Skip to content

پاکستان  کی موجودہ سیاسی  و معاشی کش مکش کے تانے بانے

شیئر

شیئر

پاکستان کی سیاسی و معاشی صورتحال غیر یقینی،شدید اختلافات،اداروں کے ٹکراؤاور جاری اقتصادی چیلنجز کی ایک ملغوبے  کی حیثیت رکھتی ہے۔ اہم سیاسی پیش رفتیں اس کی حکمرانی، سلامتی، اور بین الاقوامی تعلقات کو متاثر کر رہی ہیں۔ ذیل میں موجودہ سیاسی و معاشی  صورتحال کے کچھ تانے بانے  قارئیں کی خدمت میں پیش ہیں؛

1۔ سیاسی عدم استحکام اور طاقت کی جدوجہد انتخابات اور حکومت کی تبدیلی: جنرل انتخابات ابتدائی طور پر 2023 کے آخر میں طے کیے گئے تھے، لیکن قومی مردم شماری اور بعد ازاں حلقہ بندی کے مسائل کی وجہ سے ان میں تاخیر ہوئی۔ نتیجتاً، ایک عبوری حکومت 2024 کے اوائل میں اقتدار میں آئی جو نئے انتخابات تک ملک میں موجود رہی ۔ کشیدہ  سیاسی ماحول میں سیاسی جماعتوں نے قبل از انتخابات  اثر و رسوخ کے لیےتگ و دو شروع کردی تھی  جو بعد از انتخاب ایک اور جہت کے ساتھ جاری ہے۔

2۔ سیاسی جماعتوں کے درمیان اختالافات اور رسہ کشی : دو اہم سیاسی جماعتیں، پاکستان تحریک انصاف (پی ٹی آئی) اور پاکستان مسلم لیگ نواز (پی ایم ایل-ن)، سیاسی منظر نامے پر غالب رہی ۔ سابق وزیر اعظم  کی قیادت میں پی ٹی آئی کو سنگین چیلنجز کا سامنا  کرنا پڑا جو آج تلک جاری و ساری ہے، جن میں قانونی لڑائیاں اور سیاسی دباؤ شامل ہیں۔ خان کو 2023 میں گرفتار کیا گیا، جس سے سیاسی کشیدگی مزید بڑھ گئی اور اس میں آئے روز اضافہ ہوتا جا رہا ہے۔ پی ٹی آئی اور پی ایم ایل-ن کے درمیان رقابت نے ملک میں سیاسی تناؤ کواور  گہرا کر دیا ہے

3۔ اقتصادی بحران مہنگائی اور عوامی بے چینی: پاکستان کو شدید اقتصادی بحران کا سامنا ہے، مہنگائی بلند ترین سطح پر ہے، کرنسی کی قدر میں کمی ہو چکی ہے ، اور بے روزگاری میں اضافہ ہو رہا ہے۔ بنیادی اشیاء، جیسے کہ خوراک اور ایندھن، انتہائی مہنگی ہو گئی ہیں، جس سے عوامی بے چینی میں اضافہ ہوا ہے۔ حکومت مہنگائی پر قابو پانے یا عوام کو موثر ریلیف فراہم کرنے میں ناکام رہی ہے، جس کے نتیجے میں ملک بھر میں مظاہرے اور ہڑتالیں ہو رہی ہیں۔

 آئی ایم ایف کا بیل آؤٹ اور کفایت شعاری کے اقدامات: معیشت کو مستحکم کرنے کی کوشش میں پاکستان نے 2023 میں بین الاقوامی مالیاتی فنڈ (آئی ایم ایف) سے بیل آؤٹ پیکج حاصل کیا۔ تاہم، پیکج کے ساتھ منسلک شرائط، جیسے کہ کفایت شعاری کے اقدامات، سبسڈی میں کمی، اور ٹیکس اصلاحات، نے عوام کی اقتصادی مشکلات میں اضافہ کیا ہے۔ اس سے سیاسی جماعتوں پر بھی دباؤ بڑھ گیا ہے ۔ انتخابات سے پہلے عوام سے کئے گئے وعدے  پرے کرنا اب ان کے بس کی بات نہیں رہی ۔بیل آؤٹ پیکج کا بوجھ عام آدمی پر آن پڑا ہے۔

قرض اور توانائی کا بحران: پاکستان کو بڑھتے ہوئے بیرونی قرض کا سامنا ہے، جس سے حکومت کی ترقیاتی منصوبوں اور سماجی بہبود میں سرمایہ کاری کرنے کی صلاحیت محدود ہو گئی ہے۔ اس کے علاوہ، بجلی کی قلت سے پیدا ہونے والا توانائی کا بحران اقتصادی بوجھ میں اضافہ کر رہا ہے، جو صنعتی پیداوار اور روزمرہ کی زندگی کو متاثر کر رہا ہے۔بجلی کے  نرخوں میں اضافہ سے ماہانہ بل عام آدمی کی رسائی سے باہر ہو چکے ہیں۔ لوگ قرض اٹھا کر اور  اپنے اثاثہ جات فروخت کر کے  بھاری بل ادا کرنے پر مجبور ہیں۔ اور ملک کے مختلف حصوں سے خود کشیوں  کی رپورٹیں بھی کافی حوصلہ شکن ہیں۔

سیکیورٹی صورتحال دہشت گردی اور عسکریت پسندی: 2024 میں پاکستان کو شمال مغربی علاقوں میں عسکریت پسندی کے دوبارہ سر اٹھانے کا سامنا ہے، خاص طور پر افغانستان کی سرحد سے متصل علاقوں میں۔ تحریک طالبان پاکستان (ٹی ٹی پی) اور دیگر انتہا پسند گروپوں نے سیکیورٹی فورسز اور شہریوں پر حملے تیز کر دیے ہیں، جس سے ریاست کے کنٹرول کو چیلنج کیا جا رہا ہے۔ ٹی ٹی پی کی سرگرمیوں نے پاکستان کی سیکیورٹی کے منظر نامے کو مزید پیچیدہ بنا دیا ہے، خاص طور پر خیبر پختونخوا اور بلوچستان میں۔

 افغانستان کا اثر: افغانستان کی صورتحال پاکستان کی اندرونی سیکیورٹی کو متاثر کر رہی ہے۔ 2021 سے طالبان کے افغانستان پر قبضے نے سرحدی کشیدگی کو بڑھا دیا ہے، اور اسلام آباد کابل پر ٹی ٹی پی عسکریت پسندوں کو پناہ دینے کا الزام لگاتا ہے۔ افغان مہاجرین کیچالیس سالوں سے موجودگی اور مزید غیر قانونی آمد نے پاکستان کے سرحدی علاقوں پر دباؤ ڈال دیا ہے، جس سے وسائل کی قلت اور سیکیورٹی کارروائیوں میں پیچیدگی پیدا ہوئی ہے۔

 بلوچستان میں علیحدگی پسند تحریک: بلوچستان ، ریاستی اداروں اور غیر ملکی مفادات، خاص طور پر چین پاکستان اقتصادی راہداری (سی پیک) کے چینی منصوبوں پر حملے کرنے والے علیحدگی پسند گروپوں کا گڑھ بنا ہوا ہے۔ صوبے کی پسماندگی، انسانی حقوق کی خلاف ورزیاں، اور سیاسی شمولیت کی کمی تحریک کو ہوا دے رہی ہیں۔

خارجہ تعلقات امریکہ کے ساتھ تعلقات: امریکہ کے ساتھ تعلقات احتیاط سے طے شدہ ہیں، جو زیادہ تر پاکستان کے افغانستان پر موقف اور دہشت گردی کے خلاف اقدامات سے متاثر ہوتے ہیں۔ امریکہ نے افغانستان میں براہ راست مداخلت کم کر دی ہے، لیکن وہ پاکستان پر زور دیتا ہے کہ وہ ٹی ٹی پی کے خلاف مزید اقدامات کرے۔ واشنگٹن کی انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں اور پاکستان کی سیاسی عدم استحکام پر تشویش نے بھی تعلقات کو پیچیدہ بنا دیا ہے۔

چین پاکستان تعلقات: چین پاکستان کا ایک اہم اتحادی بنا ہوا ہے، خاص طور پر اقتصادی تعاون کے حوالے سے، جیسے کہ سی پیک۔ تاہم، پاکستان کے اندرونی عدم استحکام اور بلوچستان میں سیکیورٹی خدشات کی وجہ سے سی پیک منصوبوں کی رفتار سست ہو گئی ہے۔ ان چیلنجوں کے باوجود، چین پاکستان میں توانائی، انفراسٹرکچر، اور ٹیلی کمیونیکیشن کے شعبے میں سرمایہ کاری کر رہا ہے۔

بھارت پاکستان کشیدگی: بھارت کے ساتھ تعلقات کشیدہ ہیں، اور کشمیر یا سرحدی معاملات پر کوئی اہم سفارتی پیش رفت نہیں ہوئی ہے۔ لائن آف کنٹرول (ایل او سی) پر چھڑپیں وقفے وقفے سے جاری ہیں، اور دونوں ممالک سیکیورٹی، تجارت، اور پانی کی تقسیم کے تنازعات پر اختلافات کا شکار ہیں۔ سفارتی مذاکرات معطل ہیں، اور تعلقات میں کوئی بہتری مستقبل قریب میں ممکن نظر نہیں آتی۔ انڈیا کا لاک ڈاؤن باضابطہ طور پر 5 اگست 2019 کو شروع ہوا، جب جموں و کشمیر کی خصوصی حیثیت کو بھارتی آئین کے آر35آرٹیکل 370 اور کو منسوخ کر کے ختم کر دیا گیا اور اس کے بعد جموں و کشمیر تنظیم نو ایکٹ 2019 متعارف کرایا گیا۔A

عدلیہ اور حکمرانی عدالتی فعالیت اور احتساب: پاکستان کی عدلیہ سیاسی معاملات میں زیادہ فعال کردار ادا کر رہی ہے، خاص طور پر بدعنوانی اور احتساب کے کیسوں میں۔ اس کی وجہ سے عدالتی تجاوز کے الزامات لگے ہیں، خاص طور پر ان کیسوں میں جن میں اہم سیاسی شخصیاتشامل ہیں۔ عدلیہ کے فیصلے اہم کیسوں میں تنازعے کا باعث بنے ہیں، جس سے ملک میں سیاسی تقسیم مزید گہری ہو گئی ہے۔

 بدعنوانی اور احتساب: بدعنوانی پاکستان کی سیاست میں ایک مرکزی مسئلہ بنی ہوئی ہے، جہاں پی ٹی آئی اور پی ایم ایل-ن ایک دوسرے پر مالی بے ضابطگیوں اور بدعنوانی کے الزامات لگاتے ہیں۔ قومی احتساب بیورو (نیب) سیاسی رہنماؤں کے خلاف مقدمات کی پیروی کر رہا ہے، لیکن ان تحقیقات کی غیر جانبداری پر اکثر سوال اٹھائے جاتے ہیں۔ بدعنوانی کے الزامات نے سیاسی اداروں پر عوامی اعتماد کو خاصی حد تک متاثر کیا ہے۔

میڈیا اور سول سوسائٹی میڈیا پر دباؤ: پاکستان میں میڈیا کی آزادی پر بڑھتا ہوا دباؤ ہے۔ حکومت یا فوج پر تنقید کرنے والے صحافیوں کو ہراساں کیا جاتا ہے، قانونی دھمکیاں دی جاتی ہیں، اور کچھ صورتوں میں گرفتار بھی کیا جاتا ہے۔ میڈیا کے لیے ریگولیٹری ماحول مزید سخت ہو گیا ہے، اور پاکستان الیکٹرانک میڈیا ریگولیٹری اتھارٹی (پیمرا) اور الیکٹرانک جرائم کی روک تھام کے ایکٹ (پی ای سی اے) کے ذریعے ڈیجیٹل اور سوشل میڈیا پلیٹ فارمز پر مزید کنٹرول عائد کیے گئے ہیں۔

سول سوسائٹی کو درپیش چیلنجز: سول سوسائٹی کی تنظیمیں خاص طور پر وہ جو انسانی حقوق،  حکمرانی، جوابدہی  اور احتساب ہر کام کرتی ہیں کو ریاست کی طرف سے  پابندیوں کا سامنا ہے۔ان کے لیے کام کرنے کا ماحول زیادہ محدود ہو گیا ہے، خاص طور پر وہ تنظیمیں جو غیر ملکی فنڈنگ حاصل کرتی ہیں، انہیں بڑھتی ہوئی نگرانی اور ضوابط کا سامنا ہے۔ ان چیلنجز کے باوجود، سول سوسائٹی تنظیمیں انسانی امداد، سماجی خدمات کی فراہمی، اور تعلیم، صحت اور خواتین کے حقوق جیسے اہم مسائل پر کام اور وکالت کے کاموں میں فعال ہیں۔

پاکستان کی 2024 کی سیاسی صورتحال سیاسی عدم استحکام، معاشی مشکلات اور سیکیورٹی چیلنجز سے عبارت ہے۔ آنے والے دن ملکی تاریخ میں انتہائی اہم ثابت ہو سکتے ہیں  جو یہ طے کریں گے کہ ملک سیاسی استحکام کی طرف بڑھتا ہے یا موجودہ تقسیم مزید گہری ہوتی ہے۔ اداروں میں درکار فوری نوعیت کی اصلاحات ، غیر جمہوری مداخلتیں ،  معاشی اصلاحات، سرحدی علاقوں کی سیکیورٹیکی صورتحال، اور بین الاقوامی تعلقات—خاص طور پر چین، امریکہ اور افغانستان کے ساتھ—پاکستان کی حکمرانی اور سیاسی منظرنامے کے مستقبل کی تشکیل میں اہم کردار ادا کریں گے۔

مختار جاوید ایک سماجی و ماحولیاتی کارکن، فافن ، این ایچ این، سٹارٹ گلوبل نیٹ ورک، ریڈی پاکستان، سن سی ایس اے نیوٹریشن نیٹ ورک پاکستان  کی ایگزیکٹو کمیٹیوں کا رکن اور خیبر پختونخواہ فارسٹری راونڈ ٹیبل کا ممبر ہے۔

اپنی رائے دیں

متعلقہ پوسٹس

دوسری زبان میں ترجمہ کریں