثے کے باوجود خواتین کے لیے مسجد میں نماز کے لیے آنے پر کسی پابندی کا اعلان نہیں کیا گیا۔ ریاست نے مجرم کو سزا دی، مگر مرد کی جارحیت کی سزا عورت کو محبوس یا دفاع پر مجبور کر کے نہیں دی۔ اس موقع پر دفاعی نفسیات اختیار کرنا متاثرہ فریق میں خوف اور عدم اعتماد پیدا کرنے اور مجرموں کی حوصلہ افزائی کا سبب بنتے ہیں۔ بدقسمتی سے ہمارے ہاں اس دفاعی نفسیات کے تحت مردوں کی ہر زیادتی اور جارحیت کے مقابلے میں عورت کو تہ در تہ دفاع پر مجبور کیا جاتا ہے۔

ڈاکٹر یٰسین مظہر صدیقی نے عہد رسالت کے مسلم سماج کا جو تصور روایات کی روشنی میں پیش کیا ہے، وہ ایک زندہ، متحرک اور فطری سماج کا نمونہ ہے، جس پر بعد کے ادوار کی وہ قانونی ، فقہی اور ثقافتی پابندیاں نظر نہیں آتیں جن پرہمارے روایتی دینی طبقے کی طرف سے اصرار کیا جاتا ہے۔

یہ بھی ایک تناقض ہے۔ ہمارا روایتی دینی طبقہ اس لحاظ سے ’’روایتی دینی‘‘ کی تعریف پر بھی پورا نہیں اترتا کہ دور رسالت کی سماجی دینی روایت سے اس کا کوئی حقیقی تعلق نہیں ہے۔ یہ جن دیرینہ روایات کو ’’اسلامی‘‘ سمجھ کر سینے سے لگائے ہوئے ہے، وہ درحقیقت جاگیردار اشرافیہ کی روایات ہیں۔ ہندوستان کی جاگیردار اشرافیہ میں بھی ان روایات پر شد ت سے عمل کیا جاتا رہا ہے۔ یہ ان کی تہذیبی اقدار تھیں کہ اشراف کی خواتین کا گھروں سے باہر نکلنا، غیر مردوں سے کسی بھی لحاظ سے ملاقات کرنا سخت معیوب سمجھا جاتا تھا۔ ان کا بازاروں میں جانا ممنوع تھا۔ خریداری کے لیے تجار ان کی دہلیز پر آتے اور اشیا خدام کے ہاتھوں ان کے سامنے رکھی جاتیں جن سے انھیں انتخاب کرنا ہوتا تھا۔ ان کےخدام خواتین ہوتیں یا خواجہ سرا، جب کہ عرب خواتین مرد غلام بھی رکھتی تھیں اور مزدور بھی۔ اپنے کاروبار کے لیے انھیں مضاربت اور شراکت پر شریک کاروبار بھی کرتی تھیں ۔ یہ معاملات وہ خود طے کرتی تھیں۔ جاگیردار اشرافیہ کی خواتین کے آنے جانے کے لیے پالکی استعمال کی جاتی تھی جس کو چاروں طرف سے ڈھانپا جاتا تھا۔ عرب کے گھروں میں زنانہ اور مردانہ بھی الگ الگ نہیں ہوتے تھے، مگر ہندوستان میں یہ الگ الگ ہیں۔ سورۂ احزاب میں جہاں ازواج مطہرات کو منافقین کے پروپیگنڈے اور سکینڈل سازی کی مہم کی وجہ سے حجاب کے خصوصی احکامات دیے گئے، وہاں بھی عام مردوں کے لیے یہ گنجایش تھی کہ وہ آپ کے گھر میں جب کھانے کے لیے آتے تھے تو پردے کی اوٹ سے ازواج سے کوئی چیز مانگ سکتے تھےس[6]۔ مگر ہندوستانی جاگیردار اشرافیائی سماج میں اس قسم کی حرکت پر لڑائی، بلکہ قتل بھی متوقع تھا۔ عورت کی کمائی کو چھوٹے طبقے والوں کی مجبوری گردانتے ہوئے اسے معیوب سمجھنا اسی طبقے کی ذہنیت ہے۔ اسی ذہنیت نے خواتین کا مسجد آنا ممنوع اور معیوب قرار دیا۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے صریح حکم کہ خدا کی بندیوں کو مسجد آنے سے مت روکو، اور سیرت کی مثالوں کے برخلاف کچھ صحابہ کی طرف سے سرسری تبصروں سے اس ممانعت کا پورا جواز پیدا کر لیا گیا، حالاں کہ خود انھوں نےخواتین پر پابندی عائد نہیں کی تھی۔ اور اب خواتین کا مسجد میں آناحرام نہیں تو مکروہ تحریمی کے درجے میں ہے۔ عورت پر عدم اعتماد جو اس طبقے کی خصوصیت ہے، اس کا برملا اظہار فتاویٰ میں یوں کیا گیا ہےکہ عورت کا دل رقیق ہوتا ہے، وہ قاری کی آواز پر فدا ہو سکتی ہے، اس فتنے کے ڈر سے اس کے لیے گھروں میں نماز ادا کرنا ہی بہتر ہے۔ اس روایت میں اس بات پر فخر کیا جاتا ہے کہ ان کی عورتوں نے تمام عمر کسی نامحرم کا چہرہ نہیں دیکھا اور ان کی آواز کسی نامحرم نے کبھی نہیں سنی۔ عورت کی آواز کے پردے کی بدعت اسی تہذیب کا شاخسانہ ہے۔ ان کے نزدیک عورت کا وجود ایک چلتا پھرتا فتنہ ہے جسے سات پردوں میں چھپا کررکھنا ضروری ہے۔

یہ روایات، اقدار اور تصورات خدا کے دین اور عہد رسالت کے سماج کے لیے محض اجنبی ہیں، جنھیں دین داری کی مثالی صورت بنا کر اس طبقے کے اور اس طبقے سے متاثر علما نے پیش کیا۔ہمارا دینی طبقہ اس لحاظ سے البتہ روایتی ہے کہ یہ ہندوستان کی جاگیردارانہ اشرافیائی روایات کا امین ہے۔ اسے اسلام یا عہد رسالت اور صحابہ کی روایت سے اس کا کوئی تعلق نہیں ہے۔

مرد و خواتین کے اختلاط کے مسئلے پر غامدی صاحب کا اسلوب مسئلے کو تعلیمی اور معروضی انداز میں پیش کرنے کا ہے، جب کہ مظہر صدیقی صاحب کی تحریر سیرت کے اسلوب میں محبت و عقیدت کی چاشنی لیے ہوئے ہے۔ محبت رسول میں وہ اگر یہ بھی لکھ جائیں کہ گذشتہ سیرت نگاروں نے خواتین سے متعلق معلومات کو مردانہ تعصب کی بناپر نظر انداز کیا جسے وہ اب سامنے لا رہے ہیں تو اسے سیرت کی گراں قدر خدمت سمجھتے ہوئے، ان کی قدر میں مزید اضافہ ہوتا ہے کہ رسول اللہ کی سیرت کے یہ پہلو بھی انھوں نے نمایاں کیے۔ یہ سوال پھر نہیں پوچھا جاتا کہ چودہ سو سال میں کسی کو یہ سب نظر نہیں آیا تو انھیں کیسے نظر آ گیا۔ جو باتیں مردو زن کے اختلاط کے حوالے سے جمہور کی طرف سے چلی آ رہی ہیں، وہ غلط کیسے ہو سکتی ہیں۔یہ اس لیے نہیں ہوا کہ جو مانا گیا تو وہ بھی شخصی بنیادوں پر مانا گیا تھا اور اب جو باور کرایا جا رہا ہے، وہ بھی شخصی بنیاد پر باور کرایا جا رہا ہے۔اس بار چونکہ شخصیت خود رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی ہے اور معلومات بھی درست تر ہیں، اس لیے وہی موقف جو غامدی صاحب کی طرف سے قرآن کی بنیاد پیش کرنے کے باوجود رد ہوا، وہ سیرت کی بنیاد پر پذیرائی پا گیا۔

اپنی نہایت وقیع کتاب کا اختتام صدیقی صاحب نے جن الفاظ پر کیا ہے، اس مضمون کا اختتام بھی انھی الفاظ پر کیا جاتا ہے:

’’سیرت و حدیث اور تاریخی واقعات، بلکہ قرآنی آیات سے بھی یہ حقیقت ثابت ہوتی ہے کہ اسلامی حدود و شرعی قیود کے ساتھ مردوزن کے ارتباط اورصنفی اختلاط کی پوری اجازت تھی اور نہ صرف اجازت تھی، بلکہ وہ ایک سماجی روایت بھی تھی جسے رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم اور صحابہ کرام کی متواتر سنت کا پشتہ حاصل تھا۔ مردو زن کے اختلاط و ارتباط کا اصل اصول اور صحیح طریقہ یہی طریق نبوی اور انداز صحابہ تھا، نہ بعد کے خودپسند اور دقت پرست علماو فقہا کا طریقہ اور نہ ہی جدت طراز اور اباحت پسند سماجی دانشوروں کا بے محابا اور بے سلیقہ فکر و عمل۔دنیاوی فلاح و مسرت اور اخروی بہبود و نجات صرف سنت نبوی اور تعامل صحابہ میں ہے۔‘‘ (۲۰۵)


[1]۔ ’قُلْ لِّلْمُؤْمِنِيْنَ يَغُضُّوْا مِنْ اَبْصَارِهِمْ وَيَحْفَظُوْا فُرُوْجَهُمْﵧ ذٰلِكَ اَزْكٰي لَهُمْﵧ اِنَّ اللّٰهَ خَبِيْرٌۣ بِمَا يَصْنَعُوْنَ. وَقُلْ لِّلْمُؤْمِنٰتِ يَغْضُضْنَ مِنْ اَبْصَارِهِنَّ وَيَحْفَظْنَ فُرُوْجَهُنَّ وَلَا يُبْدِيْنَ زِيْنَتَهُنَّ اِلَّا مَا ظَهَرَ مِنْهَا وَلْيَضْرِبْنَ بِخُمُرِهِنَّ عَلٰي جُيُوْبِهِنَّﵣ وَلَا يُبْدِيْنَ زِيْنَتَهُنَّ اِلَّا لِبُعُوْلَتِهِنَّ اَوْ اٰبَآئِهِنَّ اَوْ اٰبَآءِ بُعُوْلَتِهِنَّ اَوْ اَبْنَآئِهِنَّ اَوْ اَبْنَآءِ بُعُوْلَتِهِنَّ اَوْ اِخْوَانِهِنَّ اَوْ بَنِيْ٘ اِخْوَانِهِنَّ اَوْ بَنِيْ٘ اَخَوٰتِهِنَّ اَوْ نِسَآئِهِنَّ اَوْ مَا مَلَكَتْ اَيْمَانُهُنَّ اَوِ التّٰبِعِيْنَ غَيْرِ اُولِي الْاِرْبَةِ مِنَ الرِّجَالِ اَوِ الطِّفْلِ الَّذِيْنَ لَمْ يَظْهَرُوْا عَلٰي عَوْرٰتِ النِّسَآءِﵣ وَلَا يَضْرِبْنَ بِاَرْجُلِهِنَّ لِيُعْلَمَ مَا يُخْفِيْنَ مِنْ زِيْنَتِهِنَّﵧ وَتُوْبُوْ٘ا اِلَي اللّٰهِ جَمِيْعًا اَيُّهَ الْمُؤْمِنُوْنَ لَعَلَّكُمْ تُفْلِحُوْنَ ‘((اے پیغمبر)، اپنے ماننے والوں کو ہدایت کرو کہ (اِن گھروں میں عورتیں ہوں تو) اپنی نگاہیں بچا کر رکھیں اور اپنی شرم گاہوں کی حفاظت کریں۔ یہ اُن کے لیے زیادہ پاکیزہ طریقہ ہے۔ اِس میں شبہ نہیں کہ جو کچھ وہ کرتے ہیں، اللہ اُس سے خوب واقف ہے۔ اور ماننے والی عورتوں کو ہدایت کرو کہ وہ بھی اپنی نگاہیں بچا کر رکھیں اور اپنی شرم گاہوں کی حفاظت کریں اور اپنی زینت کی چیزیں نہ کھولیں، سواے اُن کے جو اُن میں سے کھلی ہوتی ہیں اور اِس کے لیے اپنی اوڑھنیوں کے آنچل اپنے گریبانوں پر ڈالے رہیں۔ اور اپنی زینت کی چیزیں نہ کھولیں، مگر اپنے شوہروں کے سامنے یا اپنے باپ، اپنے شوہروں کے باپ، اپنے بیٹوں، اپنے شوہروں کے بیٹوں، اپنے بھائیوں، اپنے بھائیوں کے بیٹوں، اپنی بہنوں کے بیٹوں، اپنے میل جول کی عورتوں اور اپنے غلاموں کے سامنے یا اُن زیر دست مردوں کے سامنے جو عورتوں کی خواہش نہیں رکھتے یا اُن بچوں کے سامنے جو عورتوں کی پردے کی چیزوں سے ابھی واقف نہیں ہوئے۔ اور اپنے پاؤں زمین پر مارتی ہوئی نہ چلیں کہ اُن کی چھپی ہوئی زینت معلوم ہو جائے۔ ایمان والو، (اب تک کی غلطیوں پر) سب مل کر اللہ سے رجوع کرو تاکہ تم فلاح پاؤ )۔

[2]۔ ’وَقَرْنَ فِيْ بُيُوْتِكُنَّ وَلَا تَبَرَّجْنَ تَبَرُّجَ الْجَاهِلِيَّةِ الْاُوْلٰي وَاَقِمْنَ الصَّلٰوةَ وَاٰتِيْنَ الزَّكٰوةَ وَاَطِعْنَ اللّٰهَ وَرَسُوْلَهٗ اِنَّمَا يُرِيْدُ اللّٰهُ لِيُذْهِبَ عَنْكُمُ الرِّجْسَ اَهْلَ الْبَيْتِ وَيُطَهِّرَكُمْ تَطْهِيْرًا‘، ’’تم اپنے گھروں میں ٹک کر رہو اور اگلی جاہلیت کی سی سج دھج نہ دکھاتی پھرو۔ اور نماز کا اہتمام رکھو اور زکوٰۃ دیتی رہو اور اللہ اور اُس کے رسول کی اطاعت پر قائم رہو۔ اللہ تو یہی چاہتا ہے، اِس گھر کی بیبیو کہ تم سے (وہ) گندگی دور کرے (جو یہ منافق تم پر تھوپنا چاہتے ہیں) اور تمھیں پوری طرح پاک کر دے۔ ‘‘ ( ۳۳:۳۳)۔

[3]۔ ’يٰ٘اَيُّهَا النَّبِيُّ قُلْ لِّاَزْوَاجِكَ وَبَنٰتِكَ وَنِسَآءِ الْمُؤْمِنِيْنَ يُدْنِيْنَ عَلَيْهِنَّ مِنْ جَلَابِيْبِهِنَّﵧ ذٰلِكَ اَدْنٰ٘ي اَنْ يُّعْرَفْنَ فَلَا يُؤْذَيْنَﵧ وَكَانَ اللّٰهُ غَفُوْرًا رَّحِيْمًا‘، ’’(اِن کی شرارتوں سے اپنی حفاظت کے لیے)، اے نبی، تم اپنی بیویوں اور اپنی بیٹیوں اور سب مسلمانوں کی عورتوں کو ہدایت کر دو کہ (اندیشے کی جگہوں پر جائیں تو) اپنی چادروں میں سے کوئی بڑی چادر اپنے اوپر ڈال لیا کریں۔ اِس سے امکان ہے کہ الگ پہچانی جائیں گی تو ستائی نہ جائیں گی۔ اِس کے باوجود (کوئی خطا ہوئی تو) اللہ بخشنے والا ہے، اُس کی شفقت ابدی ہے۔ ‘‘(۳۳: ۵۹)۔

[4]۔ حضرت صفیہ جوغزوۂ خیبر میں بطور قیدی آئی تھیں، ان کے بارے میں مسلمانوں میں کنفیوژن پیدا ہوئی کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ان کو کس حیثیت سے رکھیں گے۔ اس پر کہا گیا کہ اگر آپ نے انھیں حجاب کرایا تو وہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی ام المومنین ہوں گی، ورنہ آپ کی باندی ۔ آپ جب کوچ کرنے لگے تو آپ نے اپنی سواری کے پیچھے ان کی جگہ بنائی اور انھیں حجاب کرا دیا (بخاری،رقم ۳۱۲۲) ۔

ر عبد اللہ بن عباس رضی اللہ عنہما کہتے ہیں کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کا نکاح اسماء بنت نعمان رضی اللہ عنہا سے ہوا، لیکن رخصتی سے قبل علیحدگی ہو گئی۔ آپ کی وفا ت کے بعد اسماء نے مہاجر بن ابی امیہ سے نکاح کر لیا تو سیدنا عمر نے اس پر انھیں سزا دینا چاہی، (کیونکہ امہات المومنین کے لیے کسی اور سے نکاح کرنا ممنوع تھا)۔ اس پر اسماء بنت نعمان نے یہ دلیل پیش کی:

واللہ ما ضرب علی حجاب ولا سمیت بأم المومنین.(الاصابہ، ترجمہ اسماء بنت النعمان)
’’بخدا، نہ تو مجھ پر حجاب کا حکم نافذ کیا گیا اور نہ مجھے ام المومنین قرار دیا گیا)۔‘‘
مراد یہ تھی کہ چونکہ رخصتی سے قبل ہی علیحدگی ہو گئی تھی، اس لیے مجھ پر امہات المومنین کے مخصوص شرعی احکام لاگو نہیں ہوتے۔ چنانچہ سیدنا عمر نے انھیں سزا دینے کا فیصلہ واپس لے لیا۔

قیلہ بنت قیس رضی اللہ عنہا کا نکاح نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ بالکل آخری دنوں میں ہوا، لیکن رخصتی سے قبل آپ کا انتقال ہو گیا۔ بعد میں عکرمہ رضی اللہ عنہ نے ان سے نکاح کر لیا تو ابوبکر رضی اللہ عنہ نے کہا کہ میرا یہ جی چاہتا ہے کہ ان دونوں کو ان کے گھر سمیت جلا دوں، لیکن عمر رضی اللہ عنہ نے کہا کہ

ما ھي من أمھات المؤمنین ولا دخل بها ولا ضرب علیها الحجاب. (الاصابہ، ترجمہ قیلہ بنت قیس)
’’وہ امہات المومنین میں سے نہیں۔ اس کی رخصتی نہیں ہوئی اور نہ اس پر حجاب عائد کیا گیا۔‘‘
حجاب امہات المومنین کے لیے خاص تھا ـــــــــ امام طحاوی رحمہ اللہ کی توضیح ملاحظہ ہو:

أَنَّ قَوْلَ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ الَّذِي ذَكَرُوا فِي حَدِيثِ أُمِّ سَلَمَةَ ، لَا يَدُلُّ عَلَى مَا قَالَ: أَهْلُ تِلْكَ الْمَقَالَةِ ، لِأَنَّهُ قَدْ يَجُوزُ أَنْ يَكُونَ أَرَادَ بِذَلِكَ حِجَابَ أُمَّهَاتِ الْمُؤْمِنِينَ ، فَإِنَّهُنَّ قَدْ كُنَّ حُجِبْنَ عَنِ النَّاسِ جَمِيعًا ، إِلَّا مَنْ كَانَ مِنْهُمْ ذُو رَحِمٍ مَحْرَمٍ. فَكَانَ لَا يَجُوزُ لِأَحَدٍ أَنْ يَرَاهُنَّ أَصْلًا إِلَّا مَنْ كَانَ بَيْنَهُنَّ وَبَيْنَهُ رَحِمٌ مَحْرَمٌ، وَغَيْرُهُنَّ مِنَ النِّسَاءِ، لَسْنَ كَذَلِكَ لِأَنَّهُ لَا بَأْسَ أَنْ يَنْظُرَ الرَّجُلُ مِنَ الْمَرْأَةِ الَّتِي لَا رَحِمَ بَيْنَهُ وَبَيْنَهَا، وَلَيْسَتْ عَلَيْهِ بِمَحْرَمَةٍ إِلَى وَجْهِهَا وَكَفَّيْهَا. (شرح معانی الآثار (۴/ ۳۳۲) تحقیق: ڈاکٹر عمار خان ناصر)

[5]۔ الاصابہ، ترجمہ ریحانہ بنت شمعون۔

[6]۔ ’وَاِذَا سَاَلْتُمُوْهُنَّ مَتَاعًا فَسْـَٔلُوْهُنَّ مِنْ وَّرَآءِ حِجَابٍ ذٰلِكُمْ اَطْهَرُ لِقُلُوْبِكُمْ وَقُلُوْبِهِنَّ‘، ’’اور تمھیں جب نبی کی بیویوں سے کوئی چیز مانگنی ہو تو پردے کے پیچھے سے مانگو۔ یہ تمھارے دلوں کے لیے بھی زیادہ پاکیزہ طریقہ ہے اور اُن کے دلوں کے لیے بھی‘‘ (الاحزاب ۳۳ : ۵۳)۔

اپنی رائے دیں

متعلقہ پوسٹس

دوسری زبان میں ترجمہ کریں