Skip to content

صحافت کے اثرات کو ماپنا: ہم اب کیا جانتے ہیں جو پہلے نہیں جانتے تھے۔ 

شیئر

شیئر

آنیا شیفرین and ڈیلن گرووز

دنیا بھر میں صحافتی ادارے اپنے کام کے اثرات کو ماپنے کی کوشش کرتے ہیں۔ ہر ادارہ ان اثرات کو بیان کرنے کے مختلف خیالات ہو سکتے ہیں اور وہ اپنی رپورٹنگ کے بڑے اثرات کو ماپنے کے لیے میٹرکس کی ایک وسیع رینج کا استعمال کر سکتے ہیں۔

ہم نے پچھلے کئی سال ان اثرات کی پیمائش کے طریقوں بارے سوچتے ہوئے گزارے ہیں۔ ہم نے صحافیوں کے سروے کیے اور تحقیقاتی رپورٹنگ کے اثرات کے حوالے سے اپنی کمیونٹی کی سمجھ میں اضافہ کرنے کی کوشش کی۔ مجموعی طور پر، ہماری تحقیق نے ان اثرات کی پیمائش کے 90 مختلف طریقوں کی نشاندہی کی، لیکن حقیقت یہ ہے کہ نیوز رومز عموماً صرف چند کو ہی دیکھتے ہیں۔

برازیل کی ایجینسیا مورال دا جرنلزمو داس پیریفیریاز اپنے استعمال کیے جانے والے میٹرکس کو چار زمروں میں تقسیم کرتے ہیں۔  حقیقی زندگی میں تبدیلی؛ دوسرے اداروں کے ذریعے اپنے  پیغامات کو مزید آگے پہنچانا؛آڈئینس کو اپنے ساتھ مشغول رکھنا؛ اور عوامی بحث پر اثر۔ مارشل پراجیکٹ، ایک غیر منافع بخش خبر رساں ادارہ ہے جو امریکہ میں فوجداری انصاف اور نسل پرستی پر رپورٹنگ کرتا ہے، ان تین عوامل کی بنیاد پر اپنے اثرات کو ماپتے ہیں۔

  • پالیسی سازوں پر اثر: کیا رپورٹنگ نے کسی قانون، پالیسی یا عمل کو تبدیل کرنے میں کوئی کردار ادا کیا؟
  •  حامیوں اور ماہرین: کیا رپورٹنگ نے حامیوں کے لیے مفید معلومات فراہم کیں؟
  • دیگر میڈیا: کیا مارشل پروجیکٹ ایک اعلیٰ معیار قائم کرتا ہے اور دوسرے میڈیا کو مجرمانہ انصاف کو بہتر طریقے سے کور کرنے کی ترغیب دیتا ہے؟

جنوبی افریقہ میں ڈیلی ماورک اپنی آڈئینس کو ان اہم موضوعات پر ضروری معلومات فراہم کرتا ہے جو ان کی زندگیوں کو متاثر کرتے ہیں۔ مثال کے طور پر، جنوبی افریقہ میں معیاری تعلیم کا فقدان ایک بڑا مسئلہ ہے اور اسی لیےڈیلی ماورک نے رپورٹ فار دی ورلڈ (آر ایف ڈبلیو) کے ساتھ مل کر کام کیا۔ رپورٹ فار دا ورلڈ ایک غیر منافع بخش ادارہ ہے جو کم یا درمیانہ آمدنی والےممالک کے نیوز رومز میں تعلیم، عالمی صحت اور آب و ہوا کو کور کرنے والے نئے رپورٹرز کو امداد اور تربیت فراہم کرتا ہے۔ وہ گروپ ڈیلی ماورک میں ایک تعلیمی رپورٹر کو امداد فراہم کر رہا ہے اور ایڈیٹر جلیان گرین کا کہنا ہے کہ ان مسائل کی کوریج اس آڈئینس کے لیے ضروری ہے جو مقامی سکولوں کی حالت کے بارے میں فکرمند ہیں۔ ”سول سوسائٹی اس علاقے کے مسائل کو جانتی ہے اور انہیں اجاگر کرنے کی کوشش کر رہی ہے۔ ہم انہیں اس لڑائی میں استعمال کرنے کے لیے معلومات دے رہے ہیں۔ ہم اس بات کو یقینی بنانا چاہتے ہیں کہ والدین کے پاس وہ معلومات ہوں جن کی انہیں ضرورت ہے اور جن کی مدد سے وہ حکومت کا احتساب کر سکیں،” گرین نے ایک انٹرویو میں کہا۔

تصویر: سکرین شاٹ، ڈیلی ماورک

پالیسی اور قوانین پر رپورٹنگ کے اثرات کی پیمائش کے ساتھ ساتھ، بیشتر میڈیا ادارے جن کے ہم نے سروے کیے، نے کہا کہہ وہ کہانی کے اثرات کی پیمائش کے لیے سوشل میڈیا یا گوگل اینالیٹکس کا استعمال کرتے ہیں، لیکن ان کے استعمال کرنے کی وجوہات مختلف ہیں۔ کچھ نیوز روم اپنی آڈئینس انگیجمینٹ کو ترجیح دیتے ہیں، دوسرے جیسے فرنٹیئر میانمار — ایک ایسا  ادارہ جو پورے میانمار میں خبروں، تنازعات، اقتصادی اور سیاسی امور کی گہرائی سے رپورٹنگ کرتا ہے — ان پلیٹ فارمز کی اس آسانی کی تعریف کرتے ہیں جس کی وجہ سے ان نمبروں کو ٹریک کیا جا سکتا ہے۔ کچھ میڈیم، جیسے پوڈ کاسٹ، کی عام طور پر زیادہ روایتی نیوز میڈیا کے مقابلے میں کم آڈئینس ہوتی ہے، جو صرف ان کے ویب پیج دیکھے جانے کی تعداد یا انہیں سننے والوں کی تعداد کو ان کے کام کے اثرات کی پیمائش کے حوالے سے ایک ناقص میٹرک بناتی ہے۔

حکومتی پالیسی بدل رہی ہے، اگرچہ آہستہ آہستہ

لیکن تاریخ سے عالمی مکریکرز نے اخذ کیا ہے کہ سول سوسائٹی کی حمایت صحافتی اثرات کے لیے ایک اہم شرط ہے۔

صحافتی اثرات کی ایک روایتی تعریف میں حکومتی پالیسی کو متاثر کرنا یا افسروں کو کسی مسئلے کو حل کرنے کی ترغیب دینا شامل ہے۔ لیکن عوامی میں کیس بات پر شور مچنے یا کارروائی کے لیے ضروری ریگولیٹری شرمندگی کو بڑھانے کے لیے اکثر طویل اور مستقل رپورٹنگ کی ضرورت ہوتی ہے۔

اس قسم کا آہستہ آہستہ ہونے والا اثر عام طور پر تین مرحلوں میں ہوتا ہے: انفرادی، جان بوجھ کر، اور اصل۔ کلاسک کتابوں "دی جرنلزم آوئٹ ریج” اور "ڈیموکرسیز ڈیٹیکٹوز” میں مصنفین وضاحت کرتے ہیں کہ ایک انفرادی اثر ایک بدعنوان پولیس اہلکار کو برطرف کیا جانا ہو سکتا ہے، ایک جان بوجھ کی مثال میں پارلیمانی تحقیقات یا کانگریس کی سماعت شامل ہو سکتی ہے، اور اصل اثر ایک قانون یا پالیسی کی تبدیلی لانے کا سبب بن سکتا ہے۔

لیکن تاریخ میں عالمی مکریکرز نے اخذ کیا ہے کہ سول سوسائٹی کی حمایت صحافتی اثرات کے لیے ایک اہم شرط ہے۔ "موبلائزیشن ماڈل اس وقت تک کام نہیں کرتا جب تک کہ سول سوسائٹی کی حمایت یا شراکت نہ ہو۔ تبدیلی ایک سست عمل ہے اوراس کی وجہ سے ہونے والے  نتائج بھی سست ہوتے ہیں اور سول سوسائٹی کی حمایت کے بغیر کوئی تبدیلی نہیں آتی۔“ مارک لی ہنٹر نے ایک حالیہ انٹرویو میں کہا۔

نام نہاد جمہوریت پسندوں کے عروج کے ساتھ صحافت پر حملوں میں اضافہ ہوا ہے اور اس کی وجہ سے احتسابی رپورٹنگ کے ذریعے سامنے آنے والے پالیسیوں میں مسائل یا سرکاری غلطیوں پر حکومتی ردعمل کو تحریک دلانا بہت مشکل ہو گیا ہے۔

درحقیقت، انڈیا میں ایک ایڈیٹر، جہاں مودی حکومت میڈیا پر بہت سختی کر رہی ہے، نے ہمیں بتایا کہ 20 سال پہلے کے مقابلے میں اب کسی مسئلے پر حکومتی ردعمل لانا بہت مشکل ہے۔ "اثر کا وہ سنہری معیار، جس کا ہم بطور صحافی ہمیشہ انتظار کرتے تھے، اب ہوتا نظر نہیں آتا۔ حکومت یا اعلیٰ عہدے پر موجود کوئی بھی شخص ہمارے کام کا جواب نہیں دیتا۔”

آڈئینس پر ہونے والے وسیع ترین اثرات کو سمجھنا

کچھ نے میڈیا کی آڈئینس پر "کوئی قابل فہم اثرات” کو شامل کرنے کے لیے اثرات کی تعریف میں اضافہ کیا ہے، جس میں کسی مسئلے کے بارے میں عوامی بیداری اور بہتر سمجھ  بوجھ شامل ہو سکتی ہے۔ اقتصادیات اور سیاسیات کے سائنسدانوں نے بڑے ڈیٹا سیٹس اور قدرتی تجربات کو استعمال کر کے دکھایا ہے کہ خبر رساں اداروں کی موجودگی حکومت کو بہتر کرتی ہے، بدعنوانی کو کم کرتی ہے، ووٹر ٹرن آؤٹ کو متاثر کرتی ہے، اور وسائل کی حکومتی تقسیم کو ری ڈائریکٹ کرتی ہے۔ ان مطلوبہ اثرات کو میڈیا اداروں کے واچ ڈاگ کے کردار سے منسلک کیا گیا ہے، اور یہ حقیقت کہ وہ کسی اہم حصے پر روشنی ڈال سکتے ہیں یا کسی کا نام عیاں کر کے اسے شرمندہ کر سکتے ہیں۔

یوکرینسکا پراودا جو یوکرین کی سب سے بڑی آزاد خبر رساں اداروں میں سے ایک ہے، کے ایگزیکٹو ڈائریکٹر آندرے بوبوریکن نے کہا کہ روس کے ساتھ ملک کی جاری جنگ بلاشبہ یوکرینیوں کے لیے موسمیاتی تبدیلی اور ماحولیات جیسے موضوعات سے زیادہ اہم ہے۔ تاہم، انہوں نے کہا کہ گلوبل وارمنگ کے بارے میں ایک خبر کو زیادہ توجہ نہیں ملے گی۔ ”آڈئینس جنگ کی وجہ سے ایک سابقہ قومی پارک کے تباہ ہونے کے بارے میں خبر  پڑھنے اور شیئر کرنے کا زیادہ امکان رکھتے ہیں۔ اس قسم کا مضمون ان کی زندگیوں اور جذبات کو متاثر کرتا ہے۔ وہ غصہ محسوس کرتے ہیں اور یہ خبریں زیادہ توجہ حاصل کرتی ہیں،“ بوبوریکن نے ایک انٹرویو میں کہا۔

جب ہم نے انٹرنیشنل کنسورشیم آف انویسٹی گیٹو جرنلسٹس (آئی سی آئی جے) کے شراکت داروں سے پنڈورا پیپرز پر ان کے تعاون کے بارے میں سروے کیا تو انہوں نے کہا کہ انہیں پختہ یقین ہے کہ ان کی رپورٹنگ نے شہریوں کے عقائد اور رویوں کو متاثر کیا ہے۔ 39 میڈیا اداروں میں سے تینتیس (85%) نے آئی سی آئی جے کی تحقیقات کے حوالے سے آڈئینس کی طرف سے اچھا ردِ عمل اور فیڈ بیک موصول ہونے کی اطلاع دی۔

ان 33 میڈیا اداروں میں سے 23 نے کہا کہ انہیں اپنی آڈئینس سے مثبت ردِ عمل ملا تھا  (70%  جوابات) جبکہ چار اداروں نے کہا کہ ان کی اشاعت کسی قسم کی عوامی تنقید یا شدید ردِ عمل کا باعث بنی تھی (21% جوابات)۔

ہم نے رپورٹ آف دا ورلڈ کا جو سروے کیا تھا اس میں بھی اسی طرح کے جوابات سامنے آئے تھے۔ 70% نے کہا کہ ان کی رپورٹنگ نے ان کی آڈئینس کے تاثرات کو تبدیل کیا تھا اور 85% نے کہا کہ ان کی رپورٹنگ کے نتیجے میں ان کی آڈئینس کے علم میں اضافہ ہوا تھا۔

تصویر: سکرین شاٹ، آئی سی آئی جے

نیوز روم کے اندر

جب ہم نے پہلی بار سرحد پار تعاون کا مشاہدہ کرنا شروع کیا تو ہم نے نیوز رومز پر ان کے پڑنے والے اندرونی اثرات کے بارے میں اتنا نہیں سوچا تھا۔ لیکن پھر ہمیں احساس ہوا کہ جدت طرازی آئی سی آئی جے یا رپورٹ فار دا ورلڈ جیسے گروہوں کے ساتھ شراکت کرنے والے اداروں کا ایک مشترکہ ضمنی پروڈکٹ ہے۔تحقیقاتی صحافت کے اثرات کا تجزیہ کرنے کے طریقے کہیں زیادہ بہتر  ہو گئے ہیں۔

”آرایف ڈبلیو کے رپورٹر کے ہونے سے ایجینسیا مورال میں ذہنیت تبدیل ہوئی۔“ ایجینسیا مورال دا جرنلزمو داس پیریفیریاز جو سائو پائولو، برازیل میں ایسے علاقے جن کے بارے میں کم خبریں آتی ہوں پر توجہ رکھتا ہے، کی شریک بانی اور ایگزیکٹو ڈائریکٹر ازابیلا موئی نے کہا۔

درحقیقت، ہمارے آئی سی آئی جے کے ممبران اور آر ایف ڈبلیو کے ایڈیٹرز کے سروے سے معلوم ہوا کہ باہمی تعاون کے منصوبوں پر کام نے رپورٹرز کو نئی مہارتیں حاصل کرنے میں مدد کی، بشمول دستاویز کا تجزیہ، ڈیٹا سکریپنگ، ڈیٹا بیس کا تجزیہ، اور بین الاقوامی رابطہ کاری۔ اس کے علاوہ ہم نے دریافت کیا کہ تعاون مزید تعاون کو جنم دیتا ہے۔

مثال کے طور پر، پنڈورا پیپرز پر آئی سی آئی جے کے ساتھ کام کرنے والے 55 میں سے 37 میڈیا اداروں (69%) نے رپورٹ کیا کہ انہوں نے اس تحقیقات کے دوران یا تو معمول سے کچھ زیادہ یا بہت زیادہ تعاون کیا۔ 55 میں سے 52 میڈیا اداروں (95%) نے رپورٹ کیا کہ آئی سی آئی جے کے ساتھ شراکت داری سے انہیں دوسری تنظیموں کے ساتھ تعاون بڑھانے میں مدد ملی۔

امپیکٹ کا تاریک پہلو: رپورٹر کی حفاظت کو خطرات، مواقع کے اخراجات

ممکنہ طور پر، حساس تحقیقات میں شامل صحافیوں کو کافی خطرات کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔ 55 میں سے پانچ میڈیا اداروں (کل کا 9%) نے رپورٹ کیا کہ حصہ لینے والے صحافیوں کو اپنے کام کی وجہ سے یا تو قانونی دھمکیوں یا جسمانی نقصان کی دھمکیوں کا سامنا کرنا پڑا۔ ایک ادارےنے اطلاع دی کہ ان کے شریک صحافی کو پنڈورا پیپرز کی اشاعت کے بعد عارضی طور پر روپوش ہونا پڑا، جب کہ دوسرے ادارے نے رپورٹ کیا کہ انہیں جان سے مارنے کی دھمکیوں، قانونی دھمکیوں اور نقصان پہنچانے والی کیمپینز کا سامنا کرنا پڑا۔

ہم نے بڑے سرحد پار تعاون کی وجہ سے ہونے والے مواقع کے اخراجات کو بھی دیکھا اور پوچھا کہ بین الاقوامی آئی سی آئی جے تحقیقات پر کام کرنے میں صرف کیے گئے وقت کے نتیجے میں کن کہانیوں کا احاطہ نہیں کیا جا سکتا۔ 55 میں سے سولہ میڈیا آؤٹ لیٹس (29%) نے بتایا کیا کہ وہ پنڈورا پیپرز کے لیے وقف کردہ وقت اور وسائل کی وجہ سے دوسری خبروں کی رپورٹنگ نہیں کر سکے تھے۔ وہ واقعات جنہیں وہ رپورٹ نہیں کر پائے ان میں کوئلہ، جنگلات کی کٹائی، مقامی بدعنوانی، انسانی حقوق کی خلاف ورزیاں اور انسانی اسمگلنگ شامل تھیں۔

تحقیقاتی صحافت کے اثرات کا تجزیہ کرنے کے طریقہ کار کہیں زیادہ بہتر ہو گئے ہیں۔ اقتصادیات اور سیاسی سائنس دانوں کے میڈیا کے اثرات کے متعلق سوالات پر تحقیق سے طریقہ کار مزید بہتر ہوا ہے اور اب سوشل میڈیا پلیٹ فارمز پر موجود اینا لیٹکس بھی ان اثرات کو دکھا رہے ہیں۔ ہماری حالیہ تحقیق بتاتی ہے کہ تحقیقاتی اور باہمی تعاون پر مبنی رپورٹنگ کے اثرات صحافتی برادری پر اس سے بھی زیادہ دور رس ہیں جتنا کہ ہم نے ان منصوبوں کو دہائیوں پہلے شروع کرنے سے پہلے سوچے تھے۔

یہ پوسٹ  GIJN  نے شائع کی تھی اور یہاں ان کی اجازت کے بعد دوبارہ شائع کی گئی ہے۔ اس تحریر میں اندازِ بیاں اور وضاحت کے لیے ہلکی سی ترمیم کی گئی ہے۔

بشکریہ  GIJN 

اپنی رائے دیں

متعلقہ پوسٹس

دوسری زبان میں ترجمہ کریں