گلگت بلتستان میں موسمیاتی آفات سے متاثرہ کمیونٹیز ڈپریشن اور بے خوابی کا شکار ہیں
ین سال گزرنے کے بعد بھی گاؤں والے دل شکستہ ہیں”، حاجدہ پروین نے ایک سیلاب کا حوالہ دیتے ہوئے کہا جس نے شمالی پاکستان کے گلگت بلتستان (جی بی ) کے علاقے میں بڈسوات گاؤں کا آدھے سے زیادہ حصّہ بہا دیا۔
پروین این جی او آغا خان رورل سپورٹ پروگرام کے ساتھ بطور سوشل موبلائزر وابستہ ہیں۔ وہ کہتی ہیں کہ 2018 میں برفانی طوفان کے سیلاب کے بعد سے، “ایسا لگتا ہے گاؤں والوں کو کچھ بھی خوش نہیں کرتا”۔ “ایک مشترکہ تقاضہ ہے ‘ہمیں ہماری زمین واپس کر دو’۔”
سیلاب کی وجہ سے ایک بہت بڑی جھیل بن گئی۔ اس نے جی بی کے غذر ضلع میں باقی ماندہ وادی سے 10 دیہاتوں کو جانے والی سڑک بلاک کر دی۔ تیس گھر، ایک اسکول اور 65 ایکڑ سے زائد پیداواری اراضی زیر آب آگئی۔ کوئی جانی نقصان نہیں ہوا، لیکن 1000 کے قریب لوگوں کو وہاں سے نکالنا پڑا۔ زیادہ تر لوگ اب گاؤں واپس آ چکے ہیں لیکن وہ اب بھی عارضی پناہ گاہوں میں رہ رہے ہیں کیونکہ ان کے سابقہ گھر سیلابی پانی سے تباہ ہو چکے ہیں۔
پورے ہندوکش ہمالیہ میں، کمیونٹیز موسمیاتی تبدیلیوں کے اثرات کا شکار ہو رہی ہیں، خاص طور پر پچھلی دو دہائیوں میں۔ صرف غذر میں، ہزاروں رہائشیوں کو سیلاب اور لینڈ سلائیڈنگ کا سامنا کرنا پڑا جس سے سڑکیں، کھیت، گھر اور دیگر عمارتیں تباہ ہو گئیں۔ یہ ذہنی صحت کے مسائل کا باعث بن رہا ہے، جس کے بارے میں رہائشی سماجی بدنامی کے خوف سے پبلک میں بات نہیں کرتے ہیں۔
پاکستان کے شمالی پہاڑوں کے 2021 کے ایک مطالعے سے پتا چلا ہے کہ خطے کی کمیونٹیز کے پاس “قدرتی دباؤ سے پیدا ہونے والے منفی اثرات سے نمٹنے اور انہیں کم کرنے کے لیے ناکافی یا سرے سے کوئی متبادل ہی نہیں ہے۔” اس تحقیق میں جی بی کے 10 اضلاع کا جائزہ لیا گیا جہاں آب و ہوا سے پیدا ہونے والے خطرات کی ایک طویل تاریخ ہے۔ اس مطالعہ میں غذر کو تین سب کمزور علاقوں کی فہرست میں رکھا ہے-
گھمو بیر ان گلیشیئرز میں سے ایک ہے جو ڈھلوانوں سے گلگت بلتستان کے گاؤں درکوٹ کی طرف بہتا ہے۔ برفانی جھیل کے پھٹنے سے آنے والے سیلاب اور گلیشیئر کے تیزی سے پگھلنے سے آنے والے سیلابوں سے مکینوں میں شدید بے چینی پائی جاتی ہے۔ (تصویر بشکریہ نصرت علی خان )
جی بی میں پاکستان کے محکمہ موسمیات کے علاقائی سربراہ فرخ بشیر کا کہنا ہے کہ یہ آفات محض ایک تمہید تھی۔ “درجہ حرارت میں معمولی تبدیلی بھی پہاڑ کی نازک ماحولیات کے ساتھ تباہی مچا سکتی ہے،” انہوں نے گلگت سے فون پر بات کرتے ہوئے تھرڈ پول کو بتایا۔
تباہی کے خوف کر بیچ زندگی
” مسلسل خوف کے ساۓ میں زندگی کا تصور کریں کہ آپ بنا صحت کی سہولت، خوراک اور بجلی کے بغیر بے یارومددگار ہوں،” جاوید اقبال نے کہا، جو ایک این جی او کے ساتھ ایک دہائی سے زائد عرصے سے غذر کے رہائشیوں کی زچگی اور ذہنی صحت پر کام کر رہے ہیں۔
اقبال موسمیاتی تبدیلی اور دماغی صحت کے مسائل کے درمیان تعلق کو دیکھتے ہیں، اور بہت سے لوگوں کو بے چینی اور ڈپریشن میں مبتلا دیکھ رہے ہیں۔
بڈسوات سے کچے راستے پر چھ گھنٹے کی جیپ کی سواری آپ کو درکوٹ گاؤں تک لے جاتی ہے۔ درکوٹ کے واحد سرکاری کلینک کے ایک 45 سالہ پیرامیڈک نصرت علی خان اس بات کی تصدیق کرتے ہیں کہ تقریباً 1,000 لوگوں کے اس گاؤں میں ذہنی پریشانی پھیلی ہوئی ہے۔ انہوں نے کہا کہ 2010 سے سیلاب ایک “باقاعدہ معمول” بن گۓ ہیں، اسی لئے کمیونٹی مسلسل خوف کے ساتھ رہتی ہے کہ اگلا سیلاب کب آئے گا۔
خان نے گاؤں والوں میں “افسردگی کے آثار” کے بارے میں بات کی۔ “وہ بے خوابی کی شکایت کرتے ہیں اور صرف اپنے حالات زندگی، اپنے مویشیوں اور کھوئی ہوئی زمین کے بارے میں بات کرتے ہیں۔”
“میں انہیں مشورہ دیتا ہوں، انہیں کہتا ہوں کہ وہ گلگت [53 کلومیٹر دور] میں کسی ماہر نفسیات کے پاس جائیں، لیکن وہ ایسا نہیں کرتے،” انہوں نے مزید کہا۔ “میں انہیں الزام نہیں دوں گا؛ یہ کام مہنگا اور وقت طلب ہے۔” کسی متبادل کی عدم موجودگی کی صورت میں، وہ انہیں نیند کی گولیاں یا کچھ سکون آور دوائیں دے دیتے ہیں۔
وہ صرف اس آفت کے بارے میں سوچتے اور بات کرتے ہیں جو ان پر آئی؛ انہیں تباہی کے منظر سے بہت دور لے جانے کی ضرورت ہے
جاوید اقبال
کسی کو لیبل لگانے سے محتاط لیکن پوسٹ ٹرومیٹک اسٹریس ڈس آرڈر (PTSD) کا مشاہدہ رکھتے ہوۓ، اقبال نے کہتے ہیں کہ یہ ان لوگوں میں پیدا ہوسکتا ہے جنہوں نے ایسے خطرناک واقعات کا سامنا کیا ہے جنہوں نے ان کی زندگیوں میں خلل ڈالا ہے۔ تباہی کے مہینوں اور سالوں گزر جانے کے بعد بھی ، وہ لوگوں کو “جھیل کے پاس بیکار بیٹھے، پانی کو گھورتے ہوۓ” دیکھتے ہیں۔
اے کے آر ایس پی کی پروین کی طرح، اقبال کا خیال ہے کہ رہائشیوں کو یہ جگہ چھوڑ دینی چاہیے۔ “وہ صرف اس آفت کے بارے میں سوچتے اور بات کرتے ہیں جو ان پر آئی تھی۔ انہیں تباہی کے منظر سے بہت دور لے جانے کی ضرورت ہے،‘‘ انہوں نے تجویز کیا۔
“وہ اپنے گھر، اپنی زمین اور اپنے تمام اثاثے کھو چکے ہیں۔ لکڑی یا بجلی کے بغیر ان کے موجودہ حالات زندگی کٹھن ہیں۔” اقبال کہتے ہیں۔ انہوں نے مزید کہا کہ سیلاب میں تباہ ہونے والے کئی مائیکرو ہائیڈرو پاور پلانٹس کی مرمت کا کام جاری ہے۔
پروین نے کہا: “ایک زمانے میں ان کے پاس موجود وسیع اراضی کے مقابلے میں، پچھلے تین سالوں سے وہ ایک کمرے کے چھوٹی پناہ گاہوں میں رہ رہے ہیں جو ان کے سیلاب زدہ گھر سے کچھ ہی فاصلے پر ہے، یہاں وہ سوتے ہیں، کھانا پکاتے ہیں اور اپنا سامان محفوظ کرتے ہیں۔”
کھریگل گھمو ایک اور گلیشیئر ہے جو نیچے گلگت بلتستان کے گاؤں درکوٹ کی طرف بہتا ہے۔ (تصویر بشکریہ نصرت علی خان )
ماہر موسمیات بشیر نے 2010 میں عطا آباد جھیل کی تباہی کے دوران، جی بی میں وادی ہنزہ کے گوجل خطّے میں اسی طرح کے صدمے کا مشاہدہ کیا تھا۔ پاسو گلیشیئر پر موسمی اسٹیشن قائم کرنے کے لیے دو ماہ وہاں قیام کے دوران، انہوں نے ان لوگوں کے چہروں پر “درد اور تناؤ” دیکھا جن کے گھر، زمین اور باغات “ان کی آنکھوں کے سامنے” پانی میں ڈوب گئے۔
بشیر نے نشاندہی کی کہ نقل مکانی بہت بڑی سماجی قیمت پر آتی ہے، کیونکہ اس کا مطلب ہے “طویل عرصے سے قائم وابستگیوں اور تعلقات” کو ختم کردیا جاۓ۔
خودکشی کی بڑھتی ہوئی شرح
صدمے کے اثرات میں، خاص طور پر تشویش کن بات خودکشیوں میں اضافہ ہے، خصوصاً نوجوان خواتین میں۔
مقامی صحافی دردانہ شیر 2005 سے اس صورتحال کو دستاویزی شکل دے رہے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ جی بی کے کسی بھی دوسرے حصے کے مقابلے ضلع غزر سے خودکشی کے زیادہ واقعات رپورٹ ہو رہے ہیں۔ 2006 اور 2017 کے درمیان، انہوں نے غذر میں 203 خودکشیاں رپورٹ کیں۔ گزشتہ دور میں عوامی طور پر کوئی ریکارڈ دستیاب نہیں ہے، لیکن مقامی ڈاکٹروں کا کہنا ہے کہ تعداد بہت کم تھی۔
اگرچہ خودکشی کی بہت سی وجوہات ہیں، شیر نے ماحولیاتی تباہی کے ممکنہ سنگین اثرات کو تسلیم کیا۔ “جہاں پورا گاؤں ایک آفت کی زد میں آجائے اور آپ اپنا خاندان، اپنا گھر کھو بیٹھیں اور دوسری جگہ منتقل ہو جائیں”۔
دردانہ شیر نے 2017 میں خودکشیوں کی رپورٹنگ بند کر دی، جب کمیونٹی کے بزرگوں نے کہا کہ یہ “ہمارے علاقے کو بدنام کر رہا ہے”۔
اقبال اور ان کی ٹیم نے غذر میں خودکشیوں پر وسیع تحقیق کی ہے اور نوجوانوں کو مشکلات سے نمٹنے کی تربیت دینے کے لیے ایک “زندگی کی مہارت” کا کتابچہ تیارکیا ہے۔ اقبال نے مزید کہا کہ 2019 کے بعد سے ضلع سے کسی خودکشی کی اطلاع نہیں آئی۔
انہوں نے کہا کہ حکومت کے لیے یہ تسلیم کرنا ضروری ہے کہ موسمیاتی تبدیلیوں کے اثرات ذہنی صحت پر سنگین نتائج مرتب کرتے ہیں اور ان اثرات کو کم کرنے پر کام ہونا چاہیے۔
موسمیاتی اثرات یہاں پہلے ہی موجود ہیں
حکومت کو اسے آتے ہوۓ دیکھنا چاہیے تھا۔ آئی پی سی سی (انٹر گورنمنٹل پینل آن کلائمیٹ چینج) نے 2012 کی ایک رپورٹ میں خبردار کیا تھا کہ گلوبل وارمنگ سیلابوں کوکثِير الوَقُوع اور شدید بنا رہی ہے۔ غذر کے زیادہ تر رہائشی اس تعلق سے ناواقف ہیں، لیکن وہ دوسری بڑی وجہ درختوں کی کٹائی کو دیکھ رہے ہیں۔
بشیر نے کہا، “مسلسل بڑھتی ہوئی آبادی کی ضروریات کو پورا کرنے کے لیے درختوں کی کٹائی نے مٹی کو ڈھیلا اور کمزور بنا دیا ہے۔” انہوں نے مزید کہا کہ مٹی کا کٹاؤ ان پانی کی نالیوں سے مزید بڑھتا ہے جو لوگ اپنے کھیتوں کو سیراب کرنے کے لیے کھودتے ہیں۔
اقبال آب و ہوا کے مزید اثرات گنوا سکتے ہیں۔ “جب میں چھوٹا تھا، ہم نے اناج اور گوشت کو دو مہینے تک ذخیرہ کیا کیونکہ ہمارے گھروں پر برف پڑے گی۔ لیکن اب اتنی زیادہ برفباری نہیں ہوتی۔” ریفریجریٹرز کے بغیر رہنا، بہت کم درجہ حرارت خوراک کو ذخیرہ کرنے میں مدد کرتا ہے۔ برفباری بھی اہم ہے کیونکہ یہ پگھل موسم بہار کی فصلوں کو سیراب کرتی ہے۔
دردانہ شیر یاد کرتے ہیں کہ بارشیں آہستہ اور وسیع ہوتی تھیں۔ “اب یہ طوفانی ہوتی ہیں، جیسا کہ آپ شہروں میں دیکھتے ہیں۔”
بشیر بارش کے بدلتے ہوئے انداز کی تصدیق کرتے ہیں۔ “قراقرم اور ہمالیہ میں گلیشیئرز کا رویہ مختلف ہے، کچھ گلیشیئر پیچھے ہٹ رہے ہیں اور کچھ بڑھ رہے ہیں۔” حالیہ برسوں میں برفانی لہروں اور برفانی جھیلوں کے پھٹنے والے سیلاب سب سے زیادہ خطرہ رہے ہیں، انہوں نے شمشال وادی میں خردوپن گلیشیئر اور حسن آباد، ہنزہ میں شیشپر گلیشیئر میں اضافے کی مثالیں دیتے ہوئے مزید کہا۔ یہ گلیشیئرز وادیوں کو مسدود کرتے، جھیلیں پیدا کرتے غیر معمولی طور پر مختصر وقت میں میلوں تک پھسل گئے ہیں۔ گلیشیئر اس وقت بڑھتے ہیں جب ان کی بنیاد پر پگھلا ہوا پانی اوپر کی برف کی تہہ کو چکنا کرتا ہے۔
صحت کی دیکھ بھال کرنے والے کارکنوں کو خصوصی تربیت کی ضرورت ہے۔ اسی معاملے پر فلمساز حیا فاطمہ اقبال نے حال ہی میں آغا خان ایجنسی فار ہیبی ٹیٹ کے لئے دی اسکائی از فار، دی ارتھ از ٹف کی ہدایت کاری کی ہے۔ فلم بناتے وقت، انہوں نے متاثرہ کمیونٹیز کے ساتھ تین ہفتے گزارے اور دیکھا کہ کس طرح ذہنی مسائل نے انہیں گھیررکھا ہے۔
“مستقبل میں موسمیاتی آفات کی تعدد میں اضافہ ہونے کے پیش نظر، ہمیں صحت کی دیکھ بھال کرنے والے کارکنوں کو ذہنی صحت کے مسائل کی نشاندہی کرنے اور سنبھالنے کی تربیت دینی چاہیے جو ان کمیونٹیز کو گھیر رہے ہیں،” فاطمہ اقبال نے کہا، مزید یہ کہ ذہنی صحت کا جائزہ لینا آفات کے جوابی اقدامات کا حصہ بننا چاہیے۔
دارکوٹ کے پیرامیڈیک، خان نے کہا کہ یہ بہتر ہوگا کہ مقامی لوگوں کو ذہنی بیماری کی علامات کو پہچاننے اور ان کو سنبھالنے کی تربیت دی جائے، کیونکہ حوالہ جات کام نہیں کر رہے۔ انہوں نے زور دیا کہ ذہنی صحت کی دیکھ بھال کے منصوبوں کو ڈیزائن کرتے وقت، کمیونٹیز سے مشورہ لینا ضروری تھا۔ ” آئیں ہم سے ملیں، ہم سے بات کریں، دیکھیں کہ ہم کیسے رہتے ہیں، ہمارے حالات کا مطالعہ کریں، اور پھر ہمارے لیے منصوبہ بنائیں۔”
یہ مضمون اصل میں دی تھرڈ پول پر کریٸیٹو کامنز لاٸنسنس کے تحت شاٸع ہوا ہے۔