تمام الحاق کالجز کے طلبہ کو بار کونسل کے ساتھ رجسٹر نہ کرنے اور فیکلٹی کی تفصیلات فراہم نہ کرنے پر پاکستان بار کونسل نے ہزارہ یونیورسٹی کو ایل ایل ایم پروگرام شروع کرنے کی اجازت دینے سے انکار کر دیا
کونسل نے ہزارہ یونیورسٹی کو قانون کی تعلیم (ایل ایل بی) کے نیے داخلوں پر پابندی عائد کرتے ہوئے ماسٹرز (ایل ایل ایم) پروگرام شروع کرنے کی اجازت دینے سے انکار کر دیا ہے۔
پاکستان بار کونسل کی قانونی تعلیم کمیٹی نے 31 اگست 2024 کو اپنی ایک میٹنگ میں اس معاملے پر غور کیا۔ کمیٹی کے سامنے یہ بات آئی کہ پاکستان بار کونسل نے ہزارہ یونیورسٹی کے لیے ایل ایل ایم پروگرام شروع کرنے کے لیے جو شرائط مقرر کی گئی تھیں، ان میں سے کچھ شرائط پوری نہیں کی گئیں، ان شرائط میں پانچ لاکھ روپے کی جرمانہ جمع کرانا، پوری طرح سے قانون کی فیکلٹی (مستقل اور وزٹنگ ) کو ملازم رکھنا اور پاکستان بار کونسل کے دیگر قوانین پر عمل کرنا شامل ہے۔
کمیٹی نے یہ بھی نوٹ کیا کہ یونیورسٹی نے جرمانہ جمع کرا دیا ہے لیکن فیکلٹی کے ممبران کی تعلیمی قابلیت اور عملی تجربے کے بارے میں مکمل معلومات فراہم نہیں کی ہیں۔
ہزارہ یونیورسٹی کی طرف سے ڈپٹی رجسٹرار زکریا خالد اور ہیڈ آف ڈیپارٹمنٹ ڈاکٹر سارہ قیوم کمیٹی کے سامنے پیش ہوئے۔
کمیٹی نے یونیورسٹی کے نمائندوں سے پوچھا کہ فیکلٹی کے ممبران کی تقرری کے خط اور معاہدے کیوں فراہم نہیں کیے گئے۔ یونیورسٹی کے نمائندوں نے بتایا کہ یونیورسٹی کے پاس پانچ الحاق شدہ لاء کالجز ہیں اور ایل ایل ایم پروگرام میں نئے داخلے سال 2024 میں ہوں گے۔
پاکستان بار کونسل نے ہزارہ یونیورسٹی کو یہ واضح کر دیا ہے کہ جب تک وہ تمام شرائط پوری نہیں کرتی، اسے ایل ایل ایم پروگرام شروع کرنے کی اجازت نہیں دی جائے گی۔
کونسل نے ہدایت کی تھی کہ یونیورسٹی اپنے تمام قانون کے طلباء کو 31 جولائی، 2024 تک پاکستان بار کونسل میں رجسٹر کرے اور یونیورسٹی کو یہ ہدایت بھی کی گئی تھی کہ وہ ہر طالب علم سے تین ہزار روپے رجسٹریشن فیس وصول کرے۔
اس کے ساتھ یونیورسٹی کو فیکلٹی کے ممبران کی تعلیمی قابلیت، تجربہ اور تقرری کے خطوط کونسل کو فراہم کرنے کا کہا گیا تھا مگر یونیورسٹی نے اب تک کونسل کی ان ہدایات پر عمل نہیں کیا ہے۔
اس وجہ سے، پاکستان بار کونسل نے ہزارہ یونیورسٹی میں قانون کے نئے داخلے پر پابندی لگا دی ہے۔
کونسل کے مطابق یہ فیصلہ اس لیے کیا ہے کہ یونیورسٹی قانون کی تعلیم کے معیار کو برقرار رکھنے کے لیے ضروری اقدامات نہیں اٹھا رہی ہے۔اس صورتحال سے نکلنے کے لیے ہزارہ یونیورسٹی کو اب فوری طور پر کونسل کی ہدایات پر عمل کرنا ہوگا اور اپنے قانون کے تمام طلباء کو رجسٹر کرانا ہوگا۔ اس کے علاوہ، یونیورسٹی کو فیکلٹی کی معلومات بھی کونسل کو فراہم کرنی ہوگی۔
طلبہ کو خدشہ ہے کہ اگر یونیورسٹی نے ایسا نہیں کیا تو کیا ہوگا؟
اگر یونیورسٹی نے کونسل کی ہدایات پر عمل نہیں کیا تو کونسل اس کے خلاف مزید کارروائی کر سکتی ہے۔یہ فیصلہ طلباء کے لیے اس لیے اہم ہے کہ اگر یونیورسٹی قانون کی تعلیم کے معیار کو برقرار نہیں رکھتی تو اس سے طلباء کا مستقبل متاثر ہو سکتا ہے۔
اس سلسلے میں ہزارہ ایکسپریس نیوز نے ہزارہ یونیورسٹی مانسہرہ کے لاء ڈیپارٹمنٹ کی چئیر پرسن ڈاکٹر سارہ قیوم کے وٹس ایپ نمبر پر میسج اور فون پر کال کر کے ان کا موقف جاننے کی کوشش کی مگر ڈاکٹر سارہ قیوم نے نہ میسج کا رپلائی کیا اور نا ہی کال اٹینڈ کی ۔۔