ہیوگو الکونڈا مون بیونس آئرس کے اقتدار کے ہالوں میں غیر مقبول ہونے کے عادی ہیں۔ لا ناسیون، ارجنٹائن کے ایک معروف روزنامہ اخبار، کے تحقیقاتی ایڈیٹر کے طور پر انہوں نے ایک دہائی سے زیادہ وقت بدعنوانی اور سیاست کے درمیان روابط کی تحقیق میں گزارا ہے۔
نتیجتاً، الکوناڈا مون کو گزشتہ برسوں کے دوران قومی ٹی وی پر "لگ بھگ” غدار قرار دیا گیا، انہیں ان کے ٹیلی فون ٹیپ کرنے کی کوشش کے بارے میں پتہ چلا اور وہ کہتے ہیں کہ ان کی بیوی، بچوں اور والدین کا حکومت کے ایجنٹوں نے پیچھا کیا۔ جن لوگوں کی وہ تحقیقات کرتے ہیں ان کی طرف سے اس قدر ردِ عمل آیا کہ ان کا دعوی ہے کہ وہ "کچھ سالوں سے ٹویٹر پر سب سے زیادہ بےعزت ہونے والے ارجنٹائنی صحافی تھے۔”
"صدر ملیئی، وہ صحافیوں کو آن لائن ہراساں کرنے کے حوالے سے اپنے پیشرووں سے بہت آگے جا رہے ہیں” الکونڈا مون نے وضاحت کی۔” — لا ناسیون کے تحقیقاتی ایڈیٹر ہیوگو الکونڈا مون
"میں کہوں گا کہ میں ٹویٹر پر بے عزت ہونے والا راجر فیڈرر ہوں ۔ نمبر ون،” انہوں نے رائٹرز انسٹی ٹیوٹ فار دی اسٹڈی آف جرنلزم کے ایک حالیہ سیمینار میں مذاق کرتے ہوئے کہا۔ "دائیں اور بائیں بازو سے، میرے سر پر میزائل پھینکے گئے۔”
الکوناڈا مون کی ارجنٹائن کے متنازعہ نئے صدر جیویر ملیئی کے ماضی کی تفتیش کرنے کی کوششوں نے انہیں زیادہ مقبول نہیں بنایا۔ ملیئ ایک "انارکو-سرمایہ دار” ہے،اور اپنی مہم کے دواران موٹر سے چلنے والی ایک آرای چلایا کرتے تھے عوام کو دیکھانے کے لیے کہ وہ کامیابی کی صورت میں وہ کچھ اقتصادی پالیسیوں کے ساتھ کیا سلوک کریں گے۔
ملیئی پریس پر سخت رویہ اپنانے کا وعدہ کرکے عہدے پر آئے تھے: ان کے وعدوں میں، ارجنٹائن کے سرکاری میڈیا اداروں کی نجکاری شامل تھی۔ ان کے الفاظ پر عمل کرتے ہوئے، ان کی حکومت نے مارچ میں ملک کی سب سے بڑی پریس ایجنسی تلام کو بند کر دیا تھا۔
رپورٹرز ودآؤٹ بارڈرز نے متنبہ کیا ہے کہ ملیئی کے ”کسی بھی تنقید کرنے والے صحافی کے خلاف پرتشدد زبانی حملے ارجنٹائن میں میڈیا کی آزادی کے احترام کے لیے خطرہ ہیں۔” اس تنظیم کی تازہ ترین ورلڈ پریس فریڈم انڈیکس نے ملک کو 66واں درجہ دیا ہے جو پچھلے سال کے مقابلے میں 26 پوائنٹس کی تشویشناک کمی ہے۔ الکونڈا مون نے صاف الفاظ میں کہا کہ میڈیا کے لیے ماحول مخالفانہ ہے۔
"صدر ملیئی، وہ صحافیوں کو آن لائن ہراساں کرنے کے حوالے سے اپنے پیشرووں سے بہت آگے جا رہے ہیں” الکونڈا مون نے وضاحت کی۔” وہ سوشل میڈیا پر ٹرولز کے ذریعے [پریس پر] ہونے والے حملوں کا جشن منا رہے ہیں، وہ ان کے حملوں والی ٹویٹس کو لائک یا ریٹویٹ کرتے ہیں۔ وہ صحافیوں سے گریز کر رہے ہیں اور اپنے ہی ٹوئٹر پر صحافیوں کو بلاک کر رہے ہیں۔“
اسی طرح گزشتہ جولائی میں صدر نے الکونڈا مون کو بھی بلاک کر دیا تھا، اور انتخابات سے پہلے، اور ملیئی کے گزشتہ دسمبر میں عہدہ سنبھالنے کے بعد، صدر کے کیمپ سے کسی کے ساتھ بھی انٹرویو کی درخواست کے جواب کا ابھی تک انتظار کر رہے ہیں۔
ارجنٹائن جیسے ملک میں عوامی میڈیا کو نشانہ بنانا، انہوں نے کہا کہ، ملک کے ایک بڑے حصے کو ایک معلوماتی صحرا میں چھوڑنے کی طرح ہے، اس سے مقامی حکام کے خلاف احتسابی رپورٹنگ کی قلت پیدا ہوتی ہے۔ "اگر وہ سرکاری میڈیا کو بند کرنے میں کامیاب ہوتے ہیں تو لاکھوں ارجنٹائنیوں کو معلومات تک رسائی حاصل نہیں ہوگی،“الکونڈا مون نے خبردار کیا، ساتھ ہی ساتھ ”ملک بھر کے سرکاری میڈیا میں کام کرنے والے اچھے صحافیوں اور رپورٹروں“ کے جانے کا بھی نقصان ہوگا۔
نجی میڈیا اداروں میں ریاستی اشتہارات کی کٹوتی بھی کچھ کے لیے ایک وجودی مسئلہ پیدا کر سکتی ہے، انہوں نے خبردار کیا۔
"ارجنٹینا ایک بہت طویل کساد بازاری کا شکار ہے جو یہاں کم از کم گزشتہ دہائی سے موجود ہے،” انہوں نے کہا۔ "یہ ایک ایسا دور رہا ہے جس میں نجی ایڈورٹائزر کم ہو رہے ہیں، میڈیا کے سبسکرائبرز کی تعداد اتنی نہیں بڑھ رہی ہے جتنی ضرورت ہے۔ اس صورت حال میں، اگر ملیئی نجی میڈیا اداروں کے عوامی اشتہارات کو بھی کم کر رہے ہیں… تو یہ ایک حقیقی مسئلہ ہے۔“
ملیئی کی حکومت نے سرکاری میڈیا پلیٹ فارمز پر "پروپیگنڈا” آؤٹ لیٹس ہونے کا الزام لگایا ہے، اور ایک ایسے نظام پر تنقید کی ہے جو صحافت کے لیے سرکاری پیسے کا استعمال کرتا ہے۔ ناقدین نے عوامی میڈیا کے خلاف ان کے اقدامات کو جمہوریت اور آزادی اظہار کی طرف ایک "پسماندہ قدم” قرار دیا ہے۔
لیکن طاقتور افراد کی تحقیقات کرتے ہوئے دو دہائیوں پر محیط اونچ نیچ کا سامنا کرنے کے بعد، الکونڈا مون کے پاس رپورٹروں کے لیے تحقیقاتی رپورٹنگ کرنے والے لوگوں کے خلاف حکومتی دشمنی سے نمٹنے، محفوظ رہنے اور اپنی کہانیوں کے سنے جانے کو یقینی بنانے کے حوالے سے کچھ تجاویز ہیں۔
کسی بڑی کہانی کے شائع ہونےسے پہلے اپنے ساتھیوں کو آگاہ کریں
مہینوں اور کئی دفعہ کسی تحقیق پر سالوں گزارنے کے بعد الکونڈا مون اس بات کو یقینی بناتے ہیں کہ وہ رپورٹنگ کے آخری مراحل میں حریف اخبارات، ریڈیو اور ٹیلی ویژن میں کام کرنے والے اپنے ساتھیوں سے رابطہ کریں تاکہ انہیں کہانی کے بارے میں پہلے سے اطلاع دے سکیں۔ اس سے دو مقاصد پورے ہوتے ہیں: اگر تحقیقات کے شائع ہونے کے بعد ان کے ساکھ پر حملہ ہوتا ہے، تو رپورٹر ز کو پتہ ہوتا ہے کہ وہ اس بارے میں بات کرنے کے لیے انہیں فون کر سکتے ہیں۔ یہ کہانی کو زیادہ پھیلانے میں بھی مدد کرتا ہے۔ ”جب بھی ہم کوئی حساس تحقیقات شائع کرنے والے ہوتے ہیں تو میں کچھ ساتھیوں کو کال کرتا ہوں تاکہ انہیں اندازہ ہو کہ ہم کیا کام کر رہے ہیں،“ انہوں نے وضاحت کی۔ ”انہیں کسی خاص موضوع اور ہماری تحقیقات کے انکشافات کے متعلق تھوڑا سا بتانا، ان کے ٹی وی یا ریڈیو شوز پر آنے کی پیشکش کرنا، اور انہیں کہنا کہ اگر کوئی دی گئی معلومات سے انکار کرنے کی کوشش کرے یا مجھ پر کسی بھی چیز کا الزام لگائے تو ان سے کہنا کہ ان کے پاس میرا فون نمبر ہے، وہ مجھے فون کر سکتے ہیں۔“
اپنا سیفٹی نیٹ بنانے کے لیے ایک نیٹ ورک بنائیں
جب کہ تحقیقاتی رپورٹرز کچھ معنوں میں ایک دوسرے سے مقابلہ کر رہے ہیں، یہ یاد رکھنا بھی ضروری ہے کہ انہیں کیا متحد کرتا ہے۔ حال ہی میں تشکیل پانے والے تحقیقاتی صحافیوں کے ایک قومی اتحاد کی تشکیل کے بارے میں بات کرتے ہوئے، الکونڈا مون نے کہا کہ اگرچہ اس میں محنت درکار ہے، نیٹ ورکنگ کا مطلب ہے کہ آپ کے پاس ایک بڑا سیفٹی نیٹ موجود ہے۔ "اس کا مقصد ایک دوسرے کی مدد کرنا ہے،” انہوں نے وضاحت کی۔ "ہاں، ہم ایک دوسرے سے مقابلہ کر رہے ہیں، لیکن ہم یہ بھی کوشش کر رہے ہیں کہ ہم اپنا کام کرتے ہوئے اکیلے نہ رہیں – تنہا بھیڑیے۔ لیکن فرض کریں: اگر آپ کسی مسئلے کا شکار ہیں تو ہمیں کال کریں۔ اگر آپ کے پاس کوئی ایسی چیز ہے جس کا آپ خود مقابلہ نہیں کر سکتے تو ہمیں کال کریں۔ اگر آپ کو دھمکیاں دی جا رہی ہیں تو ہمیں کال کریں۔“
انہوں نے کہا کہ جب وہ ایک خبر کی وجہ سے حملے کی زد میں آئے تو انہیں نیشنل پریس فورم، ایف او پی ای اے، کولمبیا میں گابو فاؤنڈیشن، اور صحافیوں کے تحفظ کی کمیٹی میں موجود لوگوں سے روابطہ رکھنے کی وجہ سے بہت مدد حاصل ہوئی۔ "میں جو کہنے کی کوشش کر رہا ہوں وہ یہ ہے کہ میں خود اپنا سیفٹی نیٹ اور ایک کمیونٹی کا احساس پیدا کرنے کی کوشش کر رہا ہوں۔ اس لیے جب کوئی طوفان آتا ہے تو میرے پاس ایسے بہت سے نمبر ہوتے ہیں جنہیں فون کر کے میں مدد مانگ سکتا ہوں،” انہوں نے مزید کہا۔
روابط بنائیں — یہاں تک کہ سرحدوں کے پار بھی — جہاں بھی آپ بنا سکتے ہیں
ایسے ممالک جہاں میڈیا کی آزادی کی صورتحال خراب ترین ہوتی جا رہی ہے، وہاں بیرون ملک موجود ساتھیوں اور شراکت داروں کے ساتھ کام کرنا مدد دے سکتا ہے۔ "سرحدوں کو عبور کرنے کی کوشش کریں اور ایسی حدود کو جن کا آپ کو سامنا کرنا پڑ رہا ہے،” الکونڈا مون نے صحافیوں کو مقامی یا بین الاقوامی میڈیا آؤٹ لیٹس کے ساتھ اتحاد پر کام کرنے کا مشورہ دیتے ہوئے کہا۔ "آپ کا مقصد کیا ہے؟ آپ کا مقصد خبروں کو پھیلانا ہے، اگر آپ اپنی کوشش سے ایسا نہیں کر سکتے تو دوسرے آؤٹ لیٹس، دوسرے ساتھیوں سے مدد حاصل کریں۔ ہمارے معاملے میں بعض اوقات ہم، ساتھیوں کا ایک گروپ، ایسی کہانیاں شائع کرتے ہیں جو ہمارے دوست اپنے آؤٹ لیٹس یا اپنے ممالک میں شائع نہیں کر پاتے تھے۔ دوسری صورتوں میں، ہم صرف حدود کو پار کرنے کے لیے خبریں ایک ساتھ 10 مختلف ممالک میں شائع کرتے ہیں۔”
ان مواقع کے ساتھ کھیلیں جو ڈیجیٹل پلیٹ فارمز اور سوشل میڈیا آپ کو دیتے ہیں
اگرچہ انہوں نے اعتراف کیا کہ وہ ٹک ٹوک میں مہارت حاصل کرنے کی جدوجہد کر رہے تھے، الکونڈا مون نے کہا کہ یہ ضروری ہے کہ آڈئینس تک پہنچنے کے لیے جتنے ہوسکے اتنے مختلف پلیٹ فارمز کا استعمال کیا جائے – ان تمام ٹولز کا استعمال کرتے ہوئے جو آپ کے پاس آڈئینس تک کہانی پہنچانے کے لیے موجود ہیں۔ سوشل میڈیا پلیٹ فارم نامہ نگاروں کو "سیاسی یا اقتصادی حدود“ سے بچنے میں بھی مدد دے سکتے ہیں،“ انہوں نے کہا۔”ہمیں جو کرنا ہے وہ ہے کام… چلو صحافت کرتے ہیں، وہ ہماری بے عزتی کریں گے۔ ہمیں دھمکیاں دیں گے۔ شاید ہمیں عدالت میں لے جانے کی کوشش کریں۔ چلیں ہم اپنا کام کریں۔” — ہیوگو الکونڈا مون بیونس
"مثالی صورت حال یہ ہے کہ پوری کہانی کو شائع کرنے کے لیے ایک شاندار ویب سائٹ موجود ہو،” انہوں نے کہا۔ "کیا آپ کے پاس وپ نہیں ہے؟ پھر آئیے ٹویٹر، تھریڈز، انسٹاگرام، فیس بک، اور ڈیجیٹل پلیٹ فارم جیسے کہ ٹیلی گرام، واٹس ایپ اور لنکڈ ان کا استعمال کرتے ہیں۔ جب بھی میں کوئی خبر شائع کرتا ہوں، میں اپنی خبر ان تمام سوشل میڈیا اور ڈیجیٹل پلیٹ فارمز پرشائع کرتا ہوں۔ کبھی کبھی میری خبر لا ناسیون کی ویب سائٹ کے مقابلے میں ٹویٹر پر زیادہ دیکھی جاتی ہے۔ کبھی کبھی میں ٹویٹر سے لوگوں کو لاناسیون جانے کے لیے تیار کرتا ہوں۔ اور ایک ایسی چیز جس کی میں نے کبھی توقع نہیں کی تھی… آپ جانتے ہیں کہ قارئین کو میرے مضامین پڑھنے کے لیا واقعی کیا چیز راغب کرتی ہے؟ یہ ٹویٹر نہیں بلکہ انسٹاگرام سٹوریز ہیں۔اس نے مجھے واقعی حیران کر دیا۔ مجھے پتہ لگا کہ عام طور پرٹویٹر یا تھریڈز سے زیادہ لوگ انسٹاگرام سے میرے مضامین پڑھنے جاتے ہیں۔
یاد رکھیں ‘ہم کام پر ہیں، جنگ میں نہیں“
اس بات کی طرف اشارہ کرتے ہوئے کہ حکمران انتظامیہ اور پریس کے درمیان تناؤ کوئی نئی بات نہیں ہے، اور یہ کسی خاص ملک تک محدود نہیں ہے، الکونڈا مون نے واشنگٹن پوسٹ کے ایگزیکٹو ایڈیٹر مارٹی بیرن کی 2023 کی کتاب ”کولیژن آف پاور” پر روشنی ڈالی جس میں سابق امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کی انتظامیہ کے ساتھ نمٹنے پر بات کی گئی ہے۔ ٹرمپ نے میڈیا کے ساتھ کھلے عام جنگ کا اعلان کیا تھا – ان میں سے کچھ میڈیا گروہ کو انہوں نے "عوام دشمن” کا نام دیا تھا – بیرن نے تعلقات کو مختلف انداز میں پیش کیا: "ہم کام پر ہیں، جنگ میں نہیں،” انہوں نے کہا۔
اسی پیغام کو دہراتے ہوئے الکونڈا مون نے کہا: "ہمیں جو کرنا ہے وہ ہے کام… چلو صحافت کرتے ہیں، وہ ہماری بے عزتی کریں گے۔ ہمیں دھمکیاں دیں گے۔ شاید ہمیں عدالت میں لے جانے کی کوشش کریں۔ چلیں ہم اپنا کام کریں۔ یہ آسان نہیں ہے، کبھی کبھی یہ اچھا نہیں ہے۔ کبھی آپ کے خاندان کو تکلیف ہوتی ہے، اور آپ آگے بڑھتے رہتے ہیں۔ لیکن آپ کو یہ کام ہوشیاری سے کرنا ہوگا۔”
یہ مضمون اصل میں gijn پہ شاٸع ہوا ہے۔ہزارہ ایکسپریس نیوز پہ gijn کے شکریہ کے ساتھ شاٸع کیا جا رہا ہے۔