مانسہرہ شہر جو کبھی پورے خیبرپختونخوا میں خوبصورتی کا حوالہ تھا،اب جا بجا پھیلے کچرے کے بحران سے نمٹنے کے لیے جدوجہد کر رہا ہے۔گلیاں کچرے سے بھری پڑی ہیں، گندگی سے اٹی ہوٸی نالیاں اور سڑے ہوئے کچرے کی بدبو,ہوا میں ہر سُو پھیلی ہوئی ہے۔شہر کےمکین بدبوداراورتنگ گلیوں سے گزرنے پر مجبور ہیں جو، شہریوں کے حواس گندگی اور بدبو سے متاثر ہیں۔ کچرے کا بحران مانسہرہ کے مکینوں کے لیے مستقل درد سر بن چکا ہے، شہر کی نظراندازی اور لاوارثی کی یاددہانی۔ متحرک بازار اب سڑے ہوئے پھلوں اور سبزیوں کی بدبو سے بھرے پڑے ہیں، جب کہ کسی وقت شہر کی پانی کی ضرورت کو پورا کرنے والے صاف شفاف کٹھےاب نالہ لٸی کی صورت اختیار کر چکے ہیں , گھروں اور بازاروں سے جمع ہونے والے کچرے کے لیے یہ کٹھے اور نالے کچرا کنڈی یا ڈمپنگ پواٸنٹ کے نعم البدل کے طور پر استعمال میں لاٸے جا رہے ہیں۔
آٹھ اکتوبر 2005 کے تباہ کن زلزلہ کے نتیجے میں متاثرین کی مانسہرہ میں آمد ہو یا کشمیر,کوہستان اور گلگت بلتستان کے مکینوں کی مانسہرہ کی طرف ہجرت,شہر پر بڑھتے آبادی کے دباو نے وساٸل کے محدود جبکہ مساٸل کو بڑھا دیا ہے ,شہر کی ماسٹر پلاننگ ہو ,پینے کے صاف پانی کی ترسیل ہو یا ویسٹ مینجمنٹ, تحصیل میونسپل ایڈمنسٹریشن کلی طور پر ناکام ثابت ہوٸی ہے ,بڑھتی آبادی و مساٸل اور سکڑتے وساٸل نے منصوبہ بندی کی اہمیت کو ہزاروں گنا بڑھا دیا ہے۔ مانسہرہ شہر میں دیگر مساٸل کی طرح کچرے کا بحران کوئی نیا یا اچانک رونما ہونے والا واقعہ نہیں ہے بلکہ شہریوں کی غفلت ,منتخب نماٸندوں کی لاپرواٸی و نالأٸقی اور زمہ دار اداروں کی جوابدی اور بری طرز حکومت نے اس صورتحال کو آہستہ آہستہ تشویشناک حد تک بڑھاوادے دیا ہے۔ ناکافی انفراسٹرکچر، فنڈنگ کی کمی اور حکام کی جانب سے عمومی توجہ کی کمی کے ساتھ ساتھ شہر کا ویسٹ مینجمنٹ سسٹم بھی تباہ حال ہےجس کے نتیجے میں ایک ایسا شہر ہے جو پاکستان بھر میں خوبصورتی کا حوالہ تھا اور اب تیزی سے ڈمپنگ گراؤنڈ بنتا جا رہا ہے، شہر کی ہر سٹرک اور گلی کے ہر کونے میں کوڑا کرکٹ اور گندگی جمع ہے۔مانسہرہ کے باسی کچرے سے بھری گلیوں ,بدبو پھیلاتی نالیوں اور جگہ جگہ گلیوں و چوراہوں میں گندے پانی کے جوہڑوں پر مچھروں کی بھرمار کے ساتھ ابتر حالات میں زندگی گزارنے کا سمجھوتا کرنے پر مجبور ہیں۔ کچرے اور گندگی کا یہ بحران بیماریوں کی صورت میں ضلع کے صحت کے نظام پر دباو بڑھا رہا ہے ,ویسٹ مینجمنٹ نہ ہونے کی وجہ سے ہیضہ، ٹائیفائیڈ, ڈینگی بخار اور ہیپاٹاٸٹس جیسی بیماریوں میں بھی اضافہ ہو رہا ہے جس کا نتیجہ شہریوں کے لیے جسمانی صحت کے ساتھ ساتھ مالی بوجھ کی صورت میں نکل رہا ہے۔
اس بحران کے نتائج محض جمالیات سے بالاتر ہی نہیں نہیں بلکہ نوشتہ دیوار ہیں ,کوڑے کے بحران سے صحت عامہ پر سنگین اثرات مرتب ہو رہے ہیں،۔ شہر میں پینے کے صاف پانی کی آلودگی میں میں ویسٹ مینیجمنٹ کے ناقص نظام کا بڑا حصہ ہے۔ مانسہرہ کے مکین حکومتی اداروں کی کمزور منصوبہ بندی اور حکام کی بد عنوانی اور غفلت کی قیمت جانی اور مالی نقصانات کی صورت میں چکا رہے ہیں، جس کے نتیجے میں ان کی صحت و تندرستی کے ساتھ زہنی و مالی آسودگی بھی متاثر ہورہی ہے۔ شہر کے ہسپتال کچرے سے پیدا ہونے والی بیماریوں میں مبتلا مریضوں کی تعداد کا بوجھ اٹھانے سے قاصر ہیں, ہر گھر تک پھیلی بیماریوں کی وجہ سے پیداواری صلاحیت کمزور اور محصولات میں کمی کے باعث شہر کی معیشت بھی متاثر ہو رہی ہے۔
کچرے کا بحران صرف صحت عامہ کا مسئلہ نہیں ہےیہ ایک ماحولیاتی آفت بھی ہے۔شہری زندگی میں روزمرہ ضروریات کے لیے پلاسٹک کا بے محابا استعمال پانی کی نکاسی کے نظام میں رکاوٹ کے ساتھ ساتھ آبی حیات اور مقامی ماحولیاتی نظام کی تباہی کی صورت میں برآمد ہو رہا ہے ۔یہ صورتحال شہر کے آس پاس کی پہاڑیوں اور جنگلات کو بھی متاثر کر رہی ہے۔ اپنا ویسٹ مینیجمنٹ سسٹم نہ ہونے کی وجہ سے شہر کی مشہور پھل اور سبزی منڈیاں صاف پانی اور صفائی کی سہولیات کہ ناگفتہ بہ صورتحال کے باعث الگ سے آلودگی میں اضافہ کررہی ہیں،منڈیوں سے روزانہ کی بنیاد پر گلی سڑی سبزیاں اور فروٹس کا فضلہ ڈمپ نہ ہونے اور جگہ جگہ پھینکنے سے شہر کی ہوا اور پانی کا معیار تیزی سے خراب ہو رہا ہے۔
تو گندگی کے اس بحران کی وجہ کیا ہے؟ اور کون ذمہ دار ہے؟ اس کا جواب عوامل کے مجموعے میں مضمر ہے، بشمول کچرا اور گندگی کے انتظام کے بنیادی ڈھانچے میں سرمایہ کاری کی کمی، بدعنوانی، اور حکام کی جانب سے احساس کی عدم موجودگی ,شہر کے ویسٹ منیجمنٹ کے زمہ دار ڈپارٹمنٹ کے پاس کم سٹاف ,محدود فنڈز اور مطلوبہ صلاحیت سے محرومی بھی بڑی وجہ ہے،اس مسئلے کے پیمانے سے نمٹنے کے لیے بہت کم وسائل دستیاب ہوتےہیں۔ حکام ویسٹ مینجمنٹ کی موثر پالیسیوں کو نافذ کرنے میں ناکام رہے ہیں اور اس کے بجائے عارضی اقدامات کا سہارا لیا ہے جس نے بحران کو مزید بڑھا دیا ہے۔شہر کے مکین بھی قصوروار ہیں، بہت سے لوگ گندگی اور کوڑا کرکٹ کے ذریعے بحران میں حصہ ڈال رہے ہیں۔
اس طرح صرف محکمے اور حکام ہی قصور وار نہیں ہیں مانسہرہ کے مکینوں کا بھی بحران کو برقرار رکھنے میں برابر کا حصہ ہے۔ہماری دینی تعلیمات میں صفاٸی کو نصف ایمان قرار دیا ہے مگر کوڑا کرکٹ پھینکنا اور گند پھیلانا ہمارا شیوہ بن چکا ہے ،بہت کم لوگ اپنے اعمال کی ذمہ داری لیتے ہیں۔ شہر میں غفلت اور بے حسی کا کلچر بہت گہرا ہے اور اسے تبدیل کرنے کے لیے ٹھوس کوششیں کرنا ہوں گی۔ مانسہرہ کے مکینوں کو اس بحران کی ذمہ داری لینے اور حکام سے کارروائی کا مطالبہ کرنے کی ضرورت ہے۔ انہیں اپنے طرز عمل کو تبدیل کرنے اور جہاں بھی ممکن ہو اپنے فضلے کو کم کرنے، اور دوبارہ استعمال کرنے کی ذمہ داری قبول کرنے کی ضرورت ہے۔
ضرورت اس امر کی ہے کہ مختلف جہتوں پر مشتمل بحران سے نمٹنے کے لیے ترجیحات اور اقدامات کا تعین کیا جاٸے ,پہلا قدم مسئلہ کی احساسیت اور پیمانے کو تسلیم کرنا اور اس کی ذمہ داری لینا ہے۔ ریاست کو کچرے کے انتظام کے بنیادی ڈھانچے , بشمول جدید ڈمپسٹر، ری سائیکلنگ کی سہولیات اور ویسٹ ٹو انرجی پلانٹس کی تنصیبات کے لیے وساٸل مختص کرنے چاہیں, کوڑا کرکٹ پھینکنے اور گندگی پھیلانے کے خلاف قوانین اور پالیسیز پر عملدرآمد کرناچاہیے، قانون کی خلاف ورزی کرنے والوں پر جرمانے عائد کرنے چاہیے۔ شہر کے مکینوں کو بھی متحرک ہوکر اپنا شہری کردار ادا کرنا چاہیے،اپنے رویے کو بدلنا اور اپنے فضلے کی ذمہ داری لینی چاہیے۔ شہر کو ایک جامع ویسٹ مینجمنٹ پلان کی ضرورت ہے جو بحران کی بنیادی وجوہات کا پتہ لگا کر اس کا پائیدار اور ماحول دوست حل پیش کرے۔
اس کے بعد ہی ہم مانسہرہ کو صاف کرنے اور اسے اس کی سابقہ شان میں بحال کرنے کی امید کر سکتے ہیں۔ شہر کے مکین کچرے کے ڈھیر میں رہنے سے بہتر کے مستحق ہیں، اور یہ کارروائی کا وقت ہے۔ حکام کو اپنی ناکامیوں کی ذمہ داری قبول کرنی چاہیے اور اس کے حل کے لیے کام کرنا چاہیے۔ مانسہرہ کے مکینوں کو بھی اس بحران کا ازالہ کرنا چاہیے اور کارروائی کا مطالبہ کرنا چاہیے۔ ہم سب مل کر مانسہرہ کو صاف شہر بنا سکتے ہیں۔
تحریر عظمیٰ شہزادی