پاکستان تحریک انصاف کے کارکن آج بھی اپنے سیاسی یا نظریاتی مخالفین کو پٹواری ہونے کے طعنہ دیتے ہیں مگر جس صوبے میں تحریک انصاف کی اپنی حکومت ہے اسے پٹواریوں نے مکمل طور پر یرغمال بنا رکھا ہے،کرپشن کے جتنے مواقع اور قانونی اختیارات خیبر پختوا حکومت نے پٹواریوں اور محکمہ مال کے دیگر اہلکاروں کو فراہم کر رکھے ہیں اتنے شاہد پاکستان کی تاریخ میں پہلے کبھی ان کو میسر نہ ہوں ،خیبر پختونخواہ میں آج پٹواری اپنے آپ کو ہر طرح کے قوانین سے بالاتر سمجھتا ہے,زمینوں کے نرخ مقرر کرنے ہوں،ٹیکس کو رشوت میں بدلنا ہو یا پورا پورا ٹیکس چوری کرنا ہو،لاکھوں کی رشوت کے عوض گزشتہ تاریخوں میں انتقال کرنے ہوں یا کسی کی اراضی میں ہیر پھیر کرنی ہو اس وقت صوبہ بھر کی عدالتیں محکمہ مال/پٹواریوں کے پیدا کردہ مسائل کے بوجھ تلے دبی ہوئی ہیں ،یہ مسائل قتل،مقاتلے ،مدمہ بازیوں اور سماجی انتشار کی ایک بڑی وجہ ہیں مگر اس طرف ریاست کے کسی ادارے کی کوئی توجہ نہیں،ضلع مانسہرہ میں تین ستمبر کو محکمہ اینٹی کرپشن نے عوامی شکایت پر چھاپے کے دوران تنویر نامی ایک پٹواری کو پکڑ کے قانونی کروائی شروع کی تھی
تب سے لے کر آج دن تک پٹورای برادری نے ہڑتال کر رکھی ہےا اور آج یکم اکتوبر کو 29 دن گزنے کے باوجود تاحال یہ ہرتال جاری ہے ۔
سوال یہ نہیں کہ تنویر پٹواری قصوروار تھا یابے قصور ؟ سوال یہ ہے کہ ایک سرکاری محکمہ کی کاروائی کے خلاف کیا کوئی دوسرا سرکاری محکمہ پاکستان میں مہینوں تک ہڑتال کیسے کرسکتا ہے؟ اس سے کچھ عرصہ پہلے ایبٹ آباد میں عدالت سے ضمانت خارج ہونے پر ڈاکٹرز کی یونین ہڑتال کر چکی اور ڈاکٹر کی جیل سے رہائی تک مسلسل احتجاجی تحریک چلتی رہی۔
گزشتہ ہفتے لکی مروت میں باوردی پولیس اہلکاروں نے فوج کے خلاف احتجاج کیا اور فوج اور ایجنسیوں کے ضلع سے نکلنے تک اپنے فرائض کی ادائیگی سے انکار کیا ؟
اس ملک میں یہ کیا چل رہا ہے؟ کیا ریاست ایسے چل پائے گی؟
کیا یہ کھلےعام ریاست کو دھمکی نہیں کے ہم جو چاہیں کریں اگر ہم پہ کوئی ادارہ ہاتھ ڈالے گا تو ہم مکمل جنبہ/یونین کو اکھٹا کرکے ہڑتال کر دیں گے اور ریاست کو مجبورکریں گے کے آئندہ ہم پہ کوئی بھی ہاتھ نہ ڈالے اور جیسا ہم کہیں ویسا کرے اور بہت جگہوں پر ایسا ہو بھی رہا ہے۔
سوال یہ ہے کہ پٹواریوں کی ہڑتال کی وجہ سے جن لوگوں کی زمینوں کے انتقال رکے ہوئے ہیں اور انہیں کروڑوں کا نقصان ہو رہا ہے اسکا زمہ دار کون ہے؟
اس سب سے بڑھ کر چونکہ بچوں کا ابھی نیا تعلیمی سال شروع ہو رہا ہے کچھ بچوں کو ڈومیسائل کی ضرورت تھی داخلہ کے لیے انکو جو مسائل پیش آئے انکا زمہ دار کون ہو گا؟
مختلف اضلاع میں بھرتیاں شروع ہیں لوگوں کو ملازمت میں اپلائی کرنے کے لیے ڈومیسائل کی ضرورت پڑتی ہے ایک ڈومیسائل نہ ہونے سے سینکڑوں نوجوان ملازمت کے مواقع سے ہاتھ دھو بیٹھے ان کے اس نقصان کا ازالہ کس نے کرنا ہے؟
اگر کسی بچے کا تعلیمی سال انکی ہڑتال کی وجہ سے ضائع ہو گیا تو اسکا ذمہ دار کون ہو گا؟
ہر لحاظ سی نقصان بے بس عوام کا ہی ہے،جو بے لگام سرکاری ملازمین اور بری طرز حکمرانی متاثر ہیں۔
خیبر پختونخوا کی عوام وزیر اعلی خیبر پختونخوا اور پاکستان تحریک انصاف کی حکومت سے یہ سوال پوچھنے میں حق بجانب ہے کہ آپ نے تو "پٹواری کلچر "سے عوام کی جان چھڑانے کا وعدہ کیا تھا مگر آپ نے تو پورا صوبہ ہی پٹواریوں کے رحم و کرم پر چھوڑ رکھا ہے۔کیا پٹورای برادری ریاست کے محکموں اور آئین و قانون سے بالاتر ہے؟
کیا صوبہ خیبر پختونخواہ میں کرپشن کرناان سرکاری ملازمین کا استحقاق بن چکا ہے؟
پٹواری اس طرح کی ہڑتالوں اور احتجاج سے کیا یہ پیغام دینا چا رہیں ہیں کہ
آئندہ اگر ان پہ کسی محکمہ کو ہاتھ ڈالنے کی جرات نہ ہو ؟
اس صوبہ کے پٹواری اپنے آپ کو آئین و قانون سے بالاتر نہیں سمجھتے اور اگر انہیں واقعی یہی لگتا ہے کہ انکا ساتھی بے قصور ہے تو عدالت میں جائیں کیس کریں اگر واقعی ہی بے گناہ ہوا تو رہا ہو جائے گا اور پھر اس بنیاد پر متعلقہ محکمہ کے خلاف قانونی کاروائی کریں مگر ایسا ہر گز نہیں ہو گا کیوں کہ پٹواری اس ساری صورتحال کا بڑا سٹیک ہولڈر ہے ،اس صوبے میں سیاست اور ریاست کے اہم فیصلے بندوق اور پیسے والے محکمے کرتے ہیں اگرچہ پٹواریوں کے پاس بندوق نہیں مگر پیسہ تو ہے۔
کوئی بھی محکمہ ہو چاہے فوجی ہو یا پٹواری یا کوئی سول ادارہ جیسے صحافی یا وکیل ان سب کو قانون کا پابند اور تابع ہونا اس ریاست کی بقا اور عملداری کے لیے انتہائی اہم۔ہے۔
اس ملک میں سات سکیل سے ایک پٹواری کی ملازمت کا آغاز ہوتا ہے اور ریاست کو علم ہوتا ہے کہ بھرتی کے وقت اس کے پاس یا اس کے خاندان کے پاس کتنے اثاثے تھے اور جب وہ ریٹائرڈ ہو رہا و تو اس کے پاس کتنی جائیداد اور دیگر اثاثے ہیں ؟
عام تاثر یہ ہے کہ جب ایک ایوریج شہری جو پچاس ہزار سے لاکھ روپے تک ماہانہ آمدنی رکھتا ہے وہ گھر کے اخراجات پورے کرنے سے قاصر رہتا ہے مگر اس سے کم تنخواہ لینے والا ایک پٹواری شاہانہ زندگی کیسے بسر کرتا ہے؟ کیا یہ سمجھنا کوئی راکٹ سائنس ہے ؟ غریب تو دور پٹواری آپ کو مڈل کلاس میں بھی نہیں ملتا ۔ہاں جب وہ نئے نئے بھرتی ہوتے ہو تب وہ ایک غریب اور متوسط خاندان کے فرد ہی ہوتے ہیں مگر محکمہ کے اندر تین چار سال گزرتے ہی ان کی ٹور ٹار،رکھ رکھاو اور ٹیپ ٹاپ بدل جاتی ہے اب وہ کسی اور ہی سیارے کی مخلوق نظر آنے لگتے ہیں،یہ سب عوام کی خون پسینے کی کمائی کی بدولت ممکن ہوتا ہے۔
پٹواریوں کے بارے میں یہ بات بھی زبان زد عام ہے کہ ان کا رویہ ایک غریب کے ساتھ مختلف اور
کسی خان اور جاگیر دار یا اعلی سرکاری افسر کے ساتھ مختلف ہوتا ہے ،ظاہر ہے ایک غریب بندے سے کچھ حاصل ہونے کی امید نہیں ہوتی۔
مختلف پٹواریوں کے ساتھ زاتی تجربہ ہے کہ پٹوار خانہ میں اپنے کام کے سلسلے میں آنے والی عوام کے ساتھ پانچ فیصد پٹواریوں کا رویہ ٹھیک ہوتا باقی خود کو اسسٹنٹ کمشنر سطح کے آفیسر سمجھتے ہیں۔ اپنے اختیارات کے زعم میں مبتلا بعض نئے بھرتی ہونے والے نوجوان پٹواری اپنی عمر سے کئی بڑے اپنے سفید ریش افراد کو گھٹیا طریقے سے مخاطب کرتے ہیں۔یہ ساری صورتحال ریاست کی مسلسل کمزور ہوتی گرفت اور زوال پذیر ڈھانچے کی نشاندہی کرتی ہے۔ عوام کی صوبائی حکومت سے درخواست ہے کہ محکمہ مال/پٹواریوں کے ساتھ بھی ریاست کے ملازمین کی طرح سلوک کیا جائے انہیں غیر ضروری قانونی و صوابدیدی اختیارات اور عوام کے استحصال کے بندوق دینے کے بجائے ای گورننس یا Digitlization کے زریعے لینڈ سروس ڈلیوری کا محکمہ بنایا حائے اور ایک جامع SoP تیار کرکے اس محکمہ سے جڑے ہر ملازم کو اس کا سختی سے پابند بنا کر عوام کو جوابدہ بنایا جائے اور ساتھ ساتھ محکمہ کے اہلکاروں کے لیےاخلاقیات کی تربیت کا بھی اہتمام کیا جائے تاکہ جس مقصد کے لیے یہ محکمہ قائم کیا گیا ہے ریاست وہ مقاصد بھی حاصل کرنے کی طرف پیش قدمی کر سکے۔
تحریر فہد ملک