Skip to content

اسلام آباد ہائی کورٹ کے چھ ججز کا آئی ایس آئی کی طرف سے عدلیہ میں کھلی مداخلت کے خلاف سپریم جوڈیشل کونسل کو آنکھیں کھول دینے والا خط

شیئر

شیئر

خط کا خلاصہ یہ ہے کہ اسلام آباد ہائی کورٹ کے ججز کے ذاتی گھروں کے کمروں میں خفیہ کمرے پاۓ گیے ہیں۔ جو کہ بلب کے پیچھے فٹ کیے گیے تھے اور ان میں آواز کی ریکارڈنگ تک کا بندوست کیا گیا تھا۔

ججز کے قریبی عزیزوں کو مذکورہ ادارے نے متعدد بار اٹھایا اور اسلام آباد ہائی کورٹ کے ججز کو سیاسی کیسز میں اس کے زریعے دھمکانے کی کوشش کی۔

اسلام آباد ہائیکورٹ نے تین ججز نے ایک سیاسی کیس سنا۔ بنچ میں عامر فاروق موجودہ چیف جسٹس اسلام آباد ہائی کورٹ بھی تھا۔ عامر فاروق نے فیصلہ لکھا اور دیگر دو ججز کو دستخط کے لیے بھیجا۔ دونوں ججز نے عامر فاروق سے اختلاف کیا اور اپنا نوٹ لکھا۔ جس پہ آئی ایس آئی نے دونوں ججز پہ حد درجے پریشر ڈالا اور کے قریبی رشتی داروں کو دھمکانے کی کوشش کی۔ ( یہ مشہور ٹیریان کیس کی بات ہورہی ہے)

اسلام آباد ہائی کورٹ کے انسپکشن جج نے اسلام آباد ہائی کے چیف جسٹس کو بتایا کہ ڈسٹرکٹ جوڈیشری پہ آئی ایس ائی کی طرف سے بہت پریشر ڈالا جا رہا ہے۔ یہ بات ٹی روم میں سبھی ججز کے سامنے ڈسکس ہوا۔ ایک ڈسٹرک جج کے گھر میں باقاعدہ کریکر پھیکنے گیے تاکہ اس سے مخصوص کیسز میں فایدہ لیا جاسکے۔ اس جج نے جب مذکورہ ادارے کی شکایت اسلام آباد ہائی کورٹ کو کی دو اسلام آباد ہائی کورٹ کے چیف جسٹس نے اسے ہٹا کر اسلام آباد میں بطور سزا تعینات کر دیا۔

اسلام آباد ہائی کے دیگر ججز نے اسلام آباد ہائی کورٹ کے چیف جسٹس کو خط لکھا اور مذکورہ ادارے کی مداخلت کو اس کے علم میں لانا چاہا مگر اس خط پہ آج تک کچھ نہیں ہوا۔

چند دن قبل اسلام آباد ہائی کے چھ ججز نے ایک بار پھر اسلام آباد ہائی کورٹ کے چیف جسٹس کو ایک اور خط لکھا اور پھر سے مذکورہ ادارے کی مداخلت کی شکایت کی مگر اب تک اس پہ بھی اسلام آباد ہائی کورٹ کے چیف جسٹس کی طرف سے مکمل خاموشی ہے۔

لہذا چھ ججز سپریم جوڈیشل کونسل سے درخواست کرتی ہے کہ اس حوالے سے پورے ملک کی عدلیہ کی ایک اجلاس بلایا جائے اور اس میں بیٹھ کر سب سے پوچھا جائے کہ کیا ان کے ساتھ بھی مذکورہ ادارے نے یہی رویہ اپنایا ہے اور وہاں بھی مداخلت ہورہی ہے۔ اگر ہاں تو اس حوالے سے ایک جامع پالیسی ترتیب دینے کی ضرورت ہے ورنہ عدلیہ کی آزادی ختم ہو رہی ہے۔

یہ اس خط کا خلاصہ ہے۔ مگر اس پورے خط کے مندرجات سے واضح طور پر معلوم ہوتا ہے کہ اسلام آباد ہائی کے چھ ججز نے دراصل خط نہیں بلکہ اپنے چیف جسٹس اور مذکورہ ادارے کے خلاف ایک چارج شیٹ تیار کی ہے۔ اس خط سے اسلام آباد ہائی کورٹ کے چیف جسٹس کا کردار انتہائی متنازع اور قابل اعتراض لگ رہا ہے۔

ان چھ ججز کے نام ذیل میں ہیں:

جسٹس محسن اختر کیانی
جسٹس طارق محمود جھانگیری
جسٹس بابر ستار
جسٹس سردار اعجاز اسحاق
جسٹس ارباب طاہر
جسٹس ثمن رفعت

پیچھے اسلام آباد ہائی کورٹ کے دو ججز کے نام رہ جاتے ہیں۔ جسٹس عامر فاروق کا اور جسٹس میاں گل حسن اورنگزیب۔

اپنی رائے دیں

متعلقہ پوسٹس

دوسری زبان میں ترجمہ کریں