Skip to content

“جنسی تصورات کی نفسیات”

شیئر

شیئر

مجھ سے فیس بک پر ایک جناب نے گزارش کی جنسی تصورات کی نفسیات پر روشنی ڈالی جائے، لیکن یہ آرٹیکل ہر قسم کی فینٹسی کی عکاسی کرتا ہے، خواہ وہ کامیابی کے تصوارات ہوں، شادی کے متعلق یا رومانس سے منسلک۔

سب سے پہلے سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ تصوارات کیسے بنتے ہیں؟؟

تصوارات (فینٹسی) آپ کے ذہن کی ایک خصوصیت (فیچر) ہے، یہ خصوصیت ہر انسان کے ذہن میں پائی جاتی ہے۔ ہم چیزوں کو تصور تب کرتے ہیں جب یا تو حقیقی زندگی میں انہیں حاصل کرنے یا ان تک رسائی ہونے کے امکانات نہ ہونے کے برابر ہوتے ہیں یا پھر مستقبل میں جو ہونے والا ہے اسکو ہم تصور کے ذریعے تجربہ کرنے کی کوشش کرتے ہیں۔ اور اگر کوئی ٹروما سے گزرا ہے بچپن میں تو وہ ذہن کی اس خصوصیت کا استعمال اپنے تکلیف دہ جذبات اور حقیقت سے فرار حاصل کرنے کے لیے کرتا ہے۔ البتہ اس دنیا میں ہر انسان کے ذہن میں تصور کرنے والا فیچر موجود ہے۔

ان جناب نے یہ بھی پوچھا کہ کیا جنسی تصورات نارمل ہوتے ہیں یا یہ تصور ایب-نارمل حرکت میں شمار ہوتا ہے؟؟

آپ کے جنسی تصوارات سے اگر کسی کو کوئی نقصان نہیں پہنچ رہا، اور آپ کے تصوارات آپ کی روزمرہ زندگی، صحت، شادی شدہ زندگی، کام میں خلل نہیں پیدا کررہے تو وہ محض تصورات ہیں آپ ان تصوارات کو نہیں روک سکتے۔ لیکن اگر آپ کے تصورات میں جارحیت پسندی ہو، یا آپ کو لگتا ہے کہ آپ کی ذہنی کیفیت درست نہیں اس لیے آپ کے تصورات بہت شدت پسند ہیں اور آپ خود کو یا کسی انسان کو تکلیف پہنچا رہے ہیں، آپکا کام یا رشتے متاثر ہورہے ہیں تو ان حالات میں آپ کو کسی ماہرِ نفسیات کی مدد لینی چاہیے۔

لیکن اب یہ جاننا ضروری ہے کہ آپ کی فینٹسی کا مواد آتا کہاں سے ہے؟ کیونکہ ذہن میں خصوصیت تو موجود ہے لیکن کیا مواد بھی موجود ہوتا ہے؟؟

ہم انسانوں کے متعلق ایک بہت ہی تلخ فلسفہ جس کی تصدیق نفسیات بھی کرتی ہے، وہ یہ ہے کہ : “آپ جو چاہیں اس دنیا میں حاصل کرسکتے ہیں لیکن آپ چاہتے کیا ہیں یہ آپ چاہ نہیں سکتے”۔
آسان الفاظ میں کہوں تو “آپ جس چیز کو تصور کرنا چاہے کر سکتے ہیں لیکن آپ کے تصورات کا مواد آپ کے ذہن کے پاس مختلف ذرائع سے آتا ہے… جس میں ثقافت، معاشرہ، آپکے بچپن کے تجربات، ماضی کے تجربات، جذباتی یا جسمانی ضروریات جو بچپن میں ادھوری رہ گئیں، آپ کی شخصیت کی نفسیات وغیرہ شامل ہیں۔
لیکن وہ چیز جو بہت ہی طاقتور ہے آج کے دور میں وہ ہے میڈیا اور سوشل میڈیا۔ میڈیا میں ڈرامے، گانے، ویب سیریز، پورن، سوشل میڈیا کی شارٹ وڈیوز یہ سب شامل ہیں۔ اور میڈیا کا اثر آپ کی سوچ سے بھی کئی گنا زیادہ ہے آپ کی شادی، کامیابی، جنسی تعلق، خوبصورتی، رومانوی تعلق، زندگی کا مقصد…. ان سب کے متعلق تصورات اور فینٹسی زیادہ تر آج کے دور میں یہیں سے آتی ہے۔ آپ کو شادی، آزادی، خوشی، سیکس، رومانس، دوستی، اچھائی، برائی، رشتے، کامیابی، خوبصورتی کا ماڈل میڈیا اور سوشل میڈیا دے رہا ہے آج کل۔ ماڈل فراہم کرنا غلط بات نہیں لیکن ذرا سوچیں کہ ماڈل فراہم کرنے والا آپ کو “گمراہ” اور “الجھن” کا شکار کررہا ہو کیونکہ اس سے ماڈل بنانے والے کا مفاد جڑا ہے کہیں نہ کہیں!!

مثال کے طور پر آپ کسی انسان کو گھڑی کے وقفہ میں گھڑی پہن کر خوش ہوتا دیکھتے ہیں، لڑکیاں مڑ مڑ کر اس لڑکے کی گھڑی دیکھ کر اس پر واری نیاری جارہی ہیں تو اس سے آپ کے لاشعور کو یہ پیغام ملتا ہے کہ اگر میں بھی یہ گھڑی خرید لوں تو شاید اس آدمی کی طرح لوگ مجھے بھی مڑ مڑ کر دیکھیں (یہی رویہ ہمسفر، رومانس اور سیکس کو لے کر بھی ہوتا ہے) اور میں بہت خوش محسوس کروں، انسان آئینہ دار مخلوق (مرر-رنگ کریئیچر) ہے، ہم سب ایک انسان کو خوش دیکھ کے اسکے نقشِ قدم پر چل کر خوش ہونا چاہتے ہیں۔ سرمایہ دارانہ نظام اسی فلسفہ اور نفسیاتی اصول پر قائم ہے۔ اب یہ صحیح ہے یا غلط یہ ایک الگ بحث ہے لیکن اپنے ذہن کی اس خصوصیت (فیچر) کو سمجھ کر آپ بہت سے غلط فیصلے جو دوسروں کی دیکھا دیکھی ہیں، لینے سے بچ سکتے ہیں۔ کیونکہ جب بھی آپ ہر فینٹسی کو حقیقت میں بدلتے ہیں تو ایک چیز بھول جاتے ہیں…. کیا ہی وہ چیز؟؟؟

وہ یہ کہ تصورات کی دنیا میں “غلطیاں” (ایرر)اور “خرابیاں” نہیں ہوتیں۔ جب کہ حقیقی دنیا تو غلطیوں اور عدم یقینی کی صورتحال سے بھری پڑی ہے۔ آپ اور آپ کا پاڑٹنر اور تین چار لوگ ایک کمرے میں جو بھی کررہے ہو اپنی فینٹسی میں وہ سب فینٹسی میں بہت زبردست محسوس ہوتا ہے اکثر لوگوں کو، کیونکہ اس سے پلیژر کا ہارمون خارج ہوتا ہے دماغ ہے، لیکن آپ اپنی فینٹسی میں کمرے میں موجود تمام کرداروں کا رویہ، عمل، ردِ عمل، چہرے کے تاثرات، ذہن، نفسیات حتی کہ سب کچھ کنٹرول کرسکتے ہو، لیکن کیا حقیقت میں یہ ممکن ہے؟؟؟

یہ حقیقت میں ناممکن ہے، کیونکہ انسان بہت پیچیدہ اور جذبات سے بھرپور مخلوق ہے، انسانوں کے اندر انا، خود-توقیری، خود-خیالی، عزتِ نفس، شناخت، اور بھی پیچیدہ عوامل موجود ہوتے ہیں، آپ کے لیے کسی بھی انسان کے ردِ عمل کو کنٹرول کرنا ناممکن ہوسکتا ہے۔ آپ کو نہیں معلوم کہ جب آپ اپنی فینٹسی کو حقیقت کا لباس پہنائیں گے تو اسکا روپ بھیانک ہوگا یا پھر ہر قسم کے عیب سے پاک!!!

حقیقت میں عیب اور غلطیاں ہوتی ہیں۔ اور یہی وجہ ہے کہ اکثر لوگوں کو اپنی فینٹسی کو حقیقت میں تبدیل کرنے کا خمیازہ بھگتنا پڑتا ہے۔

آپ کی فینٹسی آپ کے لاشعور میں جانے کا ذریعہ بھی ہوسکتی ہے، کیونکہ بہت سے لوگ جن کی جذباتی اور جسمانی ضروریات مکمل نہ ہوئی ہوں، تو پھر فینٹسی وہ ایک ذریعہ سے جس سے بہت سے لوگ حقیقت سے پرے اپنی ضروریات کو اپنے ذہن میں پورا کرنے کی کوشش کرتے ہیں(لیکن حقیقت میں آپ ہمیشہ خالی ہی رہیں گے)۔ فینٹسی حقیقت سے فرار بھی دیتی ہے اگر حقیقت بہت تکلیف دہ ہو تو دماغ فینٹسی کے فیچر کا استعمال کرکے آپ کو اس تلخ تجربہ/جذبات/حقیقت سے دور لے جاتا ہے۔ میرے وہ کلائنٹ جن کے والدین کی علیحدگی، والدین میں سے کسی ایک کی وفات، سخت مزاج نرگسیت پسند والدین، وغیرہ جیسے واقعات سے گزرنا پڑا تو انہوں نے اپنے ذہن میں پوری رومانوی کہانیاں گڑھ رکھی تھیں کیونکہ وہ ادھوری ضروریات کو ذہن میں مکمل کرکے اپنے اندر کے خالی پن کو بھرتے تھے۔ لیکن وہ خالی پن کبھی نہیں بھرتا تھا، گزرتے وقت کے ساتھ مزید گہرا ہوتا جارہا تھا تبھی وہ تھراپی میں آئے۔

یہاں کارل یونگ کی تھیوری بہت کارآمد ثابت ہوتی ہے، “انا” اور “سایہ” والی۔ کیونکہ فینٹسی میں موجود سارے کردار آپ ہی کی نفسیات اور جذباتی ضرورتوں کی عکاسی کرتے ہیں۔ کسی کی سیکشول فینٹسی میں کوئی بہت دیوانہ عاشق مزاج ہوسکتا/سکتی ہے، کوئی بہت رومانوی ہوسکتا/سکتی ہے، کوئی جارحانہ… یہ فہرست نہ رکنے والی ہے۔ آپ غور کریں کہ آپ کے تصورات کن کرداروں اور رویوں کے گرد گھومتے ہیں۔

مثال کے طور پر میرا ایک کلائنٹ جو بظاہر بہت مضبوط مرد نظر آتا ہے لیکن اسکے جنسی تصورات میں مطیع سلوک (سبمسوو رویہ) پایا جاتا ہے، اور اسکی سمجھ نہیں آتا کہ وہ کیوں ایسا ہے، وہ اس کا اظہار اپنے پارٹنر
سے نہیں کرسکتا! یہاں بھی یونگ کی “انا” اور “سایہ” والی تھیوری کا استعمال اس الجھن کو ختم کرتا ہے

کیونکہ جب کسی گھر یا ثقافت میں آپ پر جذباتی طور پر بہت مضبوط رہنے کا دباؤ ہو تو اسکا متضاد رویہ “جذباتی کمزوری” جسکا اظہار کرنا صرف عورتوں پر فرض نہیں ہے، آپ کا “سایہ” یعنی کہ ایک رازدارانہ رویہ بن جاتا ہے اور پھر یہی رازداری ان لوگوں کو انٹرنیٹ پر کچھ اس قسم کی سرگرمیوں میں ملوث کرتی ہے جنکا وقت کے ساتھ محض نقصان ہوتا ہے۔ (کاش ہم انسانوں میں اتنا صبر ہوتا کہ ہم اپنے قریبی رشتوں کو سنتے سمجھتے نہ کہ انہیں اپنی انا کی تسکین اور اپنے مقصد کے لیے استعمال کرتے)۔

اس لیے اپنے پارٹنر سے اپنے جنسی تصورات کو شیئر کرنا بہت اہم ہے، لیکن یہ ناممکن ہے کیونکہ اس کے لیے جو جذباتی بلوغت چاہیے اسکا فقدان ہے ہمارے یہاں۔ یہی وجہ ہے کہ لوگوں کے چہروں پر دس قسم کے مکھوٹے ہیں، ان مکھوٹوں کو سنبھالنے میں انکی بہت ساری توانائی لگ جاتی ہے لیکن ایک دن ایسا آتا ہے جب آپ کا “سایہ” سب کے سامنے آشکار ہوجاتا ہے۔ دنیا کے سامنے مکھوٹے لگانا غلط نہیں کیونکہ دنیا کے ساتھ لین دین کا رشتہ ہے، البتہ آپ کے ہمسفر کے ساتھ تعلقات لین دین سے برتر ہونے چاہیے۔

ہر فینٹسی پر عمل درآمد کرنا گھاٹے کا سودا ہوسکتا ہے، اس لیے “شیڈو ورک” کے ذریعے یا جرنلنگ ، میڈیٹیشن کے ذریعے آپ اپنے تصورات کو اپنے شعور میں لاسکتے ہیں۔ کبھی کبھار صرف اپنے تصورات کو اپنے شعور میں لے آنا یا اسے قبول کرکے اپنی شخصیت کا حصہ ماننا اور اس کے لیے خود کو شرمندہ یا جج نہ کرنا آپ کی توانائی بچا سکتا ہے۔ یا پھر تھراپسٹ کے ساتھ “شیڈو ورک” کرنا یا “ٹاک تھراپی” کے ذریعے بھی آپ بہتر طور پر خود کو سمجھ سکتے ہیں، اور ادھوری/نامکمل ضروریات جو پوری ہوسکتی ہیں انہیں پورا کرکے اور جنہیں محض قبول کرنا ہے اسے قبول کرکے زندگی میں آگے بڑھ سکتے ہیں۔

جنسی تصورات کے علاوہ کامیابی، خوبصورتی، رومانس کو لے کر سرمایہ دارانہ نظام نے دکھتی رگوں پر پاؤں رکھا ہوا ہے اور لوگوں کی فینٹسیز اس قدر گمراہ کردینے والی ہوچکی ہیں کہ جسکو اس “عیب” اور “غلطیوں” سے بھری دنیااور بنی نوع انسانوں کی نسل میں تو کوئی بھی پورا نہیں کرسکتا اور نہ ہی انہیں پورا کرکے آپ کبھی خوشی حاصل کر پائیں گے کیونکہ ان تصورات کے پسِ پشت مختلف پراڈکٹ کو پیچنا اصل مقصد ہے نہ کہ آپ کی خوشی۔ ایسے “گمراہ” اور “الجھن” کا شکار کردینے والے مواد کو دیکھنے سے گرہیز کریں کیونکہ آرٹیکل کے شروع میں ذکر کیا میں نے کہ فینٹسی کا فیچر تو موجود تھا، ہے اور رہے گا آپ کے ذہن میں لیکن اس میں جو مواد شامل کررہے ہیں اس پر کڑی نظر رکھیں!!

psycholgy #fantasy #fantasies #emotions #shadow #ego #egochallenge #sexualfantasy #sexeduction

تشکّر
ندا اسحاق

اپنی رائے دیں

متعلقہ پوسٹس

دوسری زبان میں ترجمہ کریں