Skip to content

معلومات میں شفافیت کی کمی جنوب ایشیا میں آب و ہوا سے متعلق تعاون کی راہ میں رکاوٹ ہے۔

شیئر

شیئر

Omair Ahmad


جون ۲۰۲۳ میں ہونے والے دو واقعات نے اس امر کو واضح کیا کہ آب و ہوا سے پیدا ہونے والی آفات کا بین السرحدی اثر کس طرح بڑھتا جا رہا ہے اور کس طرح معلومات کی شفافیت کی کمی ممالک  کے آفات کے ردِ عمل کو محدود کرتی ہے۔ اس مہینے جب سمندری طوفان بیپرجوئے پاکستان اور بھارت کے ساحلوں تک پہنچا تو اخبارات کی رپورٹوں میں سر پر منڈلاتی قدرتی آفت کے پیش نظر تعاون سے متعلق گہری خاموشی چھائی ہوئی تھی۔ اگرچہ زیادہ تر لوگ دونوں ممالک کے درمیان دشمنی کو دیکھتے ہوئے اس بات کو سچ ہی جانیں گے، تاہم اسی مہینے میں  بھارتی ریاست آسام میں لوگوں نے بھوٹان کے ڈیموں کو سیلاب کی شدّت کا ذمہ دار ٹھہرایا۔ بھوٹان کو بھی تباہ کن سیلاب کا سامنا تھا ، تاہم شفاف، علانیہ دستیاب معلومات کے تبادلے  کی کمی کا حاصل یہ نکلا کہ قدرتی آفت کا مشترکہ سامنا باہم الزام تراشی  کا بہانہ بن گیا۔ ایک معاملے میں معلومات  کی شفافیت  کی کمی نے مربوط ردعمل کو ناممکن بنایا، اور دوسرے میں اس نے دو دوست ہمسایوں کے درمیان کشیدگی پیدا کی۔


سمندری طوفانوں اور بین السرحدی سیلاب میں اضافہ ہی ہونا ہے۔ بحیرہ عرب میں سمندری طوفانوں کی تعداد میں ۱۹۸۲- ۲۰۰۰ سے لے کر ۲۰۰۱-۲۰۱۹ تک ۵۲ فیصد اضافہ ہوا ہے۔ عالمی درجہ حرارت کے ہر ڈگری اضافے سے بلند پہاڑوں میں شدید بارشوں میں ۱۵ فیصد اضافہ ہوتا ہے۔ یہ مشکلات کی واحد صورت نہیں جو آب و ہوا کا بدلاؤ جنوبی ایشیا میں لا رہا ہے۔ خطے کے ممالک میں بڑی زرعی آبادیاں ہیں، جو سالانہ مون سون پر، جو تیزی سے تغیر پذیر ہوتی جا رہی ہیں، گہرا انحصار کرتی ہیں۔ بحر ہند میں گرم تر درجہ حرارت نہ صرف سمندری طوفانوں، جیسے سائیکلون  اور ہریکین، کا باعث بن رہا ہے بلکہ سطحِ سمندر میں بھی غیر معمولی اضافہ کر رہا ہے،  آبادیوں  کے پانی کے ذرائع اور زرعی زمین کے کھاری پن میں اضافہ کر رہا ہے،  جس سے اہم بنیادی فصلوں اور برآمدات کے لیے درکار فصلوں کو نقصان پہنچ رہا ہے، جو بنیادی طور پر نشیبی علاقوں میں رہنے والوں کو  بھاگنے یا ڈوب جانے پر مجبور کر رہا ہے۔


یہ دیکھتے ہوئے کہ جنوبی ایشیائی ممالک ایک ہی طرح متاثر ہو رہے ہیں اور ایک ہی جیسے سماجی و اقتصادی حالات اور ادارہ جاتی نظام رکھتے ہیں، ان کے مابین تعاون ایک فطری امر ہونا چاہیئے۔ بدقسمتی سے دو اہم وجوہات کی بنا پر ایسا نہیں ہے۔ پہلی وجہ خطے میں کام کرنے والے بین السرحدی اداروں کا فقدان ہے، اور دوسری وجہ معلومات کی پردہ پوشی  کا ادارہ جاتی  طرزِ عمل (کلچر ) ہے۔ جنوبی ایشیائی حکومتوں کو ان دونوں بنیادی مسائل کو حل کرنا چاہیئے تاکہ آب و ہوا کے بدلاؤ سے مطابقت حاصل کرنے کے کامیاب راستے تلاش کیے جاسکیں۔

باہمی تعاون کے چند ادارے


واضح علاقائی مماثلت کے باوجود آب و ہوا سے متعلقہ  آفات سے نمٹنے میں جنوبی ایشیائی تعاون، کام کرنے والے باہمی تعاون کے اداروں (کوآپریٹو  انسٹیٹیوشنز)  کی کمی کی وجہ سے بہت قلیل ہے۔اہمیت رکھنے والا واحد  بین السرحدی ادارہ جنوبی ایشیائی علاقائی تعاون کی تنظیم (سارک) ہے، لیکن جغرافیائی سیاسی کشیدگی اس کی اثر پذیری میں مانع ہے۔ادارے کے اندر سب سے اہم جغرافیائی سیاسی اختلاف بھارت اور پاکستان کے  درمیان ہے ، جس کے باعث گروپ نے نومبر ۲۰۱۴ کے بعد سے سربراہی اجلاسوں کو غیر معینہ مدت کے لئے ملتوی کر دیا ہے۔ بے آف بینگال انیشی ایٹو فار ملٹی سیکٹرل ٹیکنیکل اینڈ اکنامک کوآپریشن (بی آئی ایم ایس ٹی ای سی) [اقدامِ خلیجِ بنگال برائے کثیر الجہتی حلقہ جاتی تکنیکی و اقتصادی تعاون] اگرچہ ایک اور قابلِ ذکر بین السرحدی ادارہ ہے جو پورے جنوبی ایشیائی خطے کا احاطہ نہیں کرتا مگر تھائی لینڈ کو شامل کرتا ہے، جس کے باعث ایک جامع جنوبی ایشیائی حکمتِ عملی تشکیل دینے کی اس کی صلاحیت محدود ہو جاتی ہے۔

 
سیاسی تعطل ابھی تک تعاون کی کوششوں کو مکمل طور پر روک نہیں پایا۔ ۲۰۰۶ میں قائم کئے جانے والے سارک ڈیزاسٹر مینجمنٹ سینٹر (ایس ڈی ایم سی)[سارک  مرکز برائےآفات انتظامی] نے ۲۰۱۶ میں سارک مرکز  برائےموسمیات (بنگلہ دیش)، سارک مرکز برائے جنگلات (بھوٹان) اور سارک  انتظامی مرکز  برائے ساحلی علاقہ جات (مالدیپ) کے کام کا انضمام کرکے اپنے اختیار میں توسیع کی۔ تاہم ۲۰۱۳ کے بعد سے پاکستان کے ملکی پروفائل میں تازہ ترین اطلاعات  کی کمی اس بات کی نشاندہی کرتی ہے کہ متعلقہ اعلی سطح کی سیاسی مصروفیات بہت کم ہیں۔ ہر ملک کے سیاسی طبقے کے اصرار کے بغیر یہ ادارے آزادانہ طور پر نہیں چل سکیں گے۔ کیونکہ سیاست دان  رقم مختص کرتے ہیں اور لائحۂ عمل طے کرتے ہیں۔ مثلاََ  سالانہ  جنوبی ایشیائی مشق برائے آفات انتظامی، اس نام کے باوجود محض ایک ہی مشق ہو پائی، جو۲۰۱۵  میں ہوئی تھی۔


سیاسی عزم کی ان مسائل پر وافر معاملت  کی ضرورت دیرینہ تعلقات میں بھی واضح ہے۔ چونکہ ہمالیہ میں شدید بارش کے واقعات میں اضافہ ہو رہا ہے، مغربی بنگال اور آسام کی بھارتی ریاستوں کے سیاست دانوں کو بھوٹان کے ڈیموں کو مورد الزام ٹھہرانا آسان لگتا ہے، حالانکہ ان میں سے زیادہ تر بھارتی امداد کے باعث بن پائے تھے۔ نیپال اور بھارت نے ۱۹۵۴ میں ایک معاہدے پر دستخط کیے تھے ، جس میں ۱۹۶۶ میں دریائے کوسی کے انتظام سے متعلقہ اضافت کی گئی مگر  پھر بھی  تقریباََ ہر سال  بھارتی نشیبی ریاست بہار میں ایک سیلاب آ جاتا ہے۔ جیسا کہ سینئر نیپالی تبصرہ نگار کنک منی ڈکشٹ کہتے ہیں، مسئلہ صرف یہ نہیں ہے کہ ممالک معاملت کرتے ہیں یا نہیں بلکہ یہ بھی ہے کہ معاملت  کرنے کا اختیار  کس کو دیا گیا ہے۔ کم فہمی کی بناء پر پانی کے مسائل کو سفارتی یا سیاسی مسائل کے بجائے ایسی تکنیکی مشکلات کے طور پر لینا،جن کی نگرانی ایک چھوٹی اور غیر شفاف آبی دفتر شاہی (واٹر بیوروکریسی) کرتی ہے(اور) جو   فوری انجینیئرنگ حل سے نمٹائے جا سکتے ہیں، نے معاملات کو مزید خراب کر دیا ہے۔

غیر شفاف آبی دفتر شاہی  ( واٹر بیوروکریسی)


عوام کے لئے قابلِ رسائی معلومات کی کمی  تعاون کی راہ میں  حائل ایک اہم رکاوٹ ہے۔ مثلاََ  بھارتی حکام پاکستان، افغانستان یا بنگلہ دیش میں بہنے والے بین السرحدی دریاؤں کے بارے میں تمام اعداد و شمار کو ‘خفیہ‘ قرار دیتے ہیں۔  بنیادی معلومات تک عوامی رسائی کے بغیر ، ایک “ہائیڈروکریسی“(پانی سے متعلقہ  دفتر شاہی) ابھرکر سامنے آتی ہے جس میں ایک منتخب گروپ آبی وسائل کے انتظام پر تسلط قائم کرتا ہے اور اہم معلومات تک رسائی کو وسیع تر آبادی کی پہنچ سے دُور کر دیتا ہے۔ یہ مسئلہ خصوصاََ ہمالیائی خطے کے بڑے بین السرحدی دریاؤں سے متعلق شدید تر  ہے۔ انٹرنیشنل سینٹر فار انٹیگریٹڈ ماؤنٹین ڈیولپمنٹ (آئی سی آئی ایم او ڈی) [بین الاقوامی مرکز برائے انضمامِ ترقیٔ کوہسار] کی جانب سے دریائے سندھ، گنگا اور برہم پترا کے بارے میں جاری کردہ رپورٹوں کے سلسلے میں خطے بھر کے سائنس دانوں نے اس بات پر زور دیا کہ اس طرح کی معلومات  کو صغیۂ راز میں رکھ کر حکومتیں سائنسی تعاون کو بھی محدود کر رہی ہیں۔


ان متنازعہ سرحدوں کے قریب رہنے والی آبادیاں  ممکنہ ماحولیاتی خطرات سے بے خبر ہیں اور اس غیر شفافیت کا خمیازہ بھگتی ہیں ۔ تاہم  جب معلومات براہ راست  آبادیوں کے بااثر عناصر  کے ذریعے  پھیلائی جائیں، مثلاََ موبائل ٹیکنالوجی کا استعمال کرتے ہوئے ، تو ان نظامات نے اکثر بہت کم قیمت پر جان و مال کی حفاظت کر دکھائی ہے۔  نیپال-بھارت اور بھوٹان-بھارت سرحدوں پر  بنیادی سطح پر معلومات کا تبادلہ مؤثر ثابت ہوا ہے، جہاں آبادیوں کے مفاد پر مبنی نظاماتِ ترسیلِ معلومات ماحولیاتی بحرانات کے وقت زندگیاں بچانے والے ثابت ہوئے ہیں۔

ماحصل


اپنی نوعیت کے اعتبارسےبین السرحد ی تعاون حکومتوں کی ذمہ داری ہے۔جنوبی ایشیا بین السرحدی اداروں کو بااختیار بنانے کے لیے سیاسی عزم کے بغیر  لنگڑاتی چال چل رہا ہے، جسےخود ان حکومتوں نے روک رکھا ہے جو معلومات کی پردہ پوشی کرتی ہیں۔ اس محرّک کو تبدیل کرنے کا پہلا قدم جنوبی ایشیائی حکومتوں کااپنی عوام  تک آبی معلومات (ہائیڈرولوجیکل ڈیٹا)کی رسائی کی فراہمی ہو سکتا ہے۔ سرحدوں سے متصل آبادیاں  ایک دوسرے کی مدد کے لئےان معلومات (ڈیٹا ) کو استعمال کرنے میں دلچسپی بھی رکھتی ہیں اور ایسا کرنے کے لئےایسی راہیں، جو ان کی معاشی قیود کے اندر ہوں، تلاش کرنے کے لئے جدت طراز بھی  ہیں ۔ دوسرے الفاظ میں بجائے اس کے کہ  جنوبی ایشیا کی حکومتوں سے تعاون کے لیے زیادہ کام کرنے کو کہا جائے، یہ امر زیادہ مفید ہو سکتا ہے کہ انہیں کم کام کرنے کو کہا جائے  یا کم از کم انہیں معلومات کی نگرانی کم کرنے کو کہا جائے اور بین السرحدی دریاؤں  کی ترائی میں بسنے والے لوگوں اور آبادیوں کو اس عمل کو آگے بڑھانے کا موقع دیا جائے

یہ مضمون اصل میں ساوتھ ایشٸین واٸس پہ شاٸع ہوا ہے۔ہزارہ ایکسپریس نیوز پہ ساوتھ ایشٸین واٸس کے شکریہ کے ساتھ شاٸع کیا جا رہا ہے۔

اپنی رائے دیں

متعلقہ پوسٹس

دوسری زبان میں ترجمہ کریں