إِنَّا لِلَّٰهِ وَإِنَّا إِلَيْهِ رَاجِعُونَ
بڑے شوق سے سن رہا تھا زمانہ ہمیں
ہم ہی سو گے داستان کہتے کہتے –
جناب ایس ایم داؤد شمیم صاحب کی زندگی کا سفر
جناب ایس ایم داؤد شمیم صاحب قیام پاکستان سے کچھ سال قبل ضلع مانسہرہ پندھیڑ کے مقام پر پیدا ہوئے۔ ابتدائی تعلیم پکھل شنئی بالا میں حاصل کی، تیسری جماعت ڈوھوڈیال میں پڑھی، اور میٹرک لاہور سے مکمل کی ۔ ان کی پہلی تعیناتی گورنمنٹ ہائی سکول ڈوھوڈیال میں ہوئی، جہاں سے ان کی تدریسی زندگی کا آغاز ہوا۔ بعد ازاں، انہوں نے گورنمنٹ ہائی سکول بٹل میں 14 سال بطور سینئر ٹیچر خدمات انجام دیں۔ اس کے بعد بالاکوٹ ہائی سکول اور گورنمنٹ ہائی سکول کوٹ گلی میں بھی کئی سالوں تک علمی خدمات سرانجام دیں۔ 1996 میں وہ ریٹائر ہوئے۔
جناب ایس ایم داؤد شمیم صاحب کے سینکڑوں شاگرد آج ملک اور بیرون ملک مختلف اہم عہدوں پر خدمات انجام دے رہے ہیں۔ ان میں سے ایک خاص نام سابق وفاقی وزیر مذہبی امور، جناب سردار محمد یوسف صاحب کا ہے، جنہوں نے بٹل ہائی سکول میں جناب شمیم صاحب سے تعلیم حاصل کی۔
استاد ایک چراغ ہے جو تاریک راہوں میں روشنی کے وجود کو برقرار رکھتا ہے۔ استاد وہ پھول ہے جو اپنی خوشبو سے معاشرے میں امن، محبت، اور دوستی کا پیغام پہنچاتا ہے۔ استاد ایک رہنما ہے جو انسان کو زندگی کی گم راہیوں سے نکال کر منزل کی طرف گامزن کرتا ہے۔ ماں باپ بچوں کی ابتدائی نشوونما کرتے ہیں، لیکن استاد انہیں انسانیت کے اصولوں سے آشنا کرواتا ہے۔ استاد آدمی کو یہ بتاتا ہے کہ معاشرے میں لوگوں کے ساتھ کیسے رشتے قائم رکھنے چاہئیں۔ ایک معمولی آدمی کو آسمان تک پہنچا دیتا ہے۔ استاد مینار نور ہے جو اندھیرے میں راہ دکھاتا ہے۔ ایک سیڑھی ہے جو ہمیں بلندی پر پہنچا دیتی ہے.
استاد کو والدین کے بعد سب سے زیادہ محترم حیثیت حاصل ہے۔ بادشاہ ہوں یا سلطنتوں کے شہنشاہ، خلیفہ ہوں یا ولی اللہ، سبھی اپنے استاد کے سامنے ادب و احترام کے تمام تقاضے پورے کرتے نظر آئیں گے۔ ان ہی عظیم شخصیات میں ایک نام ایس ایم داؤد شمیم صاحب کا بھی ہے۔
ایم ایس داؤد شمیم صاحب کی کمی کو آج ہم سب محسوس کرتے ہیں۔ ان کی خدمات اور تربیت نے کئی زندگیوں کو سنوارا۔ ان کے شاگرد ہمیشہ ان کو یاد رکھیں گے اور ان کی رہنمائی کو قدر کی نگاہ سے دیکھیں گے۔ اللہ تعالی سے دعا ہے کہ جناب ایس ایم داؤد شمیم صاحب کو جنت الفردوس میں اعلی مقام عطا فرمائے اور ان کے اہل خانہ کو صبر جمیل عطا فرمائے۔ آمین۔
(محمد معروف صدیقی)