پانچ اور چھ مئی کی درمیانی شب تھانہ مانگل کی ٹنن بیریئر پر قلندرآباد کے معروف تاجر سلیم اعوان ان کے دو بیٹوں اور ڈرائیور اور چوکی پر تعینات اہلکاروں کے مابین پیش آنے والے واقعہ کے اصل حقائق سامنے آگئے ۔
واقعہ کی تفصیلات سے آگاہ ایک ذریعہ کے مطابق قلندرآباد بازار کے معروف تاجر کا سامان ہر روز مانسہرہ بازار سے لیکر آتا ہے ۔جہاں راستے میں مال پانی کیلئے اہلکاروں کی جانب سے ڈرائیور کو تنگ کرنا اور بے جا روکنا معمول کی بات ہے ۔واضح رہے کہ اسی ڈرائیور نے چند ہفتے قبل پولیس رویے اور بھتہ مانگنے کے حوالے سے ایک پریس کانفرنس بھی کی تھی ۔جو کہ ریکارڈ پر موجود ہے ۔تاہم واقعہ کے روز بھی ٹنن بیریئر صبح کے وقت بھی اسی گاڑی کو روکا گیا اور مقامی تھانہ اہلکاروں کی سفارش پر اسے چھوڑ دیا گیا ۔لیکن اسی رات جب وہ دوبارہ مانسہرہ سے سامان لیکر واپس آئے تو اس کے ہمراہ سلیم اعوان کا بیٹا ابراہیم بھی موجود تھا ۔انہیں حسب معمول بیریئر پر روکا گیا ۔اس دوران وسیم توقیر انیس نامی اہلکار نے ابراہیم کیساتھ انتہائی ہتک آمیز اور نازیبا گفتگو شروع کردی ۔ رات دس بجے کے قریب ابراہیم نے اس واقعہ کی اطلاع اپنے والد کو دی ۔جب سلیم اعوان اپنے چھوٹے بیٹے عبداللہ کے ہمراہ موقع پر پہنچے تو وہاں ان کی آپس میں تلخ کلامی اور ہاتھا پائی شروع ہوگئی ۔ تاہم تھوڑی دیر بعد مقامی معززین کی مداخلت پر یہ معاملہ رفع دفع ہوگیا لیکن چوکی انچارج عبدالسلام جو کہ مانگل کا رہائشی اور اسی تھانہ میں تعینات ہے نے معاملے کو مزید الجھا دیا اور راضی نامہ کے بہانے سلیم اعوان ان کے بیٹوں اور ڈرائیور کو تھانے لے گئے ۔اور وہاں پہنچ کر انہیں حوالات میں بند کرتے ہوئے ان کے خلاف قاتلانہ حملہ ،کارسرکارمیں مداخلت ،اسلحہ لہرانے سمیت متعدد دفعات کے تحت مقدمہ درج کر کے انہیں رات کی تاریکی میں تھانہ میرپور اور تھانہ نواں شہر منتقل کردیا گیا ۔مقامی معززین اور تاجر برادری کی مداخلت کے بعد چاروں افراد کو 6 مئی کی سہہ پہر کو واپس تھانہ مانگل لایا گیا ۔
جہاں تاحال ان کے ساتھ ملاقات پر پابندی عائد ہے اور جہاں اہل خانہ ،عمائدین علاقہ اور تاجر برادری کو بھی ان سے ملنے کی اجازت نہیں دی جارہی ہے ۔جس سے یہ ثابت ہوتا ہے کہ تینوں افراد کے خلاف ایف آئی آر درج کئے جانے کے باوجود ان کی گرفتاری ظاہر نہیں کی گئی ۔اور انہیں رات کو دوسرے تھانہ جات میں منتقلی کا مقصد بظاہر یہی تھا کہ ان کی گرفتاری بعدازاں ظاہر کیا جائے ۔جس پر یہ خدشہ بھی ظاہر کیا جارہا ہے کہ انہیں حراست کے دوران تشدد کا نشانہ بنایا جاسکتا ہے ۔
یہاں چند حقائق کو مدنظر رکھنا ضروری ہے تا کہ معاملہ کی اصل تصویر سامنے آسکے ۔
1:پولیس اہلکاروں کی جانب سے عام شہریوں کیساتھ رویہ ایک فاتح قوت جیسا کیوں ہوتا ہے جس کے نتیجے میں عام امن پسند اور قانون پرست شہری اور نوجوان بھی پولیس سے سخت نالاں اور نفرت کرتے ہیں ۔حالانکہ پولیس تو اسی ملک کے شہریوں کے ٹیکسوں سے جمع ہونے والے خزانے سے تنخواہ پاتی ہے اپنے بچوں کی پرورش کرتے ہیں جس کے بدلے میں وہ شہریوں کی جان و مال کے مقدس فریضہ کے امین ہوتے ہیں ۔
2:تاجر ملک کا سب سے پرامن ترین طبقہ ہے جو بھاری ٹیکس ادا کرتا ہے اور ملکی معیشت کا پہیہ چلاتا ہے وہ بدامنی اور لڑائی جھگڑے سے دور رہتا ہے
3:اپنے کاروبار کو محفوظ رکھنے کیلئے وہ پولیس کے ساتھ خوشگوار تعلق بناتا ہے ،انہیں خرچہ پانی اور تحفہ تحائف دیتا ہے ۔وہ بھاری بل ادا کرتا ہے حکومت کو ٹیکس دیتا ہے ،غنڈوں کو بھتے دیتا ہے ،تاکہ اس کا کاروبار اور عزت محفوظ رہے اور ملکی معیشت کا پہیہ چلتا رہے ۔
4: ایسے حالات کیوں پیدا ہوتے ہیں یا وہ کونسے رویے ہیں جو لوگوں میں اشتعال پیدا کرتے ہیں جہاں ایک پرامن ترین طبقہ بھی تنگ آ کر بالآخر گریبان کو آنے لگتاہے
5: مقامی رہائشی اہلکاروں کی مقامی تھانہ جات میں مسلسل تعیناتی کیوں برقرار رکھی جاتی ہے ، جن کی ذاتی ،قومی یا کاروباری رنجشیں بھی ہوسکتی ہیں جو اپنے اختیار اور وردی کا ناجائز فائدہ اٹھانے کی کوشش کرسکتے ہیں ۔(واضح رہے کہ گذشتہ رات کو پیش آنے والے واقعہ کے یہ معاملہ فریقین کے مابین خوش اسلوبی سے حل ہو چکا تھا اور فریقین نے ایک دوسرے کو گلے لگا کر جھگڑا ختم کردیا تھا تاہم اسی چوکی کے انچارج عبدالسلام جو کہ مانگل کا رہائشی اور چوکی میں کافی عرصہ سے تعینات ہے نے سارے معاملے کو تھانے پہنچ کر الٹ کر رکھ دیا اور طے شدہ واقعہ کو دہشت گردی اور قاتلانہ حملے جیسے سنگین واقعات میں ملوث کرنے کی کوشش کیوں کر کی گئی اس حوالے سے ڈی آئی جی ہزارہ اور ڈی پی او ایبٹ آباد کو شفاف انکوائری کروانی چاہیے ۔)