Skip to content

ہزارہ کی سیاحت کو سیلاب کی تباہ کاریوں سے بچایا جاٸے۔

شیئر

شیئر

صوبہ خیبر پختونخوا میں حالیہ مون سون کی بارشوں کی وجہ شمالی علاقہ جات اور شمال مغربی خطہ جن میں ہزارہ ڈویژن,مالاکنڈ اور سوات شامل ہیں بری طرح متاثر ہوٸے ہیں۔
پاکستان دنیا میں ماحولیاتی تبدیلیوں سے سے سب سے زیادہ متاثر ہونے والے ممالک کی فہرست میں انچویں جبکہ سیلاب سے متاثرہ ہونے والے ممالک کی فہرست میں نویں نمبر پر ہے۔
ایک رپورٹ کے مطابق 1950 سے 2014 تک پاکستان میں تقریباً بائیس بڑے سیلاب آئے ہیں اور ایک تخمینہ کے مطابق صرف 2010 سے 2015 کے دوران آنے والے تباہ کن سیلابوں میں ملکی معیشت کو اٹھارہ سو ارب کا نقصان پہنچا ہے۔

محکمہ سیاحت خیبر پختونخوا کے جاری کردہ اعداد شمار کے مطابق اس سال یکم مٸی سے اکتیس جولاٸی تک 93 لاکھ سے زاٸد سیاحوں نے خیبر پختونخوا کا رخ کیا جن میں سے صرف ہزارہ ڈویژن میں 62 لاکھ سے زاٸد سیاحوں کی آمد ہوٸی ۔ورلڈ بینک آف پاکستان کے 2022 کی ایک رپورٹ کے مطابق پاکستان کی کل جی ڈی پی کا 5.9 فیصد ٹوورزم یا سیاحت سے جڑے کاروبار کی آمدن پر مشتمل ہے جو بیالیس لاکھ سے زاٸد ملازمتیں فراہم کرتی ہے۔
پاکستان کی سیاحت انڈسٹری میں ہزارہ کی اہمیت سب سے زیادہ ہے۔
ہزارہ اپنے دلکش سیاحتی مقامات گلیات,،ناران ،شوگراں اور سرن ویلی کی وجہ سے قومی اور بین الاقوامی سیاحوں کو اپنی طرف متوجہ کرتا ہے۔ہزارہ میں سیاحت میں سب سے بڑی رکاوٹ انفراسٹرکچر کی خستہ حالی ہے۔ انتظامیہ سیاحوں کے لیے پکی سڑکوں اور مضبوط پلوں کی فراہمی میں ناکام نظر آتی ہے۔ اس سے سیاحت پر برا اثر پڑ رہا ہے۔

ضلع مانسہرہ اور ایبٹ آباد کی زیادہ تر آمدنی سیاحت کی وجہ سے ہے مگر یہ سیاحتی علاقے موسمیاتی تبدیلیوں کی زد پہ ہیں ,بارشوں کے موسم میں ندی نالوں میں طغیانی ,سڑکوں کی بندش اور متعلقہ محکموں کے ناقص اور ناکافی ایمرجنسی رسپانس کی وجہ سے یہ علاقے اب سیاحوں کے لیے ڈروانہ خواب بنتے جا ریے ہیں,گزشتہ مہینے جولائی کے احتتام پر ہونے والی بارشوں نے جہاں ملک بھر میں تباہی مچاٸی وہیں ان بارشوں سے خیبر پختونخوا کے شمالی علاقہ جات اور شمال مغربی خطہ بری طرح متاثر ہوئے ہیں۔
یہ خطہ جو ایک طرف اپنے موسموں کی رنگا رنگی اور خوبصورتی کے باعث عالمی دنیا سمیت ملک بھر سے سیاحت کے دلدادہ افراد کے دلکشی کا سامان رکھتا ہے تو دوسری طرف مون سون کے موسم میں ندی نالوں میں طغیانی,سیلاب اور لینڈ سلائیڈنگ کے خطرات کی زد پر رہتا ہے ۔2022 میں بھی سیلاب نے وادی کاغان کو بری طرح متاثر کیا اور اب 2024 میں پھر اک بار یہی صورتحال سامنے آ رہی ہے۔ اس کے نتیجے میں وادی منور میں زیادہ تباہی آٸی اور مختلف بستیوں کا ملانے والی متعدد رابطہ سڑکیں اور پل سیلابی ریلوں میں گئے جس کے نتیجے میں مقامی آبادیوں کا رابطہ بییرونی دنیا سے کٹ گیا اور لوگوں کو اشیاٸے خورد و نوش اور روزمرہ سفر کے سلسلے میں مشکلات کا سامنا کرنا پڑا ,رابطہ پلوں کے بہہ جانے کی وجہ سے وادی کا رابطہ آس پاس کے علاقوں کے ساتھ ساتھ مانسہرہ تا ناراں,کاغان جھلکڈھ روڈ سے بھی منقطع رہا ۔

31 جولائی کو مختلف مقامات پر لینڈ سلائیڈنگ کی وجہ سے شاہراہِ کاغان بھی بند ہو گئی تھی اور منور نالے میں طغیانی کے باعث بتاں منور سے ماں بیٹا بھی سیلابی ریلے کی نذر ہو گیے جن کی نعشیں بھی تاحال نہیں مل سکیں اسی طرح مقامی افراد نے اپنی مدد آپ کے تحت متعدد افراد کو بچایا، جبکہ ایمرجنسی رسپانس کے ادارے اور ضلعی انتظامیہ شروع کے چوبیس گھنٹوں تک موقع پر نظر نہیں آٸے۔

طوفانی بارش کی وجہ سے دریائے کنہار میں طغیانی پیدا ہونے سے سیلابی ریلوں نے کاغان اور منور وادی کے درمیان پل کو بہا دیا تھا،ناراں ہوٹل ایسوسی ایشن کے صدر سیٹھ مطیع اللہ کے مطابق پندرہ ہزار سے زیادہ سیاح اور مقامی افراد جو ناران کاغان اور منور وادی میں موجود تھے، چھ دن تک وادی میں پھنسے رہے اور ناراں کے تاجروں اور مقامی لوگوں نے پھنسے ہوٸے سیاحوں کو مفت رہاٸش اور رعایتی نرخوں پر کھانے کے بندوبست کرکے ایک اچھی مثال قاٸم کی مگر ضلعی انتظامیہ,کاغان ڈویلپمنٹ اتھارٹی اور صوباٸی ڈزاسٹر مینجمنٹ اتھارٹی کے زمہ دار مقامی لوگوں اور ناراں کے تاجروں کی مہمان نوازی کو اپنے اور حکومت کے کھاتے میں ڈال کر کریڈٹ حاصل کرتے رہے۔

صوباٸی حکومت کی دایت پر ڈسٹرکٹ پولیس نے سیاحوں کو وادی میں آنے سے منع کیااور ساتھ ہی مقامی افراد اور پھنسے ہوئے سیاحوں کو چلاس اور گلگت بلتستان کے زریعے وادی سے نکلنے کے احکامات جاری کیے۔
دو ہفتے گزرنے کے بعد اتوار 12 اگست کو فرنٹیئر ورک آرگنائزیشن (ایف ڈبلیو او) نے عارضی طور پر منور ندی پر پل، سٹیل بریج، کی تعمیر مکمل کی، جس کے ذریعے مقامی افراد اور سیاح مہانڈری سے نکل رہے ہیں۔
سیلاب نے مانسہرہ تا ناراں جلکھڈ روڈ کو بھی بری طرح متاثر کیا ہے۔
ڈپٹی کمشنر مانسہرہ عدنان خان بیٹنی کے مطابق مانسہرہ ناران جالکھڈ روڈ پر پل کی جلد بحالی کے لیے نیشنل ہائی وے اتھارٹی اور دیگر متعلقہ محکموں کو ہدایات جاری کر دی گئی تھی۔ اس صورت حال سے مقامی سیاحت بری طرح متاثر ہوئی ہے۔
ناراں کے ہوٹل مالکان کے مطابق جولائی سے اگست کے وسط تک کا وقت سیاحت کے عروج کا ہوتا ہے۔ مگر یکم اگست سے وادی ناران سنسان ہے۔منور نالہ کی بندش کے دوران ہوٹل مالکان نے سیاحوں کو مفت رہائش دے کر ایک طرف مہمان نوازی کی اعلی مثال قاٸم کی مگر یہ بھی ایک حقیقت ہے کہ دو ہفتے تک مسلسل ناراں روڈ بند ہونے سیاحت سے جڑے کاروبار کی خرچے بڑھ گیے اور آمدنی میں مزید کمی ہوئی۔
۔
منور ویلی کے ہوٹل مالک عثمان کا کہنا ہے کہ مختلف اداروں اور ضلعی انتظامیہ کی طرف سے مرکزی سڑک کی بحالی کے لیے دو دن کا دعوی کیا گیا تھا مگر مرمت میں کئی دن لگے جس کی وجہ سے وادی میں اشیاء خوردونوش کی کمی رہی۔ عثمان کے مطابق اس دوران نیشنل اور انٹرنیشنل سیاحوں کی بکنگ اور ناراں کی سیاحت کے شیڈول کینسل ہونے کی وجہ سے صرف اس کوآ ٹھ لاکھ کا نقصان ہوا جبکہ ایک اندازے کے مطابق دو ہفتے ناراں بند رہنے سے سیاحتی انڈسٹری کو بیس سے پچیس ارب روپے کا نقصان اٹھانا پڑا ۔
مقامی لوگوں کے مطابق نالہ کی صفاٸی نہ ہونے کی وجہ سے منور نالہ کے اوپر قاٸم پل جس سے آمدورفت ہوتی ہے اس کی سطح زمین سے بہت کم ہے۔اگر مستقبل میں دوبارہ یہی صورتحال بنتی ہو تو پل دوبارہ بہہ جانے کا حدشہ ہے۔ انتظامیہ کی جانب سے جو عارضی پل بنایا گیا ہے اس کی اونچائی بھی کم ہے ۔مستقبل میں اس قسم کی صورتحال نہ ہو اس کے لیے پل کو اونچائی 50 فٹ تک کرنا ہو گی۔ تاکہ کسی نا حوشگوار واقع کو روکا جاسکے۔”
روزنامہ ڈان کے مانسہرہ سے نامہ نگار نثار احمد خان کے مطابق شمالی مغربی خطہ میں سیاحت کی بحالی کے لیے کاغان ڈیویلپمنٹ اتھارٹی کے کردار کو واضع کرنے اور مناسب اقدامات اٹھانے کی ضرورت ہے ,ان کا کہنا ہے کہ مقامی لوگوں کی روزی سیاحت سے جڑی ہے,بارش کے نتیجے میں ندی نالوں اور دریاٸے کنہار میں طغیانی سے مقامی لوگوں کی زرعی زمینیں,مچھلی کے فارمز,باغات اور لاٸیولی ہڈ کو ناقابل تلافی نقصان پہنچا ہے۔ ۔اگر ایریگیشن ڈیپارٹمنٹ فلڈ پرون ایریاز کی نشاندہی کرکے وہاں حفاظتی پشتے تعمیر کرتا,محکمہ ماٸنز اینڈ منرل چاٸنیز کمپنی کو منور نالے کی صفاٸی سے نہ روکتا اور راٸلٹی کا مطالبہ نہبکرتا تو نالہ کی صفاٸی کی صورت میں ممکنہ طور پر اتنا نقصان نہ ہوتا ,نثار احمد خان کہتے ہیں کہ اگر سیلاب اور دریاٸے کنہار کے کٹاو کی زد پر آنے والے علاقوں کے لیے خطرات کی نشاندہی کرکے پیشگی اقدامات کیے جاٸیں, سیاحت سے منسلک علاقوں میں نقل حمل کے انفراسٹرکچر کو پاٸیدار بنیادوں پر کھڑا کیا جاٸے,ایمرجنسی رسپانس کے میکنزم متعارف کروایا جاٸے اور سیاحتی علاقوں میں انٹرنیٹ کی معیاری سروس اور سیاحوں کی ضروریات کو مد نظر رکھ کر بنیادی سہولیات کو بہتر بنا دیا جائے تو سیاحت بڑھ سکتی ہے ۔ ضرورت اس امر کی ہے کہ مقامی لوگوں کو سیلاب کے خطرہ سے تیاری کے بارے میں تربیت اور آگاہی فراہم کی جاٸے, ایمرجنسی کو رسپانس کرنے والے محکموں کے درمیان رابطہ کاری اور منصوبہ بندی کا میکنزم تیار کیا جاٸے ,جنگلات کی کٹاٸی کی سختی سے روک تھام کی جاٸے , ندی نالوں کی ہر سال بھل صفاٸی کا مستقل بندوبست کیا جاٸے ,رابطہ سڑکوں کی تعمیر اور کٹاٸی کا ملبہ ٹھکانے لگانے کا متعلقہ ٹھیکیدار کو زمہ دار ٹھہرایا جاٸے اور غفلت برتنے والوں کے خلاف جرمانے اور سزاٸیں تجویز کی جاٸیں ,ماحولیاتی پالیسی میں ہزارہ کو مناسب جگہ دی جاٸے ,سیلاب کے خطرہ کی زد میں آنے والے علاقوں میں چیک ڈیمز اور حفاظتی پشتے تعمیر کیے جاٸیں اور زمہ دار محکموں کی جوابدہی کی جاٸے ۔
جویریہ ارشد

   جویریہ ارشد گورنمنٹ پوسٹ گریجویٹ کالج مانسہرہ میں شعبہ انگریزی کی طالبہ ہیں۔جویریہ کو افسانہ اور کالم نگاری کا شوق ہے۔جویریہ ارشد ہزارہ ایکسپریس نیوز کے لیے لکھتی ہیں۔

اپنی رائے دیں

متعلقہ پوسٹس

دوسری زبان میں ترجمہ کریں