Skip to content

بین الاقوامی یومِ جمہوریت: پاکستانی تناظر

شیئر

شیئر

ہر سال 15 ستمبر کو منایا جانے والا بین الاقوامی یومِ جمہوریت دنیا بھر میں آزادی، مساوات اور سیاسی عمل میں عوامی شمولیت کی جمہوری اقدار کا جشن ہے۔ پاکستان کے لیے، جس کی سیاسی تاریخ اتار چڑھاؤ سے بھرپور ہے، یہ دن جمہوری امنگوں کی یاد دہانی اور جمہوری اداروں کو مضبوط کرنے کی دعوت دیتا ہے۔ تمام تر مشکلات کے باوجود، پاکستان نے ہمیشہ اپنی جمہوری جدوجہد جاری رکھی ہے اور اس جدوجہد میں اہم پیش رفت بھی کی ہے، اور یہ دن اس جمہوری عمل کے تحفظ اور بڑھوتری کو مزید آگے بڑھانے اور جمہور ی عمل کو درپیش رکاوٹوں پر غور کرنے کا موقع فراہم کرتا ہے۔
پاکستان میں جمہوریت کی ایک طویل مگر پیچیدہ تاریخ ہے۔1947 میں قیامِ پاکستان کے بعد، ملک نے ابتدائی طور پر پارلیمانی جمہوریت کا تجربہ کیا، لیکن جلد ہی غیر جمہوری قوتوں اور کچھ شخصی آمرانہ ادوار کی وجہ سے جمہوری تسلسل میں رکاوٹیں پیدا ہوئیں۔ اس کے باوجود، پاکستانی عوام میں جمہوریت کا جذبہ زندہ رہا ہے، جس کا اظہار آزادانہ اور منصفانہ انتخابات، عوامی شرکت اور قانون کی بالادستی کے مطالبات میں ہوتا ہے۔ 2008کے عام انتخابات نے پاکستان کی آخری غیر جمہوری حکومت کا خاتمہ کیا، اور اس کے بعد سے، ملک نے جمہوری حکومتوں کو اپنی مدت پوری کرتے دیکھا ہے، جو جمہوری اداروں کی استقامت کی علامت ہے۔ تاہم، اس راہ میں ابھی بہت مشکلات باقی ہیں۔ سیاسی عدم استحکام، بدعنوانی، اداروں کا آپسی ٹکراؤ اور غیر منتخب اداروں کا اثر و رسوخ جمہوری عمل کو مسلسل نقصان پہنچا رہا ہے۔
پاکستان میں جمہوریت کی موجودہ مشکلات پر نظر ڈالی جائے تو سیاسی عدم استحکام کی وجہ سے پاکستان کی سیاسی فضاء اکثر قلیل مدتی حکومتوں اور قیادت کی تبدیلیوں سے دوچار رہتی ہے۔ مخلوط سیاست اور سیاسی رقابتوں کی وجہ سے قومی مسائل پر اتفاق رائے کا فقدان ہے، جس سے طویل المدتی پالیسیوں کے نفاذ میں رکاوٹ پیدا ہوتی ہے۔
پاکستان نے انتخابی عمل میں بہتری لانے کے لیے کچھ پیش رفت کی ہے، لیکن شفافیت، منصفانہ انتخابات، اور ووٹروں کی محرومی کے مسائل ابھی بھی موجود ہیں۔ حالیہ انتخابی تنازعات اور دھاندلی کے الزامات نے سیاسی عدم استحکام کو جنم دیا ہے، جس سے عوام کا جمہوری اداروں پر اعتماد کمزور ہوا ہے اور خود سیاسی جماعتوں کی طرف سے پارلیمان کا استعمال ایک قانون ساز ادارے کی بجائے طاقت کا ایک اکھاڑہ بن کر گیا ہے۔۔
پاکستان کی جمہوریت پر اکثر غیر جمہوری قوتوں کا اثر و رسوخ رہا ہے، جس نے ملک میں کئی بار مارشل لاء نافذ کیا ہے۔ اگرچہ پاکستان اس وقت سویلین حکومت کے زیرِ انتظام ہے،مگر اب بھی خارجہ پالیسی اور سیکورٹی معاملات میں نمایاں کردار سولین حکومت کے پاس برائے نام ہی رہ گیا ہے، جس سے سویلین حکومت کی خودمختاری پر سوالات اٹھ رہے ہیں۔
پاکستان میں قانون کی حکمرانی کمزور ہے، اور پسماندہ طبقے انصاف تک مساوی رسائی سے محروم ہیں۔ شہری آزادیوں، خاص طور پر اظہارِ رائے کی آزادی ، سول سوسائٹی پر سیکنڈری قوانین اور سخت ریگولیشن کی بھر مار، اور میڈیا کی خودمختاری پر دباؤ بڑھتا جا رہا ہے، جس سے جمہوری رویوں کا فروغ متائثر ہو رہا ہے ، جمہوری اقدار کے فروغ کے لئے بحث مباحثے کی جگہ کم ہو رہی ہے جس سے مضبوط دلیل کی بجائے دھمکیاں، گالم گلوچ اور نفرت انگیز خیالات و روئیے جنم لے رہے ہیں، یہ روئیے ملک کو تشدد ، عدم استحکام اور بد امنی کی جانب دھکیل رہے ہیں۔ ۔
معاشی عدم مساوات اور کمزور حکمرانیکی وجہ سے عوام ترقی کے ثمرات سے مستفید نہیں ہو رہے جس کی وجہ سے جمہوریت کا فروغ مشکل ہوتا جا رہا ہے، اور پاکستان میں معاشی عدم مساوات اس حوالے سے ایک سنگین مسئلہ ہے۔ وسائل کے غلط انتظام، ایک طبقہ کی ملک کے اداروں پر اجارہ داری اور روزگار پر ریٹائرمنٹ کے بعد بھی چمٹا رہنا، مسلسل شفافیت کی کمی، اور بیوروکریسی کی غفلت اور نااہلیت غربت اور بے روزگاری میں اضافہ کرتی ہیں، جس سے عوام کا جمہوری عمل سے تعلق کمزور ہوتا جا رہا ہے اور ملک کا پڑھا لکھا،تعلیم یافتہ نوجوان، ہنر مند، ڈاکٹرز، انجینئرر ، آئی ٹی پروفیشنل اور دیگر پیشوں سے وابسطہ افراد ملک چھوڑ کر جا رہے ہیں۔
ان تمام تر مشکلات کے باوجود، پاکستان کی جمہوری جدوجہد میں امید کی کرنیں اب بھی موجود ہیں۔ سول سوسائٹی، سیاسی کارکنان، اور آزاد میڈیا جمہوری اصلاحات کے فروغ اور جمہوری اصولوں کی حفاظت میں اہم کردار ادا کر رہے ہیں۔ انتخابی اصلاحات، خواتین کے حقوق، اقلیتوں کا تحفظ اور انسانی حقوق کے لیے بڑھتی ہوئیآوازیں اور تحریکیں اس بات کا ثبوت ہیں کہ عوام میں جمہوریت کی اہمیت کا شعور بڑھ رہا ہے۔
حالیہ برسوں میں نوجوانوں کی سیاست میں بڑھتی ہوئی دلچسپی، نچلی سطح کی تنظیموں کا فروغ، اور شفافیت کے لیے مطالبات جمہوری شعور کی پختگی کی نشاندہی کرتے ہیں۔ پاکستان کو اپنی جمہوری پیشرفت کے لیے جمہوری اداروں کو مضبوط بنانے، انتخابی عمل کو شفاف بنانے، اور پسماندہ طبقات کو بااختیار بنانے کی جانب زیادہ توجہ دینے کی ضرورت ہوگی۔موجودہ دور میں سیاسی جماعتوں کا امتحان ہے کہ وہ اپنے آپ کو جمہوری بنائیں، اپنے ورکرز کی تربیت پر زور دیں، پارٹیوں کے اندر جمہوی ڈھانچے قائم کریں، تمام فیصلے جمہوری طرز پر ہوں، غیر جمہوری اقدامات کا حصہ نہ بنیں تاکہ ملک تیزی سے جمہور کی پٹڑی پر آ سکے۔
ملک میں سول سوسائٹیی تنظیمیں اور نیٹ ورکس اپنی تمام تر مشکلات کے باوجود جمہوری عمل کے فروغ میں اپنا اہم کردار ادا کر رہی ہیں، انسانی حقوق ہوں یا انتخابی اصلاحات ، اچھی حکمرانی کا فروغ ہو یا منتخب نمائندوں کی جواب دہی ، یہ تنظیمیں اور نیٹ ورکس جمہوریت کے فروغ و تحفظ اور عوام دوست حکمرانی کے لیئے سرگرم عمل ہیں۔ ہم پر امید ہیں کہ مقامی سطح پر کی جانے والی کوششیں قوم کے وسیع تر جمہوری ڈھانچے کی تشکیل نو اور مضبوطی میں اہم کردار ادا کر یں گی۔
بین الاقوامی یومِ جمہوریت پاکستان کے لیے جمہوری اقدار کے ساتھ وابستگی کی تجدید کا دن ہے۔ پاکستان کے جمہوری سفر میں مشکلات ضرور ہیں، لیکن عوام کی امنگیں ایک زیادہ منصفانہ، جامع، اور جمہوری معاشرے کے قیام کی ہیں۔ شفافیت کے فروغ اور سیاسی شمولیت کو تقویت دے کر پاکستان اپنے جمہوری اداروں کو مضبوط بنا سکتا ہے اور ایک بہتر مستقبل کی راہ ہموار کر سکتا ہے۔
پاکستان جب بین الاقوامی یومِ جمہوریت منا رہا ہے، تو دنیا بھر میں یہ یاد دہانی ہوتی ہے کہ جمہوریت کوئی منزل نہیں بلکہ ایک مسلسل سفر ہے۔ پاکستان کے لیے یہ سفر ایک روشن، مساوی اور بہتر مستقبل کا وعدہ کرتا ہے—جہاں اس کے تمام شہریوں کی آوازیں سنی اور قدردان ہوں۔


مختار جاوید ایک سماجی و ماحولیاتی کارکن، فافن ، این ایچ این، سٹارٹ گلوبل نیٹ ورک
، ریڈی پاکستان، سن سی ایس اے نیوٹریشن نیٹ ورک پاکستان کی
ایگزیکٹو کمیتیوں کا رکن اور خیبر پختونخواہ فارسٹری راونڈ ٹیبل کا ممبر ہے۔

اپنی رائے دیں

متعلقہ پوسٹس

دوسری زبان میں ترجمہ کریں